کاشفی

محفلین
میرا فرعون جانتا ہی نہیں – ابوعلیحہ
قدیم چائینہ میں بادشاہوں اور لارڈز کی حفاظت کے لئے تربیت یافتہ سمورائے بطور محافظ تعینات کئے جاتے تھے۔ چائینہ میں شاولین ٹیمپل جیسے سینکڑوں مقامات پر ان سمورائے کی کڑی تربیت کی جاتی تھی۔ سالہا سال کی مشق اور محنت کے بعد ان کی جسمانی صلاحیتوں کا یہ عالم ہوتا تھا کہ ایک سمورائے سو انسانوں پر بھاری ہوتا تھا۔
اگر کسی بادشاہ یا لارڈ پر حملہ ہوتا اور سمورائے اسکی حفاظت کرنےمیں ناکام رہتے تو اس وقت کے رواج کے مطابق ان سمورائے کو ڈس اون کردیا جاتا تھا یعنی پھر انہیں کوئی بادشاہ یا لارڈ اپنے پاس ملازمت نہیں دیتا تھا۔
یہ لارڈ لیس سمورائے پھر ٹولیوں اور جتھوں کی شکل میں مسلح گروہ بنالیتے اور ارد گرد کی آبادیوں اور راہ چلتے قافلوں پر حملے کرکے لوٹ مار کرتے ایسے لارڈ لیس سمورائے کو RONIN کا لقب دیا دیا گیا۔
وطن عزیز میں اگر مقبوضہ کراچی کی موجودہ صورتحال کاجائزہ لیں تو ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے قدیم چائینہ کے مذکورہ رونین کی تعریف پر پورے اترتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہر افسر کا دوسرے افسر سے پیٹرول پمپ بنانے، شادی ہال کھڑے کرنے، راہ چلتے بے گناہ شہریوں کو اٹھاکر ان کے گھر والوں سے بھاری تاوان وصول کرنے کا ایک مقابلہ چل رہا ہے۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ مقدس اداروں کی ناک تلے، کراچی آپریشن کے نام پر ہورہا ہے۔
سیاسی مفادات اور مخصوص من پسند نتائج حاصل کرنا اولین مقصد ٹھہرا اسلئے آپریشن کے نام پر ہر جتھے کو لوٹ مار اور مال بنانے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
میڈیا اور عدلیہ سمیت ہر ریاستی ادارے پر تسلط کا اتنا زعم ہے کہ رات گئے کسی بھی شہری کو گھر سے اٹھا ، تشدد کا نشانہ بنا، گولیاں مارکر سڑک پر پھینک دیا جاتا ہے، ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے ڈپٹی کنوینر کو بنا وارنٹ کے گھر چھاپہ مار کر حراست میں لیا جاتا ہے اور ریمانڈ لینے کے لئے چارج شیٹ یا پیشگی مقدمہ درج کرنے کی بھی زحمت نہیں کی جاتی کہ عدلیہ کی کیامجال جو نوے روز کے لئے ہمیں کسی شہری کے ساتھ کھیلنے سے انکار کرے۔ دو دن قبل ایم کیو ایم کے ایک کارکن کو عدلیہ نے اس لئے بری کردیا کیونکہ دو سال میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک بھی ثبوت، شواہد یا گواہ پیش نہیں کرپائے سو عدلیہ انہیں بار بار سمن جاری کرکے جب تھکن سے چور ہوگئی تو چاروناچار انہیں اس کارکن کو رہا کرنا پڑا۔ میڈیا کے کسی جغادری اینکر نے یہ سوال پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ دو سال سے پابند سلاسل اس نوجوان کا قصور کیا تھا؟ اگر کوئی ثبوت گواہ یا شواہد نہیں تھے تو اسے حراست میں لیکر دہشت گردی کی سنگین دفعات کیوں لگائی گئیں؟ اور یہ کیسا عدالتی نظام ہے کہ جس میں ایک بے گناہ شخص کو جیل سے رہا ہونے میں لاکھوں روپے اور دو سال کا عرصہ لگ جاتا ہے؟
فی الوقت کراچی میں ایک نیا سیاسی گینگ تشکیل پاچکا ہے اور بلدیہ ٹاون سانحہ سمیت دیگر سنگین جرائم میں جو ایم کیو ایم کے عہدیداران دو سالوں سے ملوث اور مرکزی کردار بتائے جاتے تھے، ا ن سب کو بیوٹی پارلر سے تیار کراکر بیسوائیں بناکر میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے بردکھاوے کے لئے پیش کردیا گیا ہے۔
یہ دلہنیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مل کر کراچی کی عوام کے ساتھ گڈ کاپ بیڈ کاپ کا کھیل شروع کرچکے ہیں۔
ایک دن قانون نافذ کرنے والے ادارے بے گناہ لڑکوں کو مار کر سڑک پر پھینکنے کا کارنامہ سرانجام دینگے اور اگلے دن شام کو یہ بیسوائیں ٹسوے بہاکر کراچی کی عوام کو اپنے پرچم تلے کھڑے ہونے کی اپیل کرینگے۔
پیغام واضح ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں تو آپ کو زندہ رہنے کا حق بھی نہیں اور اگر آپ ہمارے ساتھ ہیں تو بھلے آپ بلدیہ ٹاون کے تین سو شہدا کے مقدمہ میں مرکزی ملزم قرار پائے ہوں اور خواہ آپ کا نام بلدیہ ٹاون فیکٹری کے مالک نے اپنے ویڈیو بیان میں لیا ہو۔ جے آئی ٹی بھی تبدیل کردی جائے گی اور ویڈیو بیان تو الماری کے نچلے خانے میں مقفل کرکے چابی سمندر میں پھینک دینگے ۔
آپ نے وہ گانا نہیں سنا کہ جب سیاں جی کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا؟۔
ایم کیو ایم کے کارکن ، سپورٹرز اور ہمدرد اس وقت قانون نافذ کرنے والوں کے مائینس الطاف نکتے پر اتفاق کرنے لگے ہیں۔
گزشتہ دو سال میں کراچی آپریشن میں جتنے بے گناہ کارکنان( اگر آپ گرفتار کرکے مقدمہ درج نہیں کرینگے، ان کا ریمانڈ نہیں لینگے اور تفتیش کرنے کے بجائے تشدد کرکے مار کر لاشیں سڑک پر پھینکنے کو قانون کی بالادستی قرار دینگے تو مجھ جیسے سڑک چھاپ رپورٹر کو اسے ریاستی دہشت گردی اور مارے جانے والے کو بے گناہ کہنے سے نہیں روک سکتے)۔ آپریشن کی آڑ میں اہل اقتدار کے سیاسی ایجنڈے کی بھینٹ چڑھے۔ ان کے لواحقین اب الطاف حسین کے (خدانخواستہ) مرنے کے حق میں ہیں۔
الطاف حسین کو مرجانا چاہئے کیونکہ ایک یہ واحد شخص ہے جو را کاایجنٹ قرار دیئے جانے کے باوجود کراچی میں اپنے کسی کارکن کو مشتعل ہونے سے روک رہا ہے۔ ایسا لیڈر کیوں زندہ رہے جو اپنے بے گناہ کارکنوں کے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے جانے پر ان کے اہل خانہ کے آنسو پونچھ کر ان کا بدلہ لینے کی قسمیں کھانے کے بجائے ان کے ساتھ خود پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، انہیں صبر کی تلقین کرے اور ہر حال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے احترام کی تلقین اور جوابی تشدد کرنے سے باز کرتا پھرے۔
کیا کریں مہاجر ایسے لیڈر کا جس کے دماغ میں پاکستان سے محبت کا خناس اور افواج پاکستان سے محبت کا کیڑا ختم ہی نہیں ہورہا اور وہ اپنے کارکنان کی لاشوں پر بین ڈالتی مائیں اور بہنوں کو قومی پرچم کو سیلیوٹ مارنے کا حکم دیتا ہے۔
ایسے لیڈر کاکیا کوئی اچار ڈالے جو اہل اقتدار کا سارا کھیل ، سارا سکرپٹ ، اور سکرین پلے سمجھنے کے بعد بھی آرمی چیف سے معذرت کرکے ملک کی خاطر غیر مشروط حمایت اور ساتھ چلنے کی آفریں کرتا پھرے۔
بھارت نےسات سال قبل افغانستان میں پاکستان کی سرحد ساتھ چھے قونصل خانے بنائے اور وہاں سے طالبان اور دہشت گردوں کو فنڈنگ شروع کی ۔ بدلے میں سارا ملک جہنم بن گیا۔ یہ کیسی را ہے جو ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو بیس سالوں سے فنڈ کررہی ہے لیکن ان سے کراچی ، حیدر آباد وغیرہ میں آج تک ایک بھی ملک مخالف سرگرمی نہیں کراسکی۔
سو “ہمارے خلاف بریکنگ نیوز اور ٹکر ویسے بھی ہیں تو ایسے بھی سہی” کے مصداق اب مہاجر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ بھی ہماری اشرافیہ کی طرح الطاف حسین کے مرنے کی اگر دعا نہیں بھی مانگ رہا تو منتظر ضرور ہے تاکہ پھر انہیں کوئی باپ کی طرح نصیحتیں کرنے والا، ردعمل دینے سے روکنے والا اور مشتعل ہونے سے باز رکھنے والا نہ رہے۔ بطور غیر مہاجر رپورٹر کراچی میں رپورٹنگ کرتے ہوئے میں ایک بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر الطاف حسین کو کچھ ہوگیا تو مائینس الطاف فارمولہ کے تشکیلیوں کو مائینس کراچی کا عذاب کئی عشروں بھگتنا پڑے گا۔ الطاف حسین زندہ ہے تو کراچی کی سڑکوں پر مہاجروں کی لاشیں گر رہی ہیں۔ الطاف حسین نہ رہا تو اس سے دوگنی لاشیں کراچی کی سڑکوں پر نظر آئینگی لیکن اس مرتبہ چھلنی ہونے والے مہاجر نہیں ہونگے۔
اہل اقتدار سے گزارش ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے۔ چند پیٹرول پمپوں، شادی ہالوں اور پلاٹوں کے لئے کراچی کو جہنم مت بنائیں۔ اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے غلط اور صحیح کے فرق کو ریاستی طاقت کے منہ زور نشے میں مت روندیں ۔ آپ سے تو مٹھی بھر جذباتی پشتون قابو نہیں آرہے ، یہ سوچنے سمجھنے والا اعلیٰ تعلیم یافتہ مہاجر اگر تشدد کی راہ پر چل نکلا تو آپکے انواریوں، مرزائیوں اور گبولیوں کو کراچی کے گٹر بھی پناہ دینے سے انکار کردینگے۔
میرا فرعون جانتا ہی نہیں
آہ کیا کر گزرنے والی ھے
 

عباس اعوان

محفلین
قدیم چائینہ نہیں، اردو میں قدیم چین لکھا جاتا ہے۔
اور یہ سمورائی کلچر چین میں نہیں، جاپان میں ہوتا تھا۔
تحریر کے اشتراک کے لیے شکریہ۔
 
اور یہ سمورائی کلچر چین میں نہیں، جاپان میں ہوتا تھا۔
RONIN 47ایک اچھی فلم ہے۔ البتہ جادو اور غیر مرئی طاقتوں والے سین کچھ زیادہ ہیں۔

be1298c6cf9c2cfebf83ac5f8c64c767.jpg
 
یہ کیسی را ہے جو ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو بیس سالوں سے فنڈ کررہی ہے لیکن ان سے کراچی ، حیدر آباد وغیرہ میں آج تک ایک بھی ملک مخالف سرگرمی نہیں کراسکی۔
:feelingbeatup:
مائینس کراچی کا عذاب
:nerd:
الطاف حسین نہ رہا تو اس سے دوگنی لاشیں کراچی کی سڑکوں پر نظر آئینگی لیکن اس مرتبہ چھلنی ہونے والے مہاجر نہیں ہونگے۔
کالم نویس بھی غیر مہاجر ہے اسے ابھی سے ڈر لگ گیا ہے
اہل اقتدار سے گزارش ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لیجئے۔ چند پیٹرول پمپوں، شادی ہالوں اور پلاٹوں کے لئے کراچی کو جہنم مت بنائیں۔
:thinking:
 
جو آگ و خون کا کھیل تم نے شروع کیا تھا اب اس کی چنگاریاں دامن پہ گرنے لگی تو گریہ و زاری کرنے لگے۔ جب دوسروں کی لاشیں بوریوں میں بھر کے سڑکوں پہ پھینکتے تھے تو خیال نہ آیا تھا کہ یہی کچھ تمہارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
 

کاشفی

محفلین
چوی ساپ۔ تم اپنے لوگوں کو سنبھالوں۔۔
ملک میں آگ تم لوگوں نے لگائی ہے اور اب اس کے شعلے تم تک پہنچ چکے ہیں۔۔انشاء اللہ کراچی اور کراچی والوں کے دشمن نسیت و نابود ہوں گے۔۔۔
 

کاشفی

محفلین
کراچی کے دشمن وہ لوگ ہیں جو کراچی کے نام سے چ چ کرنے لگ جاتے ہیں کیوں چوی ساپ۔۔
کراچی والوں پر الزام تراشیاں کرنے والے اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔۔انشاء اللہ کراچی دشمن نیست و نابود ہوں گے۔۔
 
تحریر کے بعض حصوں میں درست نشاندہی کی گئی ہے جو بہت اچھی ہے.کراچی آپریشن کو جس قدر قریب سے صحافی برادری جانتی ہے اس سے انکار ممکن نہیں.
رہا سوال سیاسی جماعت کا تو وہ اہلِ سیاست جانیں.
دوستوں کو صلح یہی ہے کہ موقف کے اختلاف میں تعصب سے بچتے رہیں.
 

کاشفی

محفلین
102 سالہ عبدالقیوم صدیقی مہاجر سے ملیں۔۔یہ ہے وہ جذبہ، وہ سوچ، وہ عزم جو ہمارے بوٹوں پر زبانیں رگڑنے والے اینکروں کو سمجھ نہیں آتا اسی لیئے وہ ہر الیکشن میں کراچی حیدرآباد کے بارے میں اپنی خواہشات کو تجزیہ اور پیشن گوئی بنا کر پیش کرتے ہیں اور بعدازن رج کر ذلیل ہوتے ہیں۔۔۔
(بشکریہ - ابو علیحہ)
 
Top