میاں صاحب مستقبل کی بات کریں۔ حسن نثار

قیصرانی

لائبریرین

یا (ن) لیگ میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو اپنے لیڈر کو اک ایسی بات کی تکرار سے رو ک سکے جو بے بنیاد بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ میاں نواز شریف تسلسل سے یہ بات دہرائے جارہے ہیں کہ”تبدیلی“ لانے کے دعویدار تو جب لائیں گے لیکن ہم تو کب سے تبدیلی لا بھی چکے۔ ہم نے موٹروے بنائی، ایٹمی دھماکے کئے اور سبز پاسپورٹ کو سربلند کیا اور ہمارے زمانہ میں دہشتگردی کا نام و نشان نہ تھا یعنی میاں صاحب اپنے زمانہ کو ”سنہرا دور“ قرار دینے پر مصر ہیں اور نیوٹرل لوگ اس کا مذاق اڑارہے ہیں۔
لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ وہی سنہرا زمانہ نہیں تھا جب بھوک کے مارے چن زیب نامی اک پاکستانی نے آپ کے گھر کے سامنے کامیاب خود سوزی کی تھی؟ اور یہ عہد خود سوزی تھا ۔
کیا یہ وہی دور نہ تھا جب یہ سرخی بھی کسی اخبار کی زینت بنی کہ……”شیر آٹا کھا گیا“
کیا یہی وہ گولڈن پیریڈ نہیں تھا جب ”ریاض بسرا“ جیسی بلائیں اس ملک میں دندناتی پھرتی تھیں؟
اور کیا یہ اسی زمانے کی بات نہیں جب عدلیہ پر چڑھائی ہوئی اور اس کے نتیجہ میں کچھ متوالے نااہل قرار دئیے گئے؟ اور آج تک …”پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں“ ۔
اور کیا یہی وہ زریں عہد نہیں تھا جس میں اک ڈکٹیٹر کے شب خون پر آپ کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو لاہور جیسے شہر میں لوگوں نے اس قدر مٹھائیاں تقسیم کی کہ سویٹ شاپس خالی ہوگئیں۔
کیا آپ کا دورہی وہ دور نہیں تھا جب ڈالر اکاؤنٹ منجمد کرکے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کردیا گیا تھا اور لاتعداد گھر برباد ہوگئے۔
کیا یہی وہ ”مبارک “ زمانہ نہیں تھا جب فرقہ واریت کا عفریت سرعام نمازیوں تک کا خون پی رہا تھا؟یہاں تک کہ خود ظل سبحانی اور قائد اعظم ثانی بھی قاتلانہ حملہ سے محفوظ نہ رہ سکے اور رائے ونڈ روڈ پر بال بال بچے۔
یہی دور تھا ناں جب سیاسی انتقام بذریعہ احتساب الرحمن ساتویں آسمان پر محو پرواز تھا جس کا ٹارگٹ بینظیر بھٹو نامی وہ خاتون بھی تھی جس کے ساتھ آپ نے ”میثاق جمہوریت“ پر دستخط فرمائے اور آج یہ دستاویز آپ کو بے حد عزیز ہے۔ آصف زرداری صاحب کی زبان پر بھی جمہوری داستان بھی تب ہی رقم کی گئی۔
کیا یہی دور نہ تھا جب ارتکاز طاقت کے شوق میں ہر طاقت کے ساتھ محاذ آرائی کو بڑھاوا دیا گیا جو”بارہ اکتوبر“ کا باعث بنا جس نے ملک کی چولیں ہلا دیں۔
پرویز مشرف پاکستان کے لئے ”بری خبر“ تھے تو اس بری خبر کو جنم کس نے دیا اور جنرل پرویز مشرف کس ”جینئس“ اور”وژنری“ کی چوائس تھے؟ اور کیوں؟
کیا ”پیلی ٹیکسی سکیم“ معیشت کے منکے پر ضرب کاری اک خالصتاً غیر اقتصادی اور سیاسی فیصلہ نہ تھا؟…سستی سیاسی مقولیت و شہرت کی اک بے حد مہنگی کوشش جس کی قیمت ملکی خزانے نے چکائی کہ اچھی سکیم میں ہمیشگی ہوتی ۔
کیا آپ بھول گئے کہ آپ کے سنہری یا آہنی دور حکومت کے دوران قیمتوں میں اضافہ کی شرح کیا تھی؟ فی کس آمدنی کتنی تھی؟ زرمبادلہ کے ذخائر کتنے رہ گئے تھے؟ اور بے روزگاری کا حال کیا تھا؟
کیا یکساں نصاب تعلیم جاری ہوگیا تھا؟ زرعی اصلاحات نافذ کردی گئی تھیں؟ ملاوٹ ختم ہوگئی تھی یا جعلی دوائیں بننی بکنی بند ہوگئی تھیں؟ پاپولیشن مینجمنٹ کی طرف توجہ دی گئی تھی یا لاء اینڈ آرڈر میں کوئی بہتری دیکھی گئی تھی؟ تھانہ کلچر تو آج تک سو فیصد وہی ہے حالانکہ گزشتہ چند سال سے پنجاب پر پھر آپ کی حکومت ہے؟ کوئی انقلابی زرعی پالیسی آئی تھی یا صنعتی؟ کتنے نئے چھوٹے شہروں کی بنیاد رکھی گئی تاکہ دیہی علاقوں سے شہروں پر یلغار کی حوصلہ شکنی ہوسکے؟ مقامی حکومتوں کا حال کیسا تھا؟ انتخابی اصلاحات ہوئی تھیں یا جعلی ووٹرویڈ آؤٹ کیا گیا تھا؟ دہری شہریت پر بین لگایا؟ عطائی ڈاکٹرز ختم کئے؟ میڈیا کا یہ سیلاب بھی مشرف صاحب کا تحفہ ہے ،آپ یا کوئی اور سیاسی ہوتا تو یہ ”جرم“ اور گناہ“ کبھی نہ کرتا؟ پینے کے صاف پانی کی کہانی کا انجام بھی”سرانجام“ ہے اور شرح خواندگی میں کتنا اضافہ ہوا تھا؟
میاں صاحب!
سچ تو یہ ہے کہ آپ… آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کسی نے کبھی کسی حقیقی تبدیلی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بھٹو سیاست کو ڈرائینگ روم سے نکال کر چوراہے میں لایا جو واقعی خوفناک ”تبدیلی“ تھی اور اسی لئے وہ آج تک زندہ ہے… باقی سب ٹوپی ڈرامے اور سطحی سیاست یا ڈنگ ٹپاؤ دھندے اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ کر شب دیگ پکانے کے مترادف ہے۔ آپ لوگوں نے تو آج بھی سیکورٹی کی آڑ میں سرکاری سڑکوں پر قبضے کرکے عوام کے رستے روک رکھے ہیں اور آپ کے روٹ ہی ختم ہونے میں نہیں آتے تو آپ سے تبدیلی کی توقع؟؟؟
اے امیر المومنین جیسے منصب کے امیدوار! بڑے لیڈر شخصیات اور واقعات سے ماورا ہو کر نئے موضوعات اور نئے عنوانات کے نقیب ہوتے ہیں۔موٹر ویز، ایٹم بم اور ائیر پورٹس سے نہ عوام کو علم ملتا ہے نہ علاج نہ عزت نفس…یہ”منزلیں“ نہیں بلکہ ان تک پہنچنے کے مختلف”رستے“ ہیں۔ قائدین اپنی قوموں کی اپ گریڈیشن کو ٹارگٹ کرتے ہیں۔ عام آدمی کو موٹر وے، ایٹم بم اور ائیر پورٹ سے کیا لینا دینا؟ایٹم بم آپ کی بے تحاشہ دولت اور غریب کی غربت کا محافظ ہے اور کیا یہ سب مل جل کر بھی اس کا مقدر بدل سکے؟ سو پلیز !ماضی سے نکل کر مستقبل کی فکر کریں، کوئی وژن دیں، کسی نئی حکمت عملی کااعلان کریں۔ آپ کی جلا وطنی جبری تھی اور لمبی بھی، میری جلا وطنی خود ساختہ تھی اور مختصر بھی…جو زخم آپ کو لگے مجھے ان کا بھرپور اندازہ ہے لیکن افسوس آپ کی سمت اور ترجیحات درست نہیں… ماضی پر جزوی مٹی ڈال کر کلی طور پر مستقبل پر فوکس کریں ورنہ سب کچھ”آؤٹ آف فوکس“ ہوجائے گا۔

بشکریہ جنگ سرچ ایبل
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ کالم مجھے اس لئے پسند آیا کہ اس میں موجود سوالات بہت بنیادی نوعیت کے ہیں جن کے جوابات شاید ن لیگ کے پاس نہ ہوں۔ اس کے علاوہ برسبیل تذکرہ، جنگ میں ایک دن ایک صحافی نے شہباز شریف کے خلاف کالم لکھا تھا کہ انہوں نے اپنے ذاتی استعمال کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کیا تھا۔ اگلے دن دوسرے کالم نگار نے جواب آں غزل کے طور پر فرمایا کہ شہباز شریف صاحب کا اپنا سرکاری ہیلی کاپٹر بغرض مرمت گیا ہوا تھا تو انہوں نے آرمی سے ہیلی کاپٹر اپنے ذاتی استعمال کے لئے منگوایا جس کے لئے شاید پندرہ لاکھ روپے انہوں نے اپنی جیب سے ادا کئے۔ یہ بھی اس کالم میں تھا کہ محترم شہباز شریف اپنی سرکاری ڈیوٹی کا معاوضہ ایک روپیہ بھی وصول نہیں کرتے۔ اسی کالم میں یہ بھی تھا کہ حضرت شہباز شریف نے پچھلے سال کا پورا ٹیکس مبلغ پانچ ہزار روپے ادا کیا تھا۔ حضرت اس لئے لکھا کہ جو بندہ اتنا غریب ہو کہ پانچ ہزار سالانہ ٹیکس دے، اس کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہوگی کہ وہ ذاتی استعمال کے لئے ہیلی کاپٹر کا معاوضہ پندرہ لاکھ ادا کرے؟ اگر گیدڑ سنگھی ہے ان کے پاس تو پھر تو ٹھیک ہے ورنہ تو یہ ولی اللہ ہوئے کہ غیب سے ان کے اخراجات پورے ہو رہے ہیں :)
 

میر انیس

لائبریرین
پر شمشاد بات یہ ہے کہ جب ایک پارٹی اقتدار سے ہٹ جاتی ہے یا محروم کردی جاتی ہے تو عوام میں جاکر مظلوم بن جاتی ہے۔ اسکو اپنا دور یاد ہی نہیں رہتا اور پاکستان کی عوام کو کیا کہوں کہ وہ بار بار چوروں کو آزماتی ہے صرف موجودہ دور کو یاد رکھا جاتا ہے اور ماضی بھلادیا جاتا ہے۔ قیصرانی صاحب کی بات جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ یہی ہے کہ بھائی ہم کو پتہ ہے کہ موجودہ حکمران کیسے ہیں پر انکی کوتاہیاں نواز شریف جیسے لوگ اجاگر کر کے یہ سمجھیں کہ ہم انکا ماضی بھول گئے ہیں تو یہ انکی غلط فہمی ہے۔سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں
 

فہیم

لائبریرین
بات صحیح بھی لکھی ہو۔
لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ بندہ حسن نثار پسند نہیں۔
اس شخص کو سوائے تنقید کرنے کے اور کچھ نہیں آتا اور تنقید ہر کوئی کرسکتا ہے۔
بات تب ہے جب انسان کچھ تعمیری بھی کرے۔
اس حسن نثار نے آج تک سوائے تنقید کرنے کے کچھ تعمیری بھی کیا ہوا تو بتائیں؟

باقی شریف برادران سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں مجھے خود یہ لوگ پسند نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا

صحیح پوچھیں تو مجھے کوئی بھی پسند نہیں لیکن اور کوئی راستہ بھی نہیں کہ انہی بُرے لوگوں میں سے کسی کا چناؤ کرنا ہے۔ تو کیوں نا بُروں میں سے کسی کم بُرے کو چُنا جائے۔
 

میر انیس

لائبریرین
پر برے لوگ کب تک ہم پر مسلط رہیں گے جو ہماری مجبوری بنی رہے کہ ہم انتخاب ان میں سے ہی کریں کیا پاکستان میں اچھے لوگوں ک کال پڑی ہوئی ہے ۔ ویسے اپنی ہی بات کا ایک جواب تو میرے پاس ہے بات دراصل صرف اتنی سی ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے زیادہ تر آبادی زراعت کے پیشے سے منسلک ہے اور یہ سب بیچارے کسی نہ کسی زمیندار یا جاگیردار کے ملازم ہیں جو ووٹ تو چھوڑیں سانس بھی اپبنی مرضی سے نہیں لیتے لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی انہی لوگوں کو منتخب کرلیا جاتا ہے شہری آبادی ایک تو کم ہے دوسرے چھوٹے شہروں پر بھی انہی لوگوں کا اثر و رسوخ ہے خواندگی بھی کم ہے ۔جب تک واقعی کوئی انقلاب نہیں آجاتا ہم کو انہی کو بھگتنا پڑے گا
 

شمشاد

لائبریرین
جب تک ہم خود ٹھیک نہیں ہوں گے، یہ بُرے لوگ ہی مسلط رہیں گے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ٹھیک نہیں ہونا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بات صحیح بھی لکھی ہو۔
لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ بندہ حسن نثار پسند نہیں۔
اس شخص کو سوائے تنقید کرنے کے اور کچھ نہیں آتا اور تنقید ہر کوئی کرسکتا ہے۔
بات تب ہے جب انسان کچھ تعمیری بھی کرے۔
اس حسن نثار نے آج تک سوائے تنقید کرنے کے کچھ تعمیری بھی کیا ہوا تو بتائیں؟

باقی شریف برادران سے مجھے کوئی ہمدردی نہیں مجھے خود یہ لوگ پسند نہیں۔
یہ بندہ تنقید کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اپنے مطلب کے کالم لکھ سکتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

جیسا کہ میں نے لکھا کہ ہمیں اس کے سوالات سے مطلب ہے نہ کہ اس کے ذاتی کردار سے
 

میر انیس

لائبریرین
قیصرانی آپ نے بالکل صحیح فرمایا اس بات پر مجھکو حضرت علی(ع) کا وہ قول یاد آگیا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہ رہا ہے
 
یہ کالم لکھنے والے حسن نثار سے کون سوال کرے گا کہ ایک صحافی کے پاس سات ایکڑ کا گھر اور اس میں رکھنے کے لئے سات کروڑ کے جنگلی جانورکہاں سے آیے
 

راشد احمد

محفلین
یہ کالم لکھنے والے حسن نثار سے کون سوال کرے گا کہ ایک صحافی کے پاس سات ایکڑ کا گھر اور اس میں رکھنے کے لئے سات کروڑ کے جنگلی جانورکہاں سے آیے
کسی زمانے میں رائے ونڈ لاہور کا حصہ نہیں ہوتا تھا یہ قصور کا حصہ تھا اورایک گاؤں ہوتا تھا، جہاں اب فارم ہاؤسز بنے ہیں یہ سب زرعی رقبہ تھا لیکن اس علاقے کی قسمت اس وقت جاگی جب میاں نواز شریف نے ایک عظیم الشان محل بنایا تویہاں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور یہاں ایک تو قبضہ مافیا سرگرم ہوگیا اور کسانوں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔
ویسے یہ باتیں مشہور ہیں کہ نواز شریف کا ہزاروں کنال پر مشتمل محل بنوانے میں ن لیگ کے دو لوگوں چوہدری عبدالغفور موجودہ صوبائی وزیر، ملک افضل کھوکھر ایم این اے کے بھائی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم
ڈان ٹی وی پر ایک پروگرام "گریبان" حسن نثار برادری کا بھی شروع کیا تھا
بڑی ہمت والا بندہ تھا۔
 
Top