مہرِ روشن چُھپ گیا تیری نظر کے سامنے ۔ طارق سلطان پوری

جیسے چُھپ جاتی ہے تیرہ شب سحر کے سامنے
مہرِ روشن چُھپ گیا تیری نظر کے سامنے

اُس گلَ عارض کی دل آرا پھبن کا ذکر چھیڑ
ہم نفس مجھ بلبلِ خستہ جگر کے سامنے

اُس حریمِ ناز تک لے جا یہ پیغام اے صبا
تیرے دیوانے کھڑے ہیں رہگزر کے سامنے

کارِ پاکاں را قیاس از خود مگیر سے بو الفضول
سنگریزوں کی حقیقت کیا گہر کے سامنے

آفتاب آمد دلیل آفتاب اے شب پرست
اب بھی ظلمت ہے مگر تیری نظر کے سامنے

کاش اے طارق مجھے بھی رقصِ بسمل ہو نصیب
خنجرِ مژگانِ مَازَاغَ البَصَر کے سامنے

محمد عبدالقیوم طارؔق سلطان پوری
 
Top