مہمان نوازی

x boy

محفلین
ایک مرتبہ ایک مہمان دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا۔ چونکہ اس وقت کے لحاظ سے ایک شخص کی مہمان نوازی بھی آسان نہ تھی۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تحریک فرمائی اور فرمایا کہ جو شخص اس کی مہمان نوازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحم کی امید پر اپنے گھرمیں موجود سامان خوردونوش کا جائزہ لیے بغیر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس مہمان کو اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہوں۔ چنانچہ اسے ساتھ لے گئے۔ گھر پہنچے تو بیوی سے معلوم ہوا کہ کھانے کو کچھ نہیں۔ صرف اتنا ہی کھانا ہے جو بچوں کے لیے بمشکل کفالت کرسکے گا۔ لیکن بیوی کی طرف سے مایوس کن اطلاع کے باوجود انہیں کوئی تشویش نہ ہوئی۔ اور جذبہ مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ آیا۔ آپ نے بیوی سے کہا کہ زیادہ فکر تو بچوں کا ہی ہے لیکن ان کو پیار دلاسا دے کر بھوکا ہی سلا دو۔ لیکن ایک مشکل ابھی بھی باقی تھی اور وہ یہ کہ اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق مہمان گھر والوں کو ساتھ شریک کرنے پر اصرار کریگا۔ کیونکہ اس وقت تک پردہ کے احکام ابھی نازل نہیں ہوئے تھے۔ اور ا سکا حل یہ سوچا گیا کہ جب میاں بیوی مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو بیوی روشنی ٹھیک کرنے کے بہانہ سے چراغ گل کردے اور پھر دونوں ساتھ بیٹھ کر یونہی منہ مارتے رہیں۔ کہ گویا کھانا کھا رہے ہیں۔ لیکن دراصل کچھ نہ کھائیں اور اس طرح مہمان سیر ہو کر کھانا کھالے۔ چنانچہ اس ایثار پیشہ خاندان نے ایسا ہی کیا۔ بچوں کو فاقہ سے بہلا کر سلا دیا گیا۔ بیوی نے روشنی بجھا دی اور میاں بیوی ساتھ بیٹھ کر یونہی منہ ہلاتے رہے کہ گویا بڑے مزے سے کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح گھر کے سب لوگ تو فاقہ سے رہے اور مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھالیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس کی خبر دی۔ چنانچہ صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ کو بلایا اور رمسکراتے ہوئے فرمایا کہ رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا کیا۔ آ پ نے فرمایا جو کچھ تم نے کیا اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ عرش پرمسکرایا اور اس لیے میں بھی مسکرایا ہوں۔
(مسلم ج۲ ص 198 )
 
Top