ایسا کیجئے کہ آپ ایک آم مت کھائیے گا، جب بھی گرمی ستائے ایک کھا لیجئے گا تاکہ آم کی لذت کی خوشی گرمی کی تکلیف پر غالب آجائےزیدی صاحب اب اتنا ظلم تو نہ کریں صاحب کہ ایک آم کھانے کے لیے آپ پورے سات آٹھ ماہ ہمیں جھلسا ہی دیں!
ایسا کیجئے کہ آپ ایک آم مت کھائیے گا، جب بھی گرمی ستائے ایک کھا لیجئے گا تاکہ آم کی لذت کی خوشی گرمی کی تکلیف پر غالب آجائےزیدی صاحب اب اتنا ظلم تو نہ کریں صاحب کہ ایک آم کھانے کے لیے آپ پورے سات آٹھ ماہ ہمیں جھلسا ہی دیں!
اکمل بھائی آپ کا آموں سے عشق تو مشہور ہے اس پر تو باقاعدہ غزل بھی لکھی جا چکی ہے۔بھئ جس بات میں بھی آم کا ذکر آجائے تو بات میں مزا ویسے ہی آجاتا ہے ۔ ۔ ۔
۔۔۔جی۔۔۔محترم لئیق بھائی ۔ ۔۔ ۔ مگر یہاں ہم سے بھی بڑے عشاق پڑے ہیں۔۔۔ہم تو صرف مصرح طرح دیتے ہیں ۔۔باقی پورا کلام ۔۔۔ان عشاق کے جوابات میں پورا ہوتا ہے ۔۔۔اکمل بھائی آپ کا آموں سے عشق تو مشہور ہے اس پر تو باقاعدہ غزل بھی لکھی جا چکی ہے۔
اور "بھنگ" کے "باغات" کا تذکرہ آپ شاید بھول گئے۔باہر والے باغیچہ میں پھول لگے ہیں اور ساتھ انار کا درخت ہے، جس میں چھوٹے انار لگتے ہیں۔
یہاں پسندیدہ پھلوں کے حوالے سے بات ہورہی ہے، کاروبار کے حوالے سے نہیںاور "بھنگ" کے "باغات" کا تذکرہ آپ شاید بھول گئے۔
ہم نے تو باغات کہہ دیا تھا ۔ ۔ ۔ اب یہ صاحب باغ پر منحصر ہے ۔ ۔ ۔ کے وہ امرود اور انار لگائے ۔ ۔ ۔ یا پوست کی کاشت کرے ۔ ۔ ۔۔اور "بھنگ" کے "باغات" کا تذکرہ آپ شاید بھول گئے۔
سبحان اللہ ۔ ۔ ۔ ۔قدرت کی مہربانیوں اور حکمتوں کے حوالے سے یہ بات یاد آئی کہ کویت میں ایک موسم آتا ہے جب کھجوریں تیار ہوتی ہیں مگر خشک ہوتی ہیں، ان دنوں میں موسم میں حبس کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ حبس پیدا کرنے والی ہوا میں نمی سے کھجوروں میں رس پڑجاتا ہے اور کھجوریں میٹھی اور لذیذ ہوجاتی ہیں
لئیق بھائی ۔ ۔ ۔ آپ کی بات سے مجھے ایک مجلس میں سنا ہوا بیان کا ایک حصہ یاد آگیا۔ ۔ ۔ مولانا صاحب ۔ ۔ ۔ حسن کی تعریف بیان کر رہے تھے کے حسن کی تعریف کیا ہوتی ہے ۔۔۔کافی پرانی بات ہے مگر نقش ہو گئی۔ ۔ ۔ اب میں کسی بھی چیز کو حسین کہنے سے پہلے وہ مد نظر رکھتا ہوں یعنی جیسے خدا کے ہر کام میں حسن ہے۔ ۔ تو تعریف میں انہوں نے کہا حسن کی سادہ تعریف ہے توازن۔ ۔ ۔ یعنی جس چیر میں توازن ہے وہ حسین ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ اب اسے کہیں بھی فٹ کرلیں ۔ ۔ ۔ خدا کے ہر کام میں توازن ہوتا ہے ۔ ۔ ۔قدرت کی مہربانیوں اور حکمتوں کے حوالے سے یہ بات یاد آئی کہ کویت میں ایک موسم آتا ہے جب کھجوریں تیار ہوتی ہیں مگر خشک ہوتی ہیں، ان دنوں میں موسم میں حبس کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ حبس پیدا کرنے والی ہوا میں نمی سے کھجوروں میں رس پڑجاتا ہے اور کھجوریں میٹھی اور لذیذ ہوجاتی ہیں
وہ روڈ کے پار گھر کے سامنے خالی پلاٹ میں ہیں۔اور "بھنگ" کے "باغات" کا تذکرہ آپ شاید بھول گئے۔
ماشاءاللہ اللہ تعالیٰ گڑیا کو دین و دنیا کی سمجھ اور بھلائی نصیب فرمائے،میری بیٹی اس سال جولائی میں نو سال کی ہو جائے گی مگر ہے بہت جینیس جب سے بولنا آیا ہے اسے کسی نہ کسی معاملے کی کرید رہتی ہے کو ایسا کیوں ہوتا ہے ویسا کیوں۔۔ابھی کچھ دنوں پہلے ایک مکالمہ ہوا جو موقع محل کے حساب سے تھا سوچا آپ سے شیئر کروں
۔۔اففف۔۔۔۔"ابو کتنی گرمی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے گرمی اچھی نہیں لگتی اتنا پسینہ پھر کہیں ۔۔ جا بھی نہیں سکتے۔۔۔ میں: ہاں یہ تو ہے ۔ ۔ ۔ مگر بیٹا گرمی بھی ضروری ہے۔۔بیٹی: کیوں ضروری ہے۔۔۔مجھے سردی اچھی لگتی ہے بس صرف سردی رہنی چاہیے ۔۔کتنا مزا آتا ہے سوپ چلغوزے بادام پستے۔۔۔
میں: بیٹا جی ہر موسم کے فائدے ہیں اللہ نے کچھ نہ کچھ بہتری رکھی ہے۔۔۔اللہ کا کوئی بھی کام بے سبب نہیں ہوتا۔۔۔
مگر بیٹی صاحبہ اڑ گئیں کہنے لگیں اچھا مجھے بتائیں پھر گرمی کا کیا فائدہ ۔۔میرے ذہن میں پوری لسٹ آرہی تھی فائدے کی مگر بیٹی کی مینٹیلٹی کو سامنے رکھتے ہوے اسے قائل کرنا تھا ۔۔۔میں صحن میں آیا اسے لے کر۔۔سائے کی طرف کو کھڑے ہو کر اسے کہا دیکھو کچھ نظر آیا۔۔کہنے لگی اتنی تیز دھوپ ہے چلیں اندر چلیں۔۔۔میں نے کہا اوپر دیکھو۔۔۔میں نےصحن میں لگے آم کے درخت کی طرف اشارہ کیا جس میں بڑی بڑی کیریاں جھول رہی تھیں۔۔۔اس نے دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی جیسے اسے ساری بات سمجھ آگئی ہو پھر ہم اندر چلے آئے میں نے۔۔پوچھا۔۔۔ ہاں کیا سمجھیں ۔؟۔۔ کچھ فائدہ سمجھ آیا۔۔۔گرمی کا۔۔؟۔اس نے کہا۔۔۔ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں ۔۔۔اگر گرمی نہیں ہو گی تو پھر آم کیسے کھایئنگے ۔ ۔ ۔ میں مسکرا کر رہ گیا۔۔۔شکر کیا خدا کا کہ بات سمجھ آگئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مگر اس بار لگ رہا ہے ۔۔آم سے پہلے ہم خود پک جائینگے۔۔۔اللہ معاف کرے پورے جوبن پر ہے گرمی ۔۔اور ابھی تو آغاز ہے ۔۔بس اللہ ہمت دے۔۔ رمضان بھی قریب ہیں۔۔۔
ان کو بڑا یاد رکھا ہوا ہے آپ نے بھئی۔اور "بھنگ" کے "باغات" کا تذکرہ آپ شاید بھول گئے۔
وہ چمن بھی تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کےوہ روڈ کے پار گھر کے سامنے خالی پلاٹ میں ہیں۔
وہ روڈ کے پار گھر کے سامنے خالی پلاٹ میں ہیں۔
آم تو خیر سبھی کو پسند ہیں، مجھے بھی اور میری بیوی اور بچے تو آموں کے دیوانے ہیں۔ لیکن بخدا اگر آموں کے بدلے تھوڑی سی گرمی کم ہو جائے تو میں فی الفور آم چھوڑنے کو تیار ہوں!ایسا کیجئے کہ آپ ایک آم مت کھائیے گا، جب بھی گرمی ستائے ایک کھا لیجئے گا تاکہ آم کی لذت کی خوشی گرمی کی تکلیف پر غالب آجائے
آپ ایسا کیجئے کہ چند دن اکمل زیدی کی صحبت میں گزارئیے تاکہ آموں کے عشق کا فیض کو بھی ملے اور جب آموں کی محبت آپ کے دل میں دو آتشہ ہو جائے تو پھر موسم کی گرم ، آپ کو محبت کی گرمی کے آگے ہیچ لگے گی۔آم تو خیر سبھی کو پسند ہیں، مجھے بھی اور میری بیوی اور بچے تو آموں کے دیوانے ہیں۔ لیکن بخدا اگر آموں کے بدلے تھوڑی سی گرمی کم ہو جائے تو میں فی الفور آم چھوڑنے کو تیار ہوں!
ارے نہیں صاحب، مرزا غالب سے زیادہ آم کس کو پسند ہونگے اور مرزا ہمارے لاکھ مرشد سہی، لیکن فقط آموں کے بدلے اتنی گرمی میں جھیلنے کو ہرگز تیار نہیں۔آپ ایسا کیجئے کہ چند دن اکمل زیدی کی صحبت میں گزارئیے تاکہ آموں کے عشق کا فیض کو بھی ملے اور جب آموں کی محبت آپ کے دل میں دو آتشہ ہو جائے تو پھر موسم کی گرم ، آپ کو محبت کی گرمی کے آگے ہیچ لگے گی۔
وارث بھائی ایک بار ہم مہوڈنڈ جھیل گئے جولائی کا مہینہ تھا آم کی پیٹیاں ساتھ تھی ٹھنڈ ا کرنے کے لیے وہیں جھیل کے پانی میں رکھ دیں اتنے ٹھنڈے ہو گئے کے کھانا مشکل ہوگیا۔۔۔۔ویسے بھی موسم کافی ٹھندا تھا۔۔۔۔۔۔مقطع کا بند یہ ہے کہ۔۔۔ وہ مزا نہیں آیا۔۔جو مزالو میں کھانے کا ہے ۔۔۔ارے نہیں صاحب، مرزا غالب سے زیادہ آم کس کو پسند ہونگے اور مرزا ہمارے لاکھ مرشد سہی، لیکن فقط آموں کے بدلے اتنی گرمی میں جھیلنے کو ہرگز تیار نہیں۔
اب تو مزید قافلے پہنچینگے۔ یاز صاحب تو ہیں سفر میں اور۔۔شاید عبید انصاری صاحب کی کال آجائے تابش صاحب کو انکے گھر کا پتہ پوچھنے گھبرائے گا نہیں محمد تابش صدیقی بھائی انہیں آپ کے گھر نہیں سامنے پلاٹ پر جانا ہو گامحفلین ایسی باتیں بھولتے نہیں ہیں۔
بھولے سے لکھ دیا تھا ترا نام جس جگہ
اب تک وہاں اُترتے ہیں خوشبو کے قافلے
وعلیٰ ہٰذا لقیاس
وہ چمن خود کفیل ہے، کسی کی باغبانی و پاسبانی کی پروا کیے بغیر اپنے حصے کا کام کرتا ہے۔وہ چمن بھی تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
وغیرہ وغیرہ