محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
دفعتاً پا کے اُسے،میرا مقدر ناچا
جس طرح فتح کے نشے میں سکندر ناچا
رقص کے واسطے یونہی نہیں کھلتی بانہیں
قاعدہ عشق کا جس کو ہُوا از بر ناچا
زاہدِ خُشک کے فتوے ،تجھے مولا سمجھے
کب سرِ بزم یونہی اُٹھ کے قلندر ناچا
شدتِ ضبط نے دانتوں میں دبا لی اُنگلی
بر سرِ نوکِ سناں جب دلِ مُضطر ناچا
درد کی لےَ پہ مرا رقص تو معمول ہی تھا
لُطف چوکھا ہُوا ،کل اُٹھ کے جو دلبر ناچا
دم بخود ہو گئے الفاظ، تو بحریں گمُ سمُ
جب مرے گیت میں وہ حُسنِ معطرناچا
داورِ حشر کے آگے نہ چلے گی تیری
یہ دلِ شکوہ کنُاں ،جب سرِ محشر ناچا
سچ کی تقدیر تھا ،سوُلی پہ لٹکتے رہنا
جھوٹ سج دھج کے سرِ مسجد و مندر ناچا
کنُ کہا اُس نے ،فیکون کا منظر اُبھرا
پردہِ جہل ہٹا، فہمِ منور ناچا
مردِ حق کی جو مہک پائی تو بے خود ہو کر
وجد میں آ گیا محراب تو منبر ناچا
لفظ کاغذ پہ اُترنے لگے چَھن چَھن چَھن چَھن
جب بھی عرشی مرےاندر کا سُخن ور ناچا!!
اگر کسی محفلین کو اس غزل کے خالق کے بارے میں معلومات ہوں تو لازمی شریک محفل کریں۔جس طرح فتح کے نشے میں سکندر ناچا
رقص کے واسطے یونہی نہیں کھلتی بانہیں
قاعدہ عشق کا جس کو ہُوا از بر ناچا
زاہدِ خُشک کے فتوے ،تجھے مولا سمجھے
کب سرِ بزم یونہی اُٹھ کے قلندر ناچا
شدتِ ضبط نے دانتوں میں دبا لی اُنگلی
بر سرِ نوکِ سناں جب دلِ مُضطر ناچا
درد کی لےَ پہ مرا رقص تو معمول ہی تھا
لُطف چوکھا ہُوا ،کل اُٹھ کے جو دلبر ناچا
دم بخود ہو گئے الفاظ، تو بحریں گمُ سمُ
جب مرے گیت میں وہ حُسنِ معطرناچا
داورِ حشر کے آگے نہ چلے گی تیری
یہ دلِ شکوہ کنُاں ،جب سرِ محشر ناچا
سچ کی تقدیر تھا ،سوُلی پہ لٹکتے رہنا
جھوٹ سج دھج کے سرِ مسجد و مندر ناچا
کنُ کہا اُس نے ،فیکون کا منظر اُبھرا
پردہِ جہل ہٹا، فہمِ منور ناچا
مردِ حق کی جو مہک پائی تو بے خود ہو کر
وجد میں آ گیا محراب تو منبر ناچا
لفظ کاغذ پہ اُترنے لگے چَھن چَھن چَھن چَھن
جب بھی عرشی مرےاندر کا سُخن ور ناچا!!