اب
شاہد شاہنواز کی اصلاح پر غور کیا جائے
فاعلاتن مفاعلن فعلن سے تقطیع کرنے پر
میرا یہ دن بہت اداس رہا
خفا رہا جو میرے پاس رہا
÷÷÷ دوسرا مصرع شاید وزن میں نہ ہو، ’’وہ خفا تھا جو میرے پاس رہا۔۔۔ ‘‘ بہتر لگ رہا ہے مجھے ۔
درست،
وہ یا تو خواب یا سراب ہوا
وہ ہر طرح سے میری پیاس رہا
÷÷÷یا تو وہ خواب یا سراب ہوا ۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔۔ اور دوسر ے مصرعے میں وہ کی جگہ جو بہتر ہے۔۔۔
درست
وہ میری تلخیوں میں ساتھ مرے
مرے مزاج کی مٹهاس رہا
÷÷÷ درست÷÷÷
یہ درست نہیں، ‘مٹھاس‘ تقطیع میں نہیں آ سکتا۔
ہر عیب اس پہ کهل گیا میرا
وہ اس طرح مرا لباس رہا
÷÷÷ درست÷÷÷
وزن درست نہیں، اس طرح ممکن ہے
اس پہ ہر عیب کھل گیا میرا
اس طرح وہ مرا لباس رہا
یا دونوں مصرعوں کو ’اس‘ سے شروع کرنے کی جگہ پہلا یوں کہو
میرا ہر عیب کھل گیا اس پر
تو خود نہ تها مگر اثر تیرا
تو خوشبووں سا آس پاس رہ
÷÷÷ پورا شعر ایک جملہ لگتا ہے، شاید دوسرا مصرع: ایک خوشبو سا آس پاس رہا، کرنے سے صورتحال بدل جائے۔۔۔
درست یوں ہو گا
خود نہیں تھا مگر اثر تیرا
خوشبوؤں سا تو آس پاس رہا
لیکن کچھ مزید بہتری لائی جا سکتی ہے اس میں۔مثلاً شاہد کی اصلاح بھی بہتر ہے، جو میں نے ابھی دیکھی۔ پہلے مصرع میں جب ’اثر تیرا‘ ہے تو فاعل تو آ چکا، پھر ’تو‘ کی کیا ضرورت ہے
خود نہیں تھا مگر اثر تیرا
ایک خوشبو سا آس پاس رہا