نور وجدان
لائبریرین
آج میں آپ کو اپنی کہانی سنانا چاہتی ہوں ۔ کچھ کہنے سے پہلے تھوڑا تعارف بھی ہوجائے۔میں اپنی ماں کی لاڈلی ، حسین و جمیل بیٹی تھی۔ کہنے والے کہا کرتے تھے خوبصورتی تم پہ آکر ختم ہوجاتی ہے۔کبھی میری آنکھوں کو آم کی کاش سے تشبیہ دی جاتی تو کبھی ناگن کی آنکھیں کہ کر میرا دل جیتنے کی کوشش کی جاتی ۔مجھے دیکھ کر مصور کے رنگ پھیکے پڑھ جاتے اور سنگ تراش مجھ جیسا بدن تراشنے کی کوشش کرتے۔
''میں بھی جانے کہاں سے کہاں جا پہنچی ، آپ بھی پتا نہیں کیا سوچ رہے ہوں گے کہ میرا تعلق کہاں سے ہے ۔۔۔۔''
جب میں تیرہ برس کی ہوئی تو میری اماں نے میرا نکاح میرا چچازاد سے کردیا۔ جب بھی میں اسکو دیکھتی تھی مجھے سڑا ہو بیگن تو کبھی کریلے کا تصور ہونے لگتا ہے ۔ ایک دن حبیب میرے پاس آیا اور کہنے لگا
''دیکھ عالیہ! ساری زندگی تیرے پاؤں دھو دھو کے پیوں گا ۔تجھے اپنی ملکہ بنا کے رکھوں گا ''
ابھی وہ کچھ اور کہتا میں نے اسکو کو بہت پیار اور مان سے کہا؛
'' دیکھ حبیب ! شکل تو تیری جلیبی کی طرح ہے اوپر سے رنگ اتنا سیاہ ہے کہ توٗا بھی ماند پڑتا ہے ، اب تیری دولت کا میں نے اچار تو نہیں ڈالنا''
”عالیہ! مجھے تمہارا ساتھ چاہیے چاہے نفرت کا بھی ہو. مجھے تمہاری نفرت بھی بھلی لگتی ہے .اگر میرے بس میں ہوتا خود اس سراپے میں ڈھال لیتا جیسا تم چاہتی ہو. مگر تمہیں بھی بنانے والا خدا ہے اور مجھے بھی . پھر یہ تفریق کیوں ؟ کیا تمہیں اپنے بنانے والے سے زیادہ خود پہ فخر ہے ؟ یہ کہتے ہوئے حبیب کی شکل پر درد کے وہ تاثرات تھے کہ ایک لمحے کو میں ڈر گئی مگر پھر وہی " میں" بیچ میں آگئی .
" مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں تم یہ بات سمجھتے کیوں نہیں ہو . .. '' ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سو کے نوٹ بمعہ کاغذ لپٹا ہوا عالیہ کے بازو پہ زور سے لگا.
حبیب حیران ہو کر کبھی عالیہ تو کبھی اس غیبی امداد کا مفہوم سمجھنے لگا. جاننے کے بعد اس نے عالیہ سے پوچھا ؛
"کیا کوئی اور ہے تمہاری زندگی میں جو مجھ سے دور جانا چاہتی ہو . تم میرے نکاح میں ہو مگر آج تک تم نے مجھے ایک موقع نہیں دیا میں کھل کر اپنے جذبات ظاہر کرسکوں "
''ارے ارے ... تم تو سنجیدہ ہوگئے ... یہ تو شادی سے پہلے کے چونچلے ہوتے ہیں ..دیکھو ، ساتھ پڑوس میں جو پپو رہتا ہے وہ تو کراچی چلا گیا یہاں سے ... اس کے ساتھ خوب دل لگ رہا تھا میرا، تم نے تو اسکو دیکھا ہوا ہے ، وہ سرخ و سپید رنگت والا ، چوڑا سینہ ... مجھے تو ویسے مرد پسند ہیں ... اس کے جانے سے میں خود پریشان ہوگئی تھی مگر اب...
حبیب اپنی کزن کو چہرے کو تاسف بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کاش یہ میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لیتی اس مجھ میں اسکی شبیہ نظر آجاتی مگر خاموش ہوکر اسکی باتیں سنتا رہا جیسے یہ کام اس کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے
پھر بولا '" وہ سب ٹھیک اب تو تمہاری زندگی میں کوئی نہیں ہے میں تمہیں بچپن سے چاہتا ہوں ، میری محبت میں کمی نہیں آئی بلکہ یہ بڑھ گئی میں تمہارے علاوہ کسی اور کو سوچوں تو مجھے وحشت ہوتی ہے ''
عالیہ نے بغور اسکا جائزہ لیا اور کہا ساتھ پڑوس میں پپو کی جگہ کاشی آیا ہے آج کل .. مجھے تو وہ اچھا لگتا ہے . حبیب ابھی سن ہی رہا تھا اس کو چچی کی آواز آئی اسے کھانے پہ بلا رہی تھیں . وہ دل مسوس کر رہ گیا کہ اس کی اپنی چچا زاد اسکی منکوحہ کے کسی اور کے ساتھ یارانہ ہے . شاید وہ محبت میں اندھا ہوگیا تھا
بس ہم تو تیرہ برس کی عمر میں تیئس سال کے ہوگئے ٹھاک سے انکار کردیا۔زبردستی کے بندھن کو کب تک نبھاتے . رخصتی پہ باوجود اسکے ہمیں کیا کیا نہیں سہنا پڑا۔ابا کے جوتے تو بھائی کے بلے تو ماں کے تھپڑ ۔۔۔ جس شکل پہ ناز کرتے رہے وہ شکل ہی بگاڑ کہ رکھ دی مگر ہم نے بھی۔۔ ہاں وہ کیا کہتے ہیں ۔۔
'' طلاق کا ٹیکا سر پہ سجا لیا '' اور حبیب کی دو دن کی محبت برداشت کرکے آگئ
خیر رشتوں کی کثیر الاتعداد قطار میں سے ہم نے اپنے مہاراج کو چن لیا ۔ گندمی کھلتا ہوا رنگ ، کاٹ دار آنکھیں اور تو اور سر پہ بالوں کے لاتعداد گچھے ۔۔بس اسے پہلی نظر میں دیکھا تو ایسی دیوانی ہوئی وہیں شادی کراکے دم لیا۔
نعمان کھاتے پیتے گھر سے تھا مگر اسکے ساتھ مسئلہ تھا ۔وہ جوائنٹ فیملی کی پیداوار اور میں نیوکلیر ۔۔۔ہمیں تو یہ فرق بڑا کھلا۔ کچھ عرصہ گزرا تو محسوس ہوا نعمان کی تو گھر میں عزت ہی نہیں نہ گھر کے کسی معاملے میں اسکی رائے لی جاتی ۔۔ ہم نے نعمان کو اس بات کا احساس دلایا اور سمجھایا آج موقع ہے جائیداد میں حصہ نام کروا کے علیحدہ ہوجاؤ۔کل کو بچے ہوجائیں گے تو سو بکھیڑے ہوں گے ۔
یوں ہم بھی علیحدہ گھر میں آگئے ۔ کسی بڑے کا نہ رعب نہ دبدبہ ، کھلی چھوٹ ۔۔ جب مرضی سو جاؤ ، شوہر کو کھانا دو یا نہ دو ۔نعمان نے بھائیوں کے ساتھ الیکٹرانکس کی دکان چھوڑ کہ مکینکی کا کام شروع کردیا۔ اب ہم گھر میں اکیلے ہوتے تھے اور وہ کام پر ۔۔۔ اس بات کا احساس کرتے ہوئے نعمان نے پڑوس کے گھر کی ٹیلی فون کی تار سے اک تار کا پرزہ جوڑا ۔۔اور ہم سارا دن جب جی چاہے اس سے فون پر بات کرلیا کرتے ۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہم دو سے چار ہوگئے۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ۔۔ عادل اور گڑیا تو ہوبہو میری تصویر تھے جبکہ سحرش اور واجد نعمان پہ گئے تھے ۔ ہمیں کیا خبر تھی جس سے ہم نے باؤلے ہوکر شادی کی ہے وہ تو سب پریوں پہ باؤلا ہوجاتا تھا۔ یوں جائیداد کا سارا حصہ تقریبا نعمان گنوا بیٹھا۔ اب بمشکل گھر میں گزارہ ہوتا ۔۔
نعمان نے اب دوبارہ الیکڑانکس کا کام کرنے کا سوچا اور آئے دن وہ پشاور تو کبھی کوئٹہ ہوتا ۔یوں گھر کا سارا سودا سلف ہمیں خود لانا پڑتا ۔تب جا کر احساس ہو نیوکلیئر فیملی کے بڑے جھمیلے ہیں ۔ہمیں بھی شارٹ کٹ مارنے کی عادت تھی سو اب کی بار ہم دکان داروں کو اپنا جلوہ کرواتے اور سودا لے آتے اور کبھی دودہ لینے خود چلی جاتی ۔
کہتے ہیں مرد دریافت کا بھنورہ ہے اب کون بتائے کسی کو عورت کو بھی دریافت بڑی اچھی لگتی ہے سو ہم نے جب دودھ والا دیکھا تو دل کی دھڑکنیں ایتھل پیتھل ہوئیں۔ایسا لگا برتن نیچے گرجائے گا۔۔ وہ انسان تھا یا فرشتہ ۔۔۔ اتنا خوبصورت اور بھرپور مرد میں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھا ۔ اب ہمیں نعمان سے جو گلے شکوے تھے وہ ہم نے حاجی محمود سے کرنا شروع کردیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا اب ہمیں دودھ لینے خود نہیں جانا پڑتا تھا ۔ محمود اکثر ہمارے دروازے پہ آتا ہمیں دودھ کے ساتھ کبھی حلوہ پوڑی تو کبھی دہی تو کبھی سموسے دے جایا کرتا ۔ یوں ہمارا وقت بہت اچھا گزرنے لگا۔
نعمان کو جب دودھ والے کا بتایا تو پتا چلا کہ وہ ہمارے میاں کا واقف کار ہے ۔نعمان نے محمود کو خود کہا تھا کہ اسکی غیر موجودگی میں گھربار دیکھ لیا کرو۔ اب اکثر وہ نعمان کے ساتھ اتوار کو گھر آجایا کرتا تھا۔
ایک دن وہ اتوار کو نعمان کے ساتھ آیا ۔بچوں کے پارک میں لے جانے سے پہلے نعمان میرے پاس آیا اور مجھ سے بولا...
"جائیداد تو ختم ہوگئی تمہارے چاؤ چونچلوں میں ، کام آج کل چل نہیں رہا اب ایک ہی دولت بچی ہے وہ تمہارے پاس ہے اب تم نے ثابت کرنا ہے تم اپنے شوہر کے ساتھ کتنی وفادار ہو ؟ یہ جو محمود ہے اس کا کام دودھ اور دہی کا ہے ، امیر بہت ہے ، اس سے پیسے تم نے کیش کروانے ہے . کیسے کروانے ہے یہ کام تمہارا ہے . تم بخوبی جانتی ہو ...
اب یہ واحد دن تو بچوں کی عیاشی کو ہوتا تھا ۔۔ نعمان صبح سویرے ہر اتوار کو بچوں کو پارک میں لے جاتا وہاں جھولے دلوایا کرتا تھا۔۔ یہاں ہمیں اپنی محبت کے قریب تر ہونے کا موقع مل جاتا ۔ اب ہمیں اسکے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ عادل اور سحرش کو سکول چھوڑنے کے بعد اس سے ملنے چلے جاتی تھی ۔
ایک دن محمود ہمارے گھر آیا .نعمان پشاور گیا ہوا تھا. ہم اس سے نعمان کی ہی باتیں کررہے تھے کہ اس نے ہمیں وقت دینا چھوڑ دیا تھا. ہم نے اس سے پوچھا؛
" تمہیں پتا ہے نعمان آئے دن پشاور کیوں جارہا ہے مجھے تو یہ کہتا ہے میں کام کے سلسلے میں جاتا ہوں''
اب محمود نے ہمیں بھابھی کہنا شروع کردیا ،بولا
"بھابھی آپ کو نہیں پتا .پشاور پریوں کے دام بہت کم ہوتے ہیں وہاں کا حسن مشہور ہے ۔اگر تم اس عیاش انسان کو چھوڑ دو تو میں تم سے شادی کر لوں گا . جب میں نے تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تھا تب ہی ارادہ کر لیا تھا کسی نہ کسی طرح اس گوہرِ نایاب کو اپنے دام میں لانا ہے .''
محمود تو بات کہ چکا مگر ہماری حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی . جب نعمان آیا تو کافی بات بڑھ گئی . نعمان نے ہمیں وہ وہ گالیاں دے ڈالیں جن کا تصور ہم نے ساری زندگی نہ کیا ہو .
اکثر نعمان گھر نہ آتا اور محمود آجایا کرتا بچوں کے لیے کھلونے لے آتا وہ بھی خوش ہوجاتے اور گھر کا سودا سلف بھی آنے لگا ۔ بس ایک دن برا ہوا کہ بھولے سے اک عدد بھائی نمودار ہوا ہمیں حاجی محمود کے ساتھ دیکھ کر ایسے آگ بگولا ہوئے ایک طمانچہ رسید کردیا۔ بال سے کھنیچ کر اماں جی کے گھر لے آیا۔ ہم نے بھی اماں کو صاف کہ ڈالا نعمان نے محمود کو کہ رکھا گھر کا سودا سلف لے آیا کرو اس کے بدلے ہم بھی محمود کی تھوڑی بہت آؤبھگت کردیا کریں ۔ اب اماں اور ابا نے جب یہ سنا تو بات گالیوں تک محدود نہ رہی ۔ ہم پر ظلم پہ ظلم ۔۔ہمیں پائپ سے مارا گیا بالکل اسی طرح جیسے گھوڑے کو چابک مارتے ہیں ۔۔۔ کھال ہماری رنگین ہورہی تھی کہ ہم بے ہوش ہی ہوگئے ۔
کچھ دن تک جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو نعمان سے طلاق کا مطالبہ کردیا گیا۔ ہماری اماں کو کیا پتا تھا وہ ہماری راہ ہموار کررہی ہے ۔۔۔ یوں محمود اور ہم ایک ہوجائیں گے ۔ مگر نعمان نے نہ جانے کیا ٹھانی اور بول ڈالا کسی بھی قیمت پر طلاق نہیں دے گا چاہے بات کورٹ کچہری تک پہنچ جائے ۔بس ہمارے اماں ابا نے ہمیں گھر واپس بھیجنے میں ہی عافیت جانی ۔
وقت گزرتا رہا بچے بڑے ہوتے رہے اور ہماری محبت کا معاملہ اسی ٹیلی فون سے چلتا رہا جو ہمارے میاں نے تار کا پرزہ لگا کہ ہمارے لیے لگایا تھا۔بات فون تک کہاں رہتی اب سمجھ نہیں آتا تھا کس طرح ملا جائے ۔ہم نے ملنے کا بڑا عزت دار طریقہ اپنایا ہم اب اس سے ڈاکٹر کے کلینک پہ مل لیا کرتے ۔اکثر چھوٹے بچے کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے تھے ۔بس ہمارے پاس ننھا واجد ہوتا باقی بچے گھر ۔
نعمان میں ہمیں برائیاں نظر آتیں ہم ان کو محمود سے موازنہ کرتے رہتے یوں ایک کمرے میں رہتے ہوئے دوریاں بڑھ گئے ۔رات کو ہم بے سدھ سوئے ہوتے بس ایک دن آنکھ کھل گئی ۔ جو منظر ہم نے دیکھا وہ میرے خون کھولا دینے کے لیے کافی تھا ہمیں بھی اماں والا جلال آگیا جب ہم نے نعمان کو سحرش کے اوپر جھکے پایا۔۔۔ آگے کا منظر بیان نہ کرنے میں ہی عافیت ہے ۔۔
بس ہم نے بچوں کو پکڑا اور اماں کے گھر آگئے ۔ ہم اگلے دن پولیس اسٹیشن گئے وہاں ہم نے اپنے شوہر کے خلاف زنا بالجبر کی رپورٹ فائل کروائی ۔ اسکے ہمیں دو فائدے ہوئے ایک تو یہ کہ نعمان کو سب تھو تھو کررہے تھے دوسرا سب اس بات کے حامی تھے نعمان سے طلاق لو ۔اب تو ہمارا بھی فائنل ارادہ تھا بات بیٹی کی آپہنچی تھی ۔ کئی بڑی بیبیوں نے ہمیں ملامت بھی کی اگر کوئی بات تھی بھی تو بتانی ضرور تھی اب کل کو بیٹی کہاں پہ لگاؤ گی ۔بات سچ تھی مگر کڑوی بہت تھی مگر ہم نے پی لی کیونکہ ہمیں ہماری منزل قریب نظر آرہی تھی۔
ادھر ہم نے کیس فائل کیا تو نعمان ہم سے بھی آگے نکلا . اس نے بھی ہم پر یہ الزام لگا دیا کہ ہمارا اور محمود کا یارانہ ہے . ہمیں حبیب یاد آرہا تھا جس نے ہمارے شادی سے پہلے کے معاشقوں کو ہوا تک نہیں لگنے دی ادھر یہ نعمان ایک تو محمود پہ التفات کا خود کہتا تھا اب میرے خاندان کے اک اک گھر میں جا کر ہمیں پہ سب تھوپ ڈالا. ہم تو سمجھے تو مرد کاٹھ کے الو ہوتے ، حسن اور دولت پر پاگل ہونے والے ۔.ہم نے بھی اک اک کو نعمان کو تمام باتیں بتا ڈالیں . یہ اور بات ہے ہمیں بہت کڑوی کسیلی باتیں سننا پڑیں .
ہم نے تو ابھی کیس فائل کروایا ہی تھا کہ اخباری رپورٹر آپہنچے ۔ہم نے تمام کہانی من و عن بیان کر ڈالی ۔بس اب ہمارے ساتھ ساتھ ہماری بیٹی کا چرچا بھی ہر جگہ ہونے لگا ۔ ہم نے کورٹ میں نعمان کے خلاف خلع کا مقدمہ دائر کیا۔ تمام شواہد کی روشنی میں ہمیں طلاق مل گئی ہم پہ دوسری دفع طلاق کا لیبل لگ گیا
ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی اب ہم محمود کے ساتھ شادی کیسے کریں ۔ نعمان کے تینوں بچے تو میرے سسرال رکھنے کو تیار تھے مگر سحرش کو نہیں ۔ اب چار و ناچار ہم نے اپنی ننھی سی بارہ سالہ پری کا رشتہ پچاس سال کی عمر کے شخص سے کردیا یہ اور بات تھی ڈھانچے سے وہ تیس پینتس کا لگتا تھا ۔ بڑی بات یہ تھی وہ امیر بہت تھا ۔ اب اسکے بعد کس کو پرواہ تھی ہم جئیں یا مریں آخر کار ہمارا نکاح بڑی سادگی سے حاجی محمود سے کردیا گیا۔ ہمیں ہمارا گوہرِ مراد مل گیا ۔
''میں بھی جانے کہاں سے کہاں جا پہنچی ، آپ بھی پتا نہیں کیا سوچ رہے ہوں گے کہ میرا تعلق کہاں سے ہے ۔۔۔۔''
جب میں تیرہ برس کی ہوئی تو میری اماں نے میرا نکاح میرا چچازاد سے کردیا۔ جب بھی میں اسکو دیکھتی تھی مجھے سڑا ہو بیگن تو کبھی کریلے کا تصور ہونے لگتا ہے ۔ ایک دن حبیب میرے پاس آیا اور کہنے لگا
''دیکھ عالیہ! ساری زندگی تیرے پاؤں دھو دھو کے پیوں گا ۔تجھے اپنی ملکہ بنا کے رکھوں گا ''
ابھی وہ کچھ اور کہتا میں نے اسکو کو بہت پیار اور مان سے کہا؛
'' دیکھ حبیب ! شکل تو تیری جلیبی کی طرح ہے اوپر سے رنگ اتنا سیاہ ہے کہ توٗا بھی ماند پڑتا ہے ، اب تیری دولت کا میں نے اچار تو نہیں ڈالنا''
”عالیہ! مجھے تمہارا ساتھ چاہیے چاہے نفرت کا بھی ہو. مجھے تمہاری نفرت بھی بھلی لگتی ہے .اگر میرے بس میں ہوتا خود اس سراپے میں ڈھال لیتا جیسا تم چاہتی ہو. مگر تمہیں بھی بنانے والا خدا ہے اور مجھے بھی . پھر یہ تفریق کیوں ؟ کیا تمہیں اپنے بنانے والے سے زیادہ خود پہ فخر ہے ؟ یہ کہتے ہوئے حبیب کی شکل پر درد کے وہ تاثرات تھے کہ ایک لمحے کو میں ڈر گئی مگر پھر وہی " میں" بیچ میں آگئی .
" مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں تم یہ بات سمجھتے کیوں نہیں ہو . .. '' ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سو کے نوٹ بمعہ کاغذ لپٹا ہوا عالیہ کے بازو پہ زور سے لگا.
حبیب حیران ہو کر کبھی عالیہ تو کبھی اس غیبی امداد کا مفہوم سمجھنے لگا. جاننے کے بعد اس نے عالیہ سے پوچھا ؛
"کیا کوئی اور ہے تمہاری زندگی میں جو مجھ سے دور جانا چاہتی ہو . تم میرے نکاح میں ہو مگر آج تک تم نے مجھے ایک موقع نہیں دیا میں کھل کر اپنے جذبات ظاہر کرسکوں "
''ارے ارے ... تم تو سنجیدہ ہوگئے ... یہ تو شادی سے پہلے کے چونچلے ہوتے ہیں ..دیکھو ، ساتھ پڑوس میں جو پپو رہتا ہے وہ تو کراچی چلا گیا یہاں سے ... اس کے ساتھ خوب دل لگ رہا تھا میرا، تم نے تو اسکو دیکھا ہوا ہے ، وہ سرخ و سپید رنگت والا ، چوڑا سینہ ... مجھے تو ویسے مرد پسند ہیں ... اس کے جانے سے میں خود پریشان ہوگئی تھی مگر اب...
حبیب اپنی کزن کو چہرے کو تاسف بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کاش یہ میری آنکھوں میں جھانک کر دیکھ لیتی اس مجھ میں اسکی شبیہ نظر آجاتی مگر خاموش ہوکر اسکی باتیں سنتا رہا جیسے یہ کام اس کے لیے سب سے زیادہ اہم ہے
پھر بولا '" وہ سب ٹھیک اب تو تمہاری زندگی میں کوئی نہیں ہے میں تمہیں بچپن سے چاہتا ہوں ، میری محبت میں کمی نہیں آئی بلکہ یہ بڑھ گئی میں تمہارے علاوہ کسی اور کو سوچوں تو مجھے وحشت ہوتی ہے ''
عالیہ نے بغور اسکا جائزہ لیا اور کہا ساتھ پڑوس میں پپو کی جگہ کاشی آیا ہے آج کل .. مجھے تو وہ اچھا لگتا ہے . حبیب ابھی سن ہی رہا تھا اس کو چچی کی آواز آئی اسے کھانے پہ بلا رہی تھیں . وہ دل مسوس کر رہ گیا کہ اس کی اپنی چچا زاد اسکی منکوحہ کے کسی اور کے ساتھ یارانہ ہے . شاید وہ محبت میں اندھا ہوگیا تھا
بس ہم تو تیرہ برس کی عمر میں تیئس سال کے ہوگئے ٹھاک سے انکار کردیا۔زبردستی کے بندھن کو کب تک نبھاتے . رخصتی پہ باوجود اسکے ہمیں کیا کیا نہیں سہنا پڑا۔ابا کے جوتے تو بھائی کے بلے تو ماں کے تھپڑ ۔۔۔ جس شکل پہ ناز کرتے رہے وہ شکل ہی بگاڑ کہ رکھ دی مگر ہم نے بھی۔۔ ہاں وہ کیا کہتے ہیں ۔۔
'' طلاق کا ٹیکا سر پہ سجا لیا '' اور حبیب کی دو دن کی محبت برداشت کرکے آگئ
خیر رشتوں کی کثیر الاتعداد قطار میں سے ہم نے اپنے مہاراج کو چن لیا ۔ گندمی کھلتا ہوا رنگ ، کاٹ دار آنکھیں اور تو اور سر پہ بالوں کے لاتعداد گچھے ۔۔بس اسے پہلی نظر میں دیکھا تو ایسی دیوانی ہوئی وہیں شادی کراکے دم لیا۔
نعمان کھاتے پیتے گھر سے تھا مگر اسکے ساتھ مسئلہ تھا ۔وہ جوائنٹ فیملی کی پیداوار اور میں نیوکلیر ۔۔۔ہمیں تو یہ فرق بڑا کھلا۔ کچھ عرصہ گزرا تو محسوس ہوا نعمان کی تو گھر میں عزت ہی نہیں نہ گھر کے کسی معاملے میں اسکی رائے لی جاتی ۔۔ ہم نے نعمان کو اس بات کا احساس دلایا اور سمجھایا آج موقع ہے جائیداد میں حصہ نام کروا کے علیحدہ ہوجاؤ۔کل کو بچے ہوجائیں گے تو سو بکھیڑے ہوں گے ۔
یوں ہم بھی علیحدہ گھر میں آگئے ۔ کسی بڑے کا نہ رعب نہ دبدبہ ، کھلی چھوٹ ۔۔ جب مرضی سو جاؤ ، شوہر کو کھانا دو یا نہ دو ۔نعمان نے بھائیوں کے ساتھ الیکٹرانکس کی دکان چھوڑ کہ مکینکی کا کام شروع کردیا۔ اب ہم گھر میں اکیلے ہوتے تھے اور وہ کام پر ۔۔۔ اس بات کا احساس کرتے ہوئے نعمان نے پڑوس کے گھر کی ٹیلی فون کی تار سے اک تار کا پرزہ جوڑا ۔۔اور ہم سارا دن جب جی چاہے اس سے فون پر بات کرلیا کرتے ۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہم دو سے چار ہوگئے۔ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ۔۔ عادل اور گڑیا تو ہوبہو میری تصویر تھے جبکہ سحرش اور واجد نعمان پہ گئے تھے ۔ ہمیں کیا خبر تھی جس سے ہم نے باؤلے ہوکر شادی کی ہے وہ تو سب پریوں پہ باؤلا ہوجاتا تھا۔ یوں جائیداد کا سارا حصہ تقریبا نعمان گنوا بیٹھا۔ اب بمشکل گھر میں گزارہ ہوتا ۔۔
نعمان نے اب دوبارہ الیکڑانکس کا کام کرنے کا سوچا اور آئے دن وہ پشاور تو کبھی کوئٹہ ہوتا ۔یوں گھر کا سارا سودا سلف ہمیں خود لانا پڑتا ۔تب جا کر احساس ہو نیوکلیئر فیملی کے بڑے جھمیلے ہیں ۔ہمیں بھی شارٹ کٹ مارنے کی عادت تھی سو اب کی بار ہم دکان داروں کو اپنا جلوہ کرواتے اور سودا لے آتے اور کبھی دودہ لینے خود چلی جاتی ۔
کہتے ہیں مرد دریافت کا بھنورہ ہے اب کون بتائے کسی کو عورت کو بھی دریافت بڑی اچھی لگتی ہے سو ہم نے جب دودھ والا دیکھا تو دل کی دھڑکنیں ایتھل پیتھل ہوئیں۔ایسا لگا برتن نیچے گرجائے گا۔۔ وہ انسان تھا یا فرشتہ ۔۔۔ اتنا خوبصورت اور بھرپور مرد میں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھا ۔ اب ہمیں نعمان سے جو گلے شکوے تھے وہ ہم نے حاجی محمود سے کرنا شروع کردیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا اب ہمیں دودھ لینے خود نہیں جانا پڑتا تھا ۔ محمود اکثر ہمارے دروازے پہ آتا ہمیں دودھ کے ساتھ کبھی حلوہ پوڑی تو کبھی دہی تو کبھی سموسے دے جایا کرتا ۔ یوں ہمارا وقت بہت اچھا گزرنے لگا۔
نعمان کو جب دودھ والے کا بتایا تو پتا چلا کہ وہ ہمارے میاں کا واقف کار ہے ۔نعمان نے محمود کو خود کہا تھا کہ اسکی غیر موجودگی میں گھربار دیکھ لیا کرو۔ اب اکثر وہ نعمان کے ساتھ اتوار کو گھر آجایا کرتا تھا۔
ایک دن وہ اتوار کو نعمان کے ساتھ آیا ۔بچوں کے پارک میں لے جانے سے پہلے نعمان میرے پاس آیا اور مجھ سے بولا...
"جائیداد تو ختم ہوگئی تمہارے چاؤ چونچلوں میں ، کام آج کل چل نہیں رہا اب ایک ہی دولت بچی ہے وہ تمہارے پاس ہے اب تم نے ثابت کرنا ہے تم اپنے شوہر کے ساتھ کتنی وفادار ہو ؟ یہ جو محمود ہے اس کا کام دودھ اور دہی کا ہے ، امیر بہت ہے ، اس سے پیسے تم نے کیش کروانے ہے . کیسے کروانے ہے یہ کام تمہارا ہے . تم بخوبی جانتی ہو ...
اب یہ واحد دن تو بچوں کی عیاشی کو ہوتا تھا ۔۔ نعمان صبح سویرے ہر اتوار کو بچوں کو پارک میں لے جاتا وہاں جھولے دلوایا کرتا تھا۔۔ یہاں ہمیں اپنی محبت کے قریب تر ہونے کا موقع مل جاتا ۔ اب ہمیں اسکے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ عادل اور سحرش کو سکول چھوڑنے کے بعد اس سے ملنے چلے جاتی تھی ۔
ایک دن محمود ہمارے گھر آیا .نعمان پشاور گیا ہوا تھا. ہم اس سے نعمان کی ہی باتیں کررہے تھے کہ اس نے ہمیں وقت دینا چھوڑ دیا تھا. ہم نے اس سے پوچھا؛
" تمہیں پتا ہے نعمان آئے دن پشاور کیوں جارہا ہے مجھے تو یہ کہتا ہے میں کام کے سلسلے میں جاتا ہوں''
اب محمود نے ہمیں بھابھی کہنا شروع کردیا ،بولا
"بھابھی آپ کو نہیں پتا .پشاور پریوں کے دام بہت کم ہوتے ہیں وہاں کا حسن مشہور ہے ۔اگر تم اس عیاش انسان کو چھوڑ دو تو میں تم سے شادی کر لوں گا . جب میں نے تمہیں پہلی دفعہ دیکھا تھا تب ہی ارادہ کر لیا تھا کسی نہ کسی طرح اس گوہرِ نایاب کو اپنے دام میں لانا ہے .''
محمود تو بات کہ چکا مگر ہماری حالت کچھ ٹھیک نہیں تھی . جب نعمان آیا تو کافی بات بڑھ گئی . نعمان نے ہمیں وہ وہ گالیاں دے ڈالیں جن کا تصور ہم نے ساری زندگی نہ کیا ہو .
اکثر نعمان گھر نہ آتا اور محمود آجایا کرتا بچوں کے لیے کھلونے لے آتا وہ بھی خوش ہوجاتے اور گھر کا سودا سلف بھی آنے لگا ۔ بس ایک دن برا ہوا کہ بھولے سے اک عدد بھائی نمودار ہوا ہمیں حاجی محمود کے ساتھ دیکھ کر ایسے آگ بگولا ہوئے ایک طمانچہ رسید کردیا۔ بال سے کھنیچ کر اماں جی کے گھر لے آیا۔ ہم نے بھی اماں کو صاف کہ ڈالا نعمان نے محمود کو کہ رکھا گھر کا سودا سلف لے آیا کرو اس کے بدلے ہم بھی محمود کی تھوڑی بہت آؤبھگت کردیا کریں ۔ اب اماں اور ابا نے جب یہ سنا تو بات گالیوں تک محدود نہ رہی ۔ ہم پر ظلم پہ ظلم ۔۔ہمیں پائپ سے مارا گیا بالکل اسی طرح جیسے گھوڑے کو چابک مارتے ہیں ۔۔۔ کھال ہماری رنگین ہورہی تھی کہ ہم بے ہوش ہی ہوگئے ۔
کچھ دن تک جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو نعمان سے طلاق کا مطالبہ کردیا گیا۔ ہماری اماں کو کیا پتا تھا وہ ہماری راہ ہموار کررہی ہے ۔۔۔ یوں محمود اور ہم ایک ہوجائیں گے ۔ مگر نعمان نے نہ جانے کیا ٹھانی اور بول ڈالا کسی بھی قیمت پر طلاق نہیں دے گا چاہے بات کورٹ کچہری تک پہنچ جائے ۔بس ہمارے اماں ابا نے ہمیں گھر واپس بھیجنے میں ہی عافیت جانی ۔
وقت گزرتا رہا بچے بڑے ہوتے رہے اور ہماری محبت کا معاملہ اسی ٹیلی فون سے چلتا رہا جو ہمارے میاں نے تار کا پرزہ لگا کہ ہمارے لیے لگایا تھا۔بات فون تک کہاں رہتی اب سمجھ نہیں آتا تھا کس طرح ملا جائے ۔ہم نے ملنے کا بڑا عزت دار طریقہ اپنایا ہم اب اس سے ڈاکٹر کے کلینک پہ مل لیا کرتے ۔اکثر چھوٹے بچے کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے تھے ۔بس ہمارے پاس ننھا واجد ہوتا باقی بچے گھر ۔
نعمان میں ہمیں برائیاں نظر آتیں ہم ان کو محمود سے موازنہ کرتے رہتے یوں ایک کمرے میں رہتے ہوئے دوریاں بڑھ گئے ۔رات کو ہم بے سدھ سوئے ہوتے بس ایک دن آنکھ کھل گئی ۔ جو منظر ہم نے دیکھا وہ میرے خون کھولا دینے کے لیے کافی تھا ہمیں بھی اماں والا جلال آگیا جب ہم نے نعمان کو سحرش کے اوپر جھکے پایا۔۔۔ آگے کا منظر بیان نہ کرنے میں ہی عافیت ہے ۔۔
بس ہم نے بچوں کو پکڑا اور اماں کے گھر آگئے ۔ ہم اگلے دن پولیس اسٹیشن گئے وہاں ہم نے اپنے شوہر کے خلاف زنا بالجبر کی رپورٹ فائل کروائی ۔ اسکے ہمیں دو فائدے ہوئے ایک تو یہ کہ نعمان کو سب تھو تھو کررہے تھے دوسرا سب اس بات کے حامی تھے نعمان سے طلاق لو ۔اب تو ہمارا بھی فائنل ارادہ تھا بات بیٹی کی آپہنچی تھی ۔ کئی بڑی بیبیوں نے ہمیں ملامت بھی کی اگر کوئی بات تھی بھی تو بتانی ضرور تھی اب کل کو بیٹی کہاں پہ لگاؤ گی ۔بات سچ تھی مگر کڑوی بہت تھی مگر ہم نے پی لی کیونکہ ہمیں ہماری منزل قریب نظر آرہی تھی۔
ادھر ہم نے کیس فائل کیا تو نعمان ہم سے بھی آگے نکلا . اس نے بھی ہم پر یہ الزام لگا دیا کہ ہمارا اور محمود کا یارانہ ہے . ہمیں حبیب یاد آرہا تھا جس نے ہمارے شادی سے پہلے کے معاشقوں کو ہوا تک نہیں لگنے دی ادھر یہ نعمان ایک تو محمود پہ التفات کا خود کہتا تھا اب میرے خاندان کے اک اک گھر میں جا کر ہمیں پہ سب تھوپ ڈالا. ہم تو سمجھے تو مرد کاٹھ کے الو ہوتے ، حسن اور دولت پر پاگل ہونے والے ۔.ہم نے بھی اک اک کو نعمان کو تمام باتیں بتا ڈالیں . یہ اور بات ہے ہمیں بہت کڑوی کسیلی باتیں سننا پڑیں .
ہم نے تو ابھی کیس فائل کروایا ہی تھا کہ اخباری رپورٹر آپہنچے ۔ہم نے تمام کہانی من و عن بیان کر ڈالی ۔بس اب ہمارے ساتھ ساتھ ہماری بیٹی کا چرچا بھی ہر جگہ ہونے لگا ۔ ہم نے کورٹ میں نعمان کے خلاف خلع کا مقدمہ دائر کیا۔ تمام شواہد کی روشنی میں ہمیں طلاق مل گئی ہم پہ دوسری دفع طلاق کا لیبل لگ گیا
ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی اب ہم محمود کے ساتھ شادی کیسے کریں ۔ نعمان کے تینوں بچے تو میرے سسرال رکھنے کو تیار تھے مگر سحرش کو نہیں ۔ اب چار و ناچار ہم نے اپنی ننھی سی بارہ سالہ پری کا رشتہ پچاس سال کی عمر کے شخص سے کردیا یہ اور بات تھی ڈھانچے سے وہ تیس پینتس کا لگتا تھا ۔ بڑی بات یہ تھی وہ امیر بہت تھا ۔ اب اسکے بعد کس کو پرواہ تھی ہم جئیں یا مریں آخر کار ہمارا نکاح بڑی سادگی سے حاجی محمود سے کردیا گیا۔ ہمیں ہمارا گوہرِ مراد مل گیا ۔
آخری تدوین: