سر جی شوق سے میری مراد آپ کے مشاغل کیا کیا ہیںشوق کیا کیا ہیں؟
علم، عمل اور تعلیم کے متعلق آپ کے زرین خیالات جان کر اچھا لگاتعلیم تو اتنی نہیں ھے لیکن جیسا کہ اپنے پوچھا تعلیمی قابلیت کے بارے میں شوق کیا کیا ہیں؟
میں یہ کہوں گا کہ علم اور عمل ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم ھے جس نے علم حاصل نہین کیا اسکی زندگی کا کوئی مقسد نہیں ھے اور جس نے علم حاصل کیا ھے اس کہ لیے عمل بہت ضرورہ ھے علم کا مطلب صیح سے کچھ سیکھنا ھے اور جب تم کسی سے کچھ سیکھ چکے ہو تو تم پر یہ زمہ داری عائد ہوتی ھے کے لوگوں تک پہنچاو یہ ایک روشن چراغ ھے اسکا نور اگے بھی منتقل کرو اور جب تک تم اس میں عمل کا انصار شامل نہیں کرو گے تو تم دوسروں تک نہیں پہنچاسکتے اس نور سے جہاں کو روشن کرنا اپ کا فرض ھے اور فرض کو قرض مت بنو نہیں تو یہ مرض بن جائے گا
سر جی شوق سے میری مراد آپ کے مشاغل کیا کیا ہیں
خوش آمدید جناب گلزار خان
محفل میں خوش آمدید
تھوڑا تفصیل سے اپنے بارے میں بیان کریں تعلیمی قابلیت کے بارے میں اور شوق کیا کیا ہیں؟
کوشش کریں کہ اردو میں ہی تبادلۂ خیال کریں۔ اسی طرح اردو سیکھنے کی تمنا پوری ہو سکے گی۔I have a lot of hobbies of which three are my most favoured .They are reading, writing and when there's nothing else to do look up the ceiling ,wishing there were stars all over.
خوش آمدید جنابالسلام علیکم
نام گلزار خیبر پختو نخوا پاکستان کا رہنے والا ہوں اور اردو سے بہت لگاو ہیے اور اردو لکھنے کی اور سیکھنے کی کوشیش کر رہا ہوں
آج کے دور میں ہماری تسلی صرف سرٹیفکیٹ سے ہوتی ہے ۔ میں نے کئی اداروں میں کام کیا۔ سینکڑوں لوگوں کے انٹرویو کیے اور معاشرے کی یہ حقیقت سامنے آئی کہ تعلیم اور قابلیت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور دونوں ڈگری کی محتاج نہیں۔ علم کا جہاں بی اے ایم اے کی گنتی کی چند کتابوں سے بہت آگے ہے۔ میں نے گھر میں کام کرنے والے ملازمین، ریل ، بس میں سفر کرنے والے عام سے لوگ، کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، پہاڑوں پر رہنے والے سادہ لوح افراد کو علم اور قابلیت میں ہزاروں ڈگری یافتہ لوگوں سے بڑھ کر پایا اور ان سے زندگی کے وہ سبق حاصل کیے جو ہزاروں کتابیں پڑھنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتے ۔ہمارا تعلیمی نظام چند گتابوں کا رٹا لگوا کر جو ڈگری دیتا ہے وہ زندگی کے تجربہ کی گرد کو بھی نہیں چھوسکتی۔تعلیم تو اتنی نہیں ھے ۔۔۔۔
متفقآج کے دور میں ہماری تسلی صرف سرٹیفکیٹ سے ہوتی ہے ۔ میں نے کئی اداروں میں کام کیا۔ سینکڑوں لوگوں کے انٹرویو کیے اور معاشرے کی یہ حقیقت سامنے آئی کہ تعلیم اور قابلیت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور دونوں ڈگری کی محتاج نہیں۔ علم کا جہاں بی اے ایم اے کی گنتی کی چند کتابوں سے بہت آگے ہے۔ میں نے گھر میں کام کرنے والے ملازمین، ریل ، بس میں سفر کرنے والے عام سے لوگ، کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، پہاڑوں پر رہنے والے سادہ لوح افراد کو علم اور قابلیت میں ہزاروں ڈگری یافتہ لوگوں سے بڑھ کر پایا اور ان سے زندگی کے وہ سبق حاصل کیے جو ہزاروں کتابیں پڑھنے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوتے ۔ہمارا تعلیمی نظام چند گتابوں کا رٹا لگوا کر جو ڈگری دیتا ہے وہ زندگی کے تجربہ کی گرد کو بھی نہیں چھوسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے بڑے بڑے کروڑ پتی گھرانے بھی اسکول کالج اور یونیورسٹی کے مروجہ نظام کے خلاف ہورہے ہیں اور اسے زندگی کے قیمتی سال برباد کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے امیر ترین آدمی کارلسن سلم بھی اپنی زندگی کا ایک تجربہ پیش کرتے ہیں کہ امریکہ کے کئی ارب پتی لوگ وہ ہی بنے جو انسان کی صلاحیتوں کو منجمدکردینے والے اس نظام سے دور رہے۔
اس بحث کا حاصل یہ نہیں کہ اسکول کالج وغیرہ میں نہ پڑھا جائے بلکہ درس کی چند کتابوں کو کافی نہ سمجھا جائے اور جن کے پاس یہ ڈگریاں نہیں انہیں کسی طور بھی کم تر نہ سمجھا جائے۔