میرا پیغام جو دنیا کو سنایا جاتا-----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
------------
میرا پیغام جو دنیا کو سنایا جاتا
میری باتوں کو ہوا میں نہ اڑایا جاتا
----------
ہم نے ظالم کے اگر ہاتھ کو روکا ہوتا
پھر نہ دنیا میں غریبوں کو ستایا جاتا
----------
مجھ کو کہتے یہ بُرا تب تو زمانے والے
میری نظروں سے اگر ان کو گرایا جاتا
-----------
بے وفائی کو مجھے تب تو وہ طعنہ دیتے
ان کی چاہت کو اگر دل سے بھلایا جاتا
------------
ہم سمجھنے کا اگر اس کو ارادہ کرتے
پھر نہ قرآن غلافوں میں چھپایا جاتا
----------
دین سے دور نہ ہوتے یہ ہمارے بچے
-------یا
دین سے دور نہ ہوتی یہ ہماری نسلیں
ان کو اسلام اگر گھر میں سکھایا جاتا
------------
دور جاتے نہ کبھی تجھ سے وہ ہرگز ارشد
روٹھ جانے جانے پہ اگر ان کو منایا جاتا
--------------------
 

الف عین

لائبریرین
میرا پیغام جو دنیا کو سنایا جاتا
میری باتوں کو ہوا میں نہ اڑایا جاتا
.. مطلع واضح نہیں، جب پیغام سنایا ہی نہیں گیا تو ہوا میں کیا چیز اڑائی جاتی؟
ہم نے ظالم کے اگر ہاتھ کو روکا ہوتا
پھر نہ دنیا میں غریبوں کو ستایا جاتا
---------- تقابل ردیفین لگتا ہے دونوں کا 'تا' پر ختم ہونے سے۔ اولی کے الفاظ بدلیں
درمیانی اشعار درست ہیں
آخر کے دو
دین سے دور نہ ہوتے یہ ہمارے بچے
-------یا
دین سے دور نہ ہوتی یہ ہماری نسلیں
ان کو اسلام اگر گھر میں سکھایا جاتا
------------ ہوتیں یہ ہماری نسلیں
دوسرا متبادل بہتر لگ رہا ہے

دور جاتے نہ کبھی تجھ سے وہ ہرگز ارشد
روٹھ جانے جانے پہ اگر ان کو منایا جاتا
-------------------- دوسرا مصرع واضح نہیں کہ کون روٹھتا دونوں فریقین میں سے!
روٹھ جاتے جو وہ تب ان کو....
بہتر ہو گا
 
Top