محمدظہیر
محفلین
مجھے عمرہ سے آئے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ ہمارےبہنوئی صاحب جو کویت میں رہتے ہیں ، انہوں نے وزِٹ وزا کا دعوت نامہ بھیج دیا۔ یوں مارچ کی ۱۳ تاریخ کو حیدرآباد سے دبئی – دبئی سے کویت والی ایمیریٹس کی فلائٹ میں روانہ ہوا۔
کویت ائر پورٹ دیکھ کر ہمیں بڑا تعجب ہوا، یہ ہمارے شہر کے بس اسٹینڈ سے بھی چھوٹا محسوس ہو رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ دنیا میں ایسے عجیب و غریب ائر پورٹ بھی رہتے ہیں ۔ اتنے میں موبائل میں الرٹ ہوا ۔ واٹس ایپ پر اپنی بہن کو اطلاع دے دی کہ ہم آپ کے ملک پہنچ گئے ہیں، وہ لوگ اپنی فیملی سمیت یعنی بہنوئی ، بہن ، اور تین بھانجے کار میں مجھے لینے پہنچ گئے۔ قریب ایک گھنٹہ مجھے ٹرمینل کے باہر انتظار کرنا پڑا۔ ایک گھنٹہ بعد مجھے کال لگا کر پوچھا کہ اس وقت میں کس جانب ہوں؟ میں نے کہا ، ائر پورٹ اتنا چھوٹا ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ لوگ میری بات سن کر حیران ہوئے۔ کیوں کہ پچھلے پندرہ منٹ سے مجھے تلاش کر رہے تھے۔ لیکن میں انہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔
پھر ہمارے بہنوئی صاحب کہ ذہن میں خیال آیا۔ انہوں نے پوچھا آپ جس ٹرمینل پر ہیں اس کا نام بتائیں۔ میں نے کہا، شیخ سعد ٹرمنل پر ہوں۔ اس وقت انہیں بات سمجھ آئی کہ میں کویت انٹرنیشنل ائر پورٹ پر نہیں پہنچا بلکہ شیخ سعد ٹرمینل پر ہوں۔ انہوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ میں انٹرنیشل ٹرمینل پر پہنچوں گا۔
اتفاق سے شیخ سعد ٹرمینل ، انٹرنیشنل ائر پورٹ کے قریب ہی واقع ہے۔ وہ لوگ پندرہ بیس منٹ میں یہاں پہنچ گئے۔ قریب مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ چھوٹی بھانجی نے گلاب کے پھول سے میرا کویت میں استقبال کیا۔ میں سامان کار میں رکھ کر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ بہنوئی صاحب نے پوچھا ، آپ ڈرائونگ کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کار میں دیکھا تو سمجھ آئی کہ غلطی سے میں بائیں جانب آ کر بیٹھ رہا ہوں جہاں بیٹھ کر ڈرائیو کرتے ہیں۔ انڈیا میں ڈرایونگ سیٹ دائیں جانب ہوتی ہے، اسی خیال سے میں نے غلطی کی۔ مجھے دائیں جانب بیٹھ کر ڈرایو کرنے کی عادت ہے۔ میں نے ان سے کہا ،مجھے یہاں آ کر کوئی مسئلہ کرنا نہیں ہے، آپ ہی ڈرایو کیجیے۔
بہر حال کار میں بیٹھ کر ہم لوگ گھر کی طرف نکل پڑے۔
راستے میں مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد دریافت کرنے پر پتا چلا ائر پورٹ سے منقف ۳۰-۳۵ کیلو میٹر کی دوری پر ہے، جہاں ان لوگوں کا فلیٹ ہے۔ گھر پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ لگا۔
کویت میں میرا ایک مہینے کا قیام تھا۔ جس دن میں پہنچا اس سے ایک دن قبل ہی بچوں کے امتحانات ختم ہو گئے تھے۔ اب ہمارے پاس گھومنے پھرنے اور انجائے کرنے کے لیے پورا ایک مہینہ تھا۔ طے کیا گیا کہ روزانہ ایک تفریح گاہ جائیں گے۔
دوسرے دن سے روزانہ گھومنے پھرنے نکل گئے۔ بہنوئی صاحب کے -کمپنی میں انجینئر ہیں، تین بجے ڈیوٹی ختم ہوتی ہے۔ گھر پہنچ کر دوپہر کا کھانا تناول فرما کر کچھ دیر قیلولہ کرتے ہیں اور عصر پڑھنے نکلتے ہیں۔ نماز کے بعد پروگرام طے ہوتا تھا کہ گھومنے کہاں جانا ہے۔
مہینے میں کم از کم ۲۰-۲۵ دفعہ سیر و تفریح کے لیے گھومنے گئے۔ کبھی کویت میجک ، تو کبھی الحمرہ ٹاویرس۔ کبھی گرین آئیلینڈ تو کبھی اوینیوز مال۔ یوں دیکھے دیکھے پتا ہی نہیں چلا ایک مہینہ کیسے گزر رہا ہے۔
جمعہ کی نماز ہم لوگ فنٹاس میں پڑھتے تھے ۔ کیوں کہ اس مسجد میں عربی کے بجائے انگریزی میں جمعہ کا خطبہ ہوتا تھا۔ رات کا کھانا اکثر باہر ہی ہوتا تھا۔ پاکستانی کھانے ماشاءاللہ ذائقے دار ہوتے ہیں۔
اس بیچ میں نے اپنے شہر کے ایک دوست سے بھی ملاقات کی۔ جمعہ کے روز ملنے گیا، ساتھ مل کر دوپہر کے وقت مندی کھائی ، کچھ دیر باتیں کیں اور الوداع کہ کر وہاں سے نکلا۔
مجھے پتا تھا کہ محفیلین میں محترم لئیق احمد بھائی اور محترمہ حمیرا عدنان بہن کویت میں رہتے ہیں۔ لیکن میرے پاس رابطے کے لیے صرف اردو محفل ہی تھی۔ ان دنوں اردو محفل پر نہیں آیا کرتا تھا۔ اس لیے ان دونوں سے رابطہ نہ ہو سکا۔
بہرحال، بھانجے بھتیجیوں اور بہن کے ساتھ کویت میں اچھا وقت گزرا ۔ ۱۲ -اپریل کو انڈیا واپسی تھی۔ واپسی کویت انٹرنیشنل ائر پورٹ سے وائیا دبئی تھی۔
آتے وقت ایک چھوٹا مسئلہ ہو گیا ۔ کویت میں وزِٹ وزا کو پاسپورٹ پر اسٹیمپ نہیں کرتے ۔ میرا ویزے کا پیپر کہیں گم گیاتھا۔ سوچ رہا تھا پتا نہیں یہ لوگ بغیر ویزے کے آسانی سے جانے دیں گے یا نہیں۔ اگر نہیں تو میری ٹکٹ کے نقصان کا اندیشہ تھا۔ اتفاق سے میں نے ویزے کی تصویر اپنے موبائل میں کھینچ رکھی تھی۔ وہ بتانے پر ایمگریشن کامیاب ہوا۔ اور یوں کویت کا سفر اختتام کو پہنچا
20180322_204304 by Zaheeruddin, on Flickr
The avenues Kuwait
کویت ائر پورٹ دیکھ کر ہمیں بڑا تعجب ہوا، یہ ہمارے شہر کے بس اسٹینڈ سے بھی چھوٹا محسوس ہو رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ دنیا میں ایسے عجیب و غریب ائر پورٹ بھی رہتے ہیں ۔ اتنے میں موبائل میں الرٹ ہوا ۔ واٹس ایپ پر اپنی بہن کو اطلاع دے دی کہ ہم آپ کے ملک پہنچ گئے ہیں، وہ لوگ اپنی فیملی سمیت یعنی بہنوئی ، بہن ، اور تین بھانجے کار میں مجھے لینے پہنچ گئے۔ قریب ایک گھنٹہ مجھے ٹرمینل کے باہر انتظار کرنا پڑا۔ ایک گھنٹہ بعد مجھے کال لگا کر پوچھا کہ اس وقت میں کس جانب ہوں؟ میں نے کہا ، ائر پورٹ اتنا چھوٹا ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ لوگ میری بات سن کر حیران ہوئے۔ کیوں کہ پچھلے پندرہ منٹ سے مجھے تلاش کر رہے تھے۔ لیکن میں انہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔
پھر ہمارے بہنوئی صاحب کہ ذہن میں خیال آیا۔ انہوں نے پوچھا آپ جس ٹرمینل پر ہیں اس کا نام بتائیں۔ میں نے کہا، شیخ سعد ٹرمنل پر ہوں۔ اس وقت انہیں بات سمجھ آئی کہ میں کویت انٹرنیشنل ائر پورٹ پر نہیں پہنچا بلکہ شیخ سعد ٹرمینل پر ہوں۔ انہوں نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ میں انٹرنیشل ٹرمینل پر پہنچوں گا۔
اتفاق سے شیخ سعد ٹرمینل ، انٹرنیشنل ائر پورٹ کے قریب ہی واقع ہے۔ وہ لوگ پندرہ بیس منٹ میں یہاں پہنچ گئے۔ قریب مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ چھوٹی بھانجی نے گلاب کے پھول سے میرا کویت میں استقبال کیا۔ میں سامان کار میں رکھ کر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ بہنوئی صاحب نے پوچھا ، آپ ڈرائونگ کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے کار میں دیکھا تو سمجھ آئی کہ غلطی سے میں بائیں جانب آ کر بیٹھ رہا ہوں جہاں بیٹھ کر ڈرائیو کرتے ہیں۔ انڈیا میں ڈرایونگ سیٹ دائیں جانب ہوتی ہے، اسی خیال سے میں نے غلطی کی۔ مجھے دائیں جانب بیٹھ کر ڈرایو کرنے کی عادت ہے۔ میں نے ان سے کہا ،مجھے یہاں آ کر کوئی مسئلہ کرنا نہیں ہے، آپ ہی ڈرایو کیجیے۔
بہر حال کار میں بیٹھ کر ہم لوگ گھر کی طرف نکل پڑے۔
راستے میں مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد دریافت کرنے پر پتا چلا ائر پورٹ سے منقف ۳۰-۳۵ کیلو میٹر کی دوری پر ہے، جہاں ان لوگوں کا فلیٹ ہے۔ گھر پہنچتے پہنچتے ایک گھنٹہ لگا۔
کویت میں میرا ایک مہینے کا قیام تھا۔ جس دن میں پہنچا اس سے ایک دن قبل ہی بچوں کے امتحانات ختم ہو گئے تھے۔ اب ہمارے پاس گھومنے پھرنے اور انجائے کرنے کے لیے پورا ایک مہینہ تھا۔ طے کیا گیا کہ روزانہ ایک تفریح گاہ جائیں گے۔
دوسرے دن سے روزانہ گھومنے پھرنے نکل گئے۔ بہنوئی صاحب کے -کمپنی میں انجینئر ہیں، تین بجے ڈیوٹی ختم ہوتی ہے۔ گھر پہنچ کر دوپہر کا کھانا تناول فرما کر کچھ دیر قیلولہ کرتے ہیں اور عصر پڑھنے نکلتے ہیں۔ نماز کے بعد پروگرام طے ہوتا تھا کہ گھومنے کہاں جانا ہے۔
مہینے میں کم از کم ۲۰-۲۵ دفعہ سیر و تفریح کے لیے گھومنے گئے۔ کبھی کویت میجک ، تو کبھی الحمرہ ٹاویرس۔ کبھی گرین آئیلینڈ تو کبھی اوینیوز مال۔ یوں دیکھے دیکھے پتا ہی نہیں چلا ایک مہینہ کیسے گزر رہا ہے۔
جمعہ کی نماز ہم لوگ فنٹاس میں پڑھتے تھے ۔ کیوں کہ اس مسجد میں عربی کے بجائے انگریزی میں جمعہ کا خطبہ ہوتا تھا۔ رات کا کھانا اکثر باہر ہی ہوتا تھا۔ پاکستانی کھانے ماشاءاللہ ذائقے دار ہوتے ہیں۔
اس بیچ میں نے اپنے شہر کے ایک دوست سے بھی ملاقات کی۔ جمعہ کے روز ملنے گیا، ساتھ مل کر دوپہر کے وقت مندی کھائی ، کچھ دیر باتیں کیں اور الوداع کہ کر وہاں سے نکلا۔
مجھے پتا تھا کہ محفیلین میں محترم لئیق احمد بھائی اور محترمہ حمیرا عدنان بہن کویت میں رہتے ہیں۔ لیکن میرے پاس رابطے کے لیے صرف اردو محفل ہی تھی۔ ان دنوں اردو محفل پر نہیں آیا کرتا تھا۔ اس لیے ان دونوں سے رابطہ نہ ہو سکا۔
بہرحال، بھانجے بھتیجیوں اور بہن کے ساتھ کویت میں اچھا وقت گزرا ۔ ۱۲ -اپریل کو انڈیا واپسی تھی۔ واپسی کویت انٹرنیشنل ائر پورٹ سے وائیا دبئی تھی۔
آتے وقت ایک چھوٹا مسئلہ ہو گیا ۔ کویت میں وزِٹ وزا کو پاسپورٹ پر اسٹیمپ نہیں کرتے ۔ میرا ویزے کا پیپر کہیں گم گیاتھا۔ سوچ رہا تھا پتا نہیں یہ لوگ بغیر ویزے کے آسانی سے جانے دیں گے یا نہیں۔ اگر نہیں تو میری ٹکٹ کے نقصان کا اندیشہ تھا۔ اتفاق سے میں نے ویزے کی تصویر اپنے موبائل میں کھینچ رکھی تھی۔ وہ بتانے پر ایمگریشن کامیاب ہوا۔ اور یوں کویت کا سفر اختتام کو پہنچا
20180322_204304 by Zaheeruddin, on Flickr
The avenues Kuwait
آخری تدوین: