یار، ’’تبصرعہ‘‘ کا بار اٹھانا ہمارے بس کا کہاں
خیر، آمدم برسر مطلب ۔۔۔ شارق بھائی، آپ سے ایک دوسرے مراسلے میں بھی استدعا کی تھی کہ آپ پہلے عروض کی مبادیات کی آگہی حاصل کیجیے۔ اس طرح اٹکل سے موزوں کیے گئے کلام کو کوئی ایک آدھ مرتبہ کو درست کر دے گا (جو آپ کے معاملے میں استاذی اعجازؔ صاحب نے کیا بھی) ۔۔۔ مگر ہر بار پکا پکایا حلوہ ملنا مشکل ہے۔
مجھے لگ رہا ہے کہ شاید آپ ہم سے بدظن ہو رہے ہیں ۔۔۔ سو آپ کی خاطرِ طبع کے لئے کچھ نکات اس غزل کی بابت لکھے دیتا ہوں۔
مطلع وزن کے اعتبار سے درست ہے (گو مجھے حصے کی ے کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا)۔
تاہم معنوی لحاظ سے دولختی کا شکار ہے۔ دونوں مصرعوں میں ربط نہیں بن رہا۔
گرامر کے حساب سے دوسرے مصرعے میں ایک غلطی یہ ہے کہ محبت کا بطور تھرڈ پرسن ذکر کیا گیا ہے ۔۔۔ سو اس صورت میں رہنے دو کہنا درست نہیں، رہنے دے کہا جائے گا جو آپ کی ردیف کے مطابق نہیں۔ ویسے آپ ردیف رہنے دے بھی کرسکتے ہیں، اکثر اشعار میں چل جائے گا۔
یوں سوچ کر دیکھیں ۔۔۔
ہمارے حصے میں غم کے عذاب رہنے دو
کہ اب سکون کے، راحت کے خواب رہنے دو
دونوں مصرعوں کا وزن درست نہیں۔ آنسو کی و کا اسقاط بھی اچھا نہیں۔ دوسرے یہ کہ ’’چند قطرے آب رہنے دو‘‘ کہنا بھی روز مرہ کے خلاف ہے۔ یا تو قطرۂ آب کہیں تو شاید چل جائے۔
دیکھنا اور تکنا ایک ہی بات ہے ۔۔۔ دیکھ کر تکنا ایک مہمل سی بات ہے۔ مصرع وزن میں بھی نہیں۔
دوسرے یہ کہ کون خوش ہیں؟؟؟
پھر یہ کہ محبوب کے سوال کا جواب دینا محبت کا تقاضا نہیں؟ سوالوں کا نظر انداز کیا جانا تو محبوب پر بہت بھاری گزرے گا!
ایک تو یہ کہ دونوں مصرعے بحر سے خارج ہیں۔
دوسرے یہ کہ احسان جتانا، اور نیکی کرکے اجر و ثواب کی تمنا رکھنا دو بالکل الگ الگ باتیں ہیں، سو ان کا موازنہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
وزن کی خامی ایک طرف، کیا آپ کو خود ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کے شعر کو کسی سنجیدہ غزل کے بیچوں بیچ ہونا چاہیے؟؟؟؟
یہاں بھی دونوں مصرعوں کا وزن ناقص ہے۔
معنوی تضاد یہ ہے کہ پہلے مصرعے میں استفہامیہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ غلطیوں کا ازالہ کیسے کیا جائے؟ اور دوسرے مصرعے میں مداوا نہ کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ یہاں سدِباب درست معنی میں استعمال نہیں کیا گیا۔ سدِباب کا مطلب کسی چیز کو روکنے کے ہیں، جیسا کہ لفظ سے خود ہی ظاہر ہے۔ سدِباب کا مطلب ازالہ کرنا نہیں ہوتا۔
دعاگو،
راحلؔ۔