میرا مزاج تلخ ہے ، میرا کلام دکھ

ایک تازہ غزل : 23 مارچ 2015
------------------------------------------

میں عام آدمی ہوں مرے عام عام دکھ
لیکن مجھے عزیز ہیں میرے تمام دکھ

اب ڈالنا پڑے گا مجھے دل میں اک شگاف
کرنا تو ہے فرار تِرا بے لگام دکھ

کل رات میرے خواب کا منظر عجیب تھا
جھولی میں بھر کے لے گیا ماہِ تمام دکھ

رکھا ہوا ہے شام کے ماتھے پہ ایک چاند
زیرِ نگاہ درد ہے ، بالائے بام دکھ

دنیا سے اختلاف مرا اس لیے رہا
میرا مزاج تلخ ہے ، میرا کلام دکھ

اے ناز اس دیار میں تھوڑی سی احتیاط
رکھا ہے شہرِیار نے خوشیوں کا نام دکھ

(نذر حُسین ناز)
 
آخری تدوین:
Top