خرم شہزاد خرم
لائبریرین
یہ دوہزار پانچ کی بات ہے اس وقت تک میں محفل سے بہت دور تھا لیکن مجھے عثمان خاور جیسے اچھے استاد ملے گو کو میں نے ان سے صرف ایک نظم اور ایک غزل پر ہی اصلاح لی تو لیکن استاد تو استاد ہوتے ہیں ایک اکتوبر کی شام تھی میں مشاعرے والے حال میں پرشان بیٹھا ہوا تھا ۔چونکہ میں نیا نیا شعر تھا (جو کہ اب بھی نیا ہی ہوں ) اس لیے مجھے شروع میں ہی پڑھنا تھا مشاعرے میں بہت اچھے اچھےشاعر آئے ہوئے تھے ان کے سامنے کلام پیش کرنے سے پہلے میںبہت ڈر رہا تھا اتنے میں عثمان خاور صاحب کی آواز میرے کانوں میں گونجی اب میں اپنے آفس کے نوجوان شاعر جناب خرم شہزاد سے درخواست کروں گا وہ آئے اور اپنا کلام پیش کرے۔ میں اپنی نشست سے اٹھا اور اسٹیج پر جا کر بیٹھ گیا اور ایک آزاد نظم اسے کہنا اسے ہم یاد کرتے ہیں پڑھنا شروع کر دی میرے چہرے سے پرشانی کے اثرات صاف نظر آ رہے تھے۔ میں پڑھنے کے بعد عثمان خاور صاحب کی طرف دیکھتا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میںمیرے حوصلہ افزارئی فرماتے رہے۔ تمام لوگ خاموشی سے سن رہے تھے۔ جب ایک بند مکمل ہوا تا ۔ واہ واہ واہ کا شور میرے کانوں میںگونجا تو مجھے کچھ سانس آئی اور خوشی تو مجھے اس وقت ہوئی جب اکبر صاحب صاحب نے کہا بیٹا یہ نظم ایک بار پھر پڑھو مجھے بہت خوشی ہوئی اور ساری رات خوشی کے مارے میںسو نہیںسکا