مہاجر نامہ۔ منور رانا

الف عین

لائبریرین
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں

نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں

پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے
نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں

جو اک پتلی سڑک اُنّاو سے موہان جاتی ہے
وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں

یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد
ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں

ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں ہجرت کی اس اندھی گپھا میں یاد آتا ہے
اجنتا چھوڑ آئے ہیں الورا چھوڑ آئے ہیں

سبھی تیوہار مل جل کر مناتے تھے وہاں جب تھے
دوالی چھوڑ آئے ہیں دسہرا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں سورج کی کرنیں اس لئے تکلیف دیتی ہیں
اودھ کی شام کاشی کا سویرا چھوڑ آئے ہیں

گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب
الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں

ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی
کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں

کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں

شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی
کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں

وہ برگد جس کے پیڑوں سے مہک آتی تھی پھولوں کی
اسی برگد میں ایک ہریل کا جوڑا چھوڑ آئے ہیں

ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں

بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں

یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں

ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بدبداتی تھیں
سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی
ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں

یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں

ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں

وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں

اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا
جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں

جنابِ میر کا دیوان تو ہم ساتھ لے آئے
مگر ہم میر کے ماتھے کا قشقہ چھوڑ آئے ہیں

اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں
ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں

ہماری رشتے داری تو نہیں تھی، ہاں تعلق تھا
جو لکشمی چھوڑ آئے ہیں جو درگا چھوڑ آئے ہیں


۔ق۔


کل اک امرود والے سے یہ کہنا آ گیا ہم کو
جہاں سے آئے ہیں ہم اس کی بغیا چھوڑ آئے ہیں

وہ حیرت سے ہمیں تکتا رہا کچھ دیر پھر بولا
وہ سنگم کا علاقہ چھٹ گیا یا چھوڑ آئے ہیں

ابھی ہم سوچ میں گم تھے کہ اس سے کیا کہا جائے
ہمارے آنسوؤں نے راز کھولا چھوڑ آئے ہیں

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر
تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں

تسلی کو کوئی کاغذ بھی ہم چپکا نہیں پائے
چراغِ دل کا شیشہ یوں ہی چٹخا چھوڑ آئے ہیں

سڑک بھی شیرشاہی آ گئی تقسیم کی زد میں
تجھے ہم کرکے ہندوستان چھوٹا چھوڑ آئے ہیں

ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں

گزرتے وقت بازاروں میں اب بھی یاد آتا ہے
کسی کو اس کے کمرے میں سنورتا چھوڑ آئے ہیں

ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی
وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں

تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے
ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی
وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں

ہمیں مرنے سے پہلے سب کو یہ تاکید کرنا ہے
کسی کو مت بتا دینا کہ کیا کیا چھوڑ آئے ہیں
٭٭٭
دیو ناگری سے رسم الخط کی تبدیلی اور تدوین کے بعد
 

تلمیذ

لائبریرین
اب کیا رائے لکھیں ، واردات قلب کے اس سچے اظہار پر۔ جذبات کا ایک سمندر امڈرہا ہے اس نظم میں، جس کا اصل احساس تو صرف ان لوگوں کو ہی ہو سکتا ہے جو ہجرت کے اس جاں گداز عمل سے خود گذرے ہیں، تاہم عام قارئین کے لئے بھی یہ روئداد انتہائی متاثر کن ہے۔

جناب اعجاز صاحب، تلاش اور یہاں پوسٹ کرنے کے لئے شکر گزاری۔
 
بہت ہی ماضی پرست شاعر ہے

عزت لے ائے ہیں ایمان کے ساتھ
عسرت چھوڑائے ہیں غربت چھوڑ ائے ہیں
 

کاشفی

محفلین
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں

کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں

نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں

کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں

پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے
نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں

جو اک پتلی سڑک اُنّاو سے موہان جاتی ہے
وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں

یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد
ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں

ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں ہجرت کی اس اندھی گپھا میں یاد آتا ہے
اجنتا چھوڑ آئے ہیں الورا چھوڑ آئے ہیں

سبھی تیوہار مل جل کر مناتے تھے وہاں جب تھے
دوالی چھوڑ آئے ہیں دسہرا چھوڑ آئے ہیں

ہمیں سورج کی کرنیں اس لئے تکلیف دیتی ہیں
اودھ کی شام کاشی کا سویرا چھوڑ آئے ہیں

گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب
الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں

ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی
کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں

کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں

شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی
کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں

وہ برگد جس کے پیڑوں سے مہک آتی تھی پھولوں کی
اسی برگد میں ایک ہریل کا جوڑا چھوڑ آئے ہیں

ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں

بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں

یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں

ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں

مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بدبداتی تھیں
سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی
ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں

یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں

ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں

وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں

اتار آئے مروت اور رواداری کا ہر چولا
جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں

جنابِ میر کا دیوان تو ہم ساتھ لے آئے
مگر ہم میر کے ماتھے کا قشقہ چھوڑ آئے ہیں

اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں
ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں

ہماری رشتے داری تو نہیں تھی، ہاں تعلق تھا
جو لکشمی چھوڑ آئے ہیں جو درگا چھوڑ آئے ہیں


۔ق۔


کل اک امرود والے سے یہ کہنا آ گیا ہم کو
جہاں سے آئے ہیں ہم اس کی بغیا چھوڑ آئے ہیں

وہ حیرت سے ہمیں تکتا رہا کچھ دیر پھر بولا
وہ سنگم کا علاقہ چھٹ گیا یا چھوڑ آئے ہیں

ابھی ہم سوچ میں گم تھے کہ اس سے کیا کہا جائے
ہمارے آنسوؤں نے راز کھولا چھوڑ آئے ہیں

محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں

محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر
تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں

تسلی کو کوئی کاغذ بھی ہم چپکا نہیں پائے
چراغِ دل کا شیشہ یوں ہی چٹخا چھوڑ آئے ہیں

سڑک بھی شیرشاہی آ گئی تقسیم کی زد میں
تجھے ہم کرکے ہندوستان چھوٹا چھوڑ آئے ہیں

ہنسی آتی ہے اپنی ہی اداکاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں

گزرتے وقت بازاروں میں اب بھی یاد آتا ہے
کسی کو اس کے کمرے میں سنورتا چھوڑ آئے ہیں

ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی
وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں

تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے
ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی
وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں

ہمیں مرنے سے پہلے سب کو یہ تاکید کرنا ہے
کسی کو مت بتا دینا کہ کیا کیا چھوڑ آئے ہیں
٭٭٭
دیو ناگری سے رسم الخط کی تبدیلی اور تدوین کے بعد
بہت خوب۔۔ شیئر کرنے کے لیئے بہت ہی شکریہ۔۔
خوش رہیئے۔۔روح کو جھنجوڑ دینے والی شاعری ہے۔۔۔بہت ہی خوب
 

سیما علی

لائبریرین
تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے
ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں

یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی
وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں

ہمیں مرنے سے پہلے سب کو یہ تاکید کرنا ہے
کسی کو مت بتا دینا کہ کیا کیا چھوڑ آئے ہیں
اُستادِ محترم بہت بہت شکریہ اسقدر لاجواب کلام کی شراکت پر ۔۔۔۔۔
سلامت رہیے آمین
 
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

محترم استاد صاحب!
آپ نے رانا صاحب کا کلام شئیر کیا - جو کہ حسرتوں کا اور ماضی کا نوحہ تھا- متاثر کن بھی تھا- لیکن نوحہ آدھا تھا پورا نہیں تھا

رانا صاحب نے مہاجروں کا ذکر کیا لیکن مہاجر بننے پر مجبور کرنے والوں کا ذکر نہیں کیا- جن کے ظلم و ستم نے انہیں اپنا وہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جہاں ان کے پاس ہنستا بستا خاندان تھا سونا تھا بڑا گھر تھا - جس کو وہ آج بھی حسرت سے یاد کرتے ہیں- اپنی پیاری چیزوں کو لوگ تب چھوڑتے ہیں جب انہیں عزت اور جان کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے- تو خطرہ بننے والے کون لوگ تھے- وہ کوئی آسمان سے اترے شیطان تو نہیں تھے-

رانا صاحب نے ایک راکھی باندھنے والی بچی کو یاد کیا- لیکن امام ضامن باندھنے والی اس بچی کو بھول گئے جو اپنے ہی بھائیوں کے ظلم و ستم سے خون میں نہلا دی گئی- اور ان بچیوں کو بھی بھول گئے جن کی عزتوں کو تار تار کردیا گیا اپنے ہی پیارے وطن میں- تو یہ لوگ اچانک کہاں سے آگئے تھے-

رانا صاحب نے بستر پر پڑی بوڑھی ہڈیوں کا ذکر کیا لیکن تلواروں اور خنجروں میں پروئی ماں کو بھول گئے- اسی طرح وضو کے وقت گنگا تو یاد رہا لیکن خون سے رنگین دریا کا ذکر بھول گئے-

تو محترم استاد صاحب شاعر صاحب سے میری طرف سے عرض کریں کہ یا تو ماضی کو بھلا کے اچھے مستقبل کا سہرا لکھیں یا پھر ماضی کا ذکر کریں تو پورا کرنے کی ہمت کریں تاکہ دیانتدار شاعر کہلائیں

اگر گستاخی سمجھیں تو اس کے لیے معذرت
 
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

محترم استاد صاحب!
آپ نے رانا صاحب کا کلام شئیر کیا - جو کہ حسرتوں کا اور ماضی کا نوحہ تھا- متاثر کن بھی تھا- لیکن نوحہ آدھا تھا پورا نہیں تھا

رانا صاحب نے مہاجروں کا ذکر کیا لیکن مہاجر بننے پر مجبور کرنے والوں کا ذکر نہیں کیا- جن کے ظلم و ستم نے انہیں اپنا وہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جہاں ان کے پاس ہنستا بستا خاندان تھا سونا تھا بڑا گھر تھا - جس کو وہ آج بھی حسرت سے یاد کرتے ہیں- اپنی پیاری چیزوں کو لوگ تب چھوڑتے ہیں جب انہیں عزت اور جان کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے- تو خطرہ بننے والے کون لوگ تھے- وہ کوئی آسمان سے اترے شیطان تو نہیں تھے-

رانا صاحب نے ایک راکھی باندھنے والی بچی کو یاد کیا- لیکن امام ضامن باندھنے والی اس بچی کو بھول گئے جو اپنے ہی بھائیوں کے ظلم و ستم سے خون میں نہلا دی گئی- اور ان بچیوں کو بھی بھول گئے جن کی عزتوں کو تار تار کردیا گیا اپنے ہی پیارے وطن میں- تو یہ لوگ اچانک کہاں سے آگئے تھے-

رانا صاحب نے بستر پر پڑی بوڑھی ہڈیوں کا ذکر کیا لیکن تلواروں اور خنجروں میں پروئی ماں کو بھول گئے- اسی طرح وضو کے وقت گنگا تو یاد رہا لیکن خون سے رنگین دریا کا ذکر بھول گئے-

تو محترم استاد صاحب شاعر صاحب سے میری طرف سے عرض کریں کہ یا تو ماضی کو بھلا کے اچھے مستقبل کا سہرا لکھیں یا پھر ماضی کا ذکر کریں تو پورا کرنے کی ہمت کریں تاکہ دیانتدار شاعر کہلائیں

اگر گستاخی سمجھیں تو اس کے لیے معذرت
 

سیما علی

لائبریرین
محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں
ہمیں اپنے اباّجان یاد آگئے جب بھی وہ ذکر
کرتے امام بارگاہ آصف الدولۂ کا تو بالکل یہی لگتا کہ ایران میں امامَ رضا علیہ السلام کے روضہ کا ذکر ہو ۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ہمیں اپنے اباّجان یاد آگئے جب بھی وہ ذکر
کرتے امام بارگاہ آصف الدولۂ کا تو بالکل یہی لگتا کہ ایران میں امامَ رضا علیہ السلام کے روضہ کا ذکر ہو ۔۔۔۔۔
شاعر کا کمال یہ ہے ہندوستانی ہونے پر بھی انہوں نے آپ لوگوں جیسے پاکستانی مہاجر خاندانوں کی داستان بیان کی یے
 

سیما علی

لائبریرین
شاعر کا کمال یہ ہے ہندوستانی ہونے پر بھی انہوں نے آپ لوگوں جیسے پاکستانی مہاجر خاندانوں کی داستان بیان کی یے
صد فی صد درست اُستادِ محترم اباّجان کو لکھنؤ سے بے حد اُنسیت تھی اور جب ذکر کرتے ایسا لگتا دنیا وہیں ختم ہے ۔۔۔
 
ہمارے تایا مرحوم نے جب اپنا مکان بنوایا تو نقشہ ویسا ہی رکھا جیسا کہ تقسیم سے پہلے کے زمانے میں یوپی وغیرہ کے مکانوں کو ہوا کرتا تھا ... ہم سے بھی بہت اصرار کیا کہ اسی طرز پر مکان بنوائیں ... مگر ہم نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ
ع. مہاجر ہیں، مگر ہم اب "وہ" دنیا چھوڑ آئے ہیں :)
 
Top