میرزا بیدل کے بارے میں نیاز فتح پوری کا ایک خط

حسان خان

لائبریرین
صدیقِ محترم! خط ملا، نہ پوچھیے کتنی مسرت ہوئی، اب تو کوئی شخص بیدل کا ذکر کر دیتا ہے، تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ 'صدائے الست' معلوم نہیں کتنی دور سے آ رہی ہے۔ حال ہی میں ایک صاحب تشریف لائے تھے، وہ بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے بیدل کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں، مجھ سے مدد و مشورہ کے طالب تھے، وہ کہتے رہے، میں سنتا رہا، اور جب آخیر میں، میں نے اُن سے فرمائش کی کہ بیدل کا کوئی شعر سنائیے جو آپ کو بہت پسند ہو، تو معلوم ہوا کہ حضرت نے صرف بیدل کا نام ہی سنا ہے اور اس کا کلام دیکھنے کی نوبت کبھی نہیں آئی، میں نے پوچھا کہ آپ اپنا مقالہ کب تک پیش کرنا چاہتے ہیں۔ فرمایا 'سالِ آئندہ'۔۔۔ میں نے جواب میں بیدل کا یہ مصرعہ انہیں سنا دیا:
ز شبنم بخیہ نتواں کرد چاکِ دامنِ گُل را
اور خاموش ہو رہا!
آپ سے مگر میں ایسی باتیں نہیں کر سکتا، کیونکہ آپ کے مطالعہ و ذوق دونوں سے واقف ہوں!
سب سے پہلا اور سب سے بڑا کام یہ ہے کہ بیدل کے کلام کی جستجو کی جائے، عرصہ ہوا نولکشور پریس نے اس کا کلیات اور مجموعۂ نثر جس میں چہار عناصر اور نکات بھی شامل تھے، طبع کیا تھا، اور ہرچند وہ مکمل نہ تھا، لیکن اب یہ نامکمل اڈیشن بھی نہیں ملتا۔ نولکشور سے پہلے مطبعِ صفدری بمبئی نے ۱۲۹۹ھ میں ایک مجموعہ شائع کیا تھا، اور وہ نسبتاً زیادہ مکمل تھا۔ مگر اب وہ بھی نایاب ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہندوستان کے کتب خانوں میں کہاں کہاں اس کی تصانیف کے مخطوطات مل سکتے ہیں۔ مگر ہوں گے ضرور! جس زمانہ میں میرا قیام حکیم اجمل خاں مرحوم کے پاس تھا، اس وقت ان کے کتب خانہ میں ایک قلمی نسخہ بیدل کا دیکھا تھا، جس میں بہت سی چیزیں مطبوعہ نسخوں سے زیادہ تھیں۔ معلوم نہیں یہ نسخہ اب بھی موجود ہے یا نہیں!
نثر میں اس کی تین چیزیں ہیں، نکات، چہار عناصر اور رقعات، لیکن ان میں بھی ہزاروں اشعار پائے جاتے ہیں! باقی اس کا تمام کلام منظوم ہے، جس کے شعروں کی تعداد لاکھوں تک پہونچتی ہے!
اس کے دیوان میں بھی تیس ہزار اشعار سے کم نہیں، لیکن اس کی دوسری تصانیف میں بھی غزلیں اتنی کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ اگر ان سب کو اکٹھا کر لیا جائے تو اس کے دیوان کا حجم دوچند ہو سکتا ہے۔
میرے پاس وہی بمبئی والا نسخہ ہے، اس میں سب سے پہلے مثنوی عرفان درج ہے، اور پھر مثنوی طورِ معرفت، اس کے بعد، نکات، اشارات، رقعات، چہار عناصر، مثنوی محیطِ اعظم، غزلیات، رباعیات، مثنوی طلسمِ حیرت، قصایدِ فیوض ہیں، اور گو میں جانتا ہوں کہ یہ نسخہ ناقص ہے، تاہم اس میں بھی جو کچھ ہے، وہ اتنا ہے کہ ایک شخص پوری عمر صرف کرنے کے بعد بھی اس کا مطالعہ ختم نہیں کر سکتا۔۔۔ پندرہ سال کی عمر سے اس وقت تک بیدل کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ لیکن اس سمندر سے ایک قطرہ بھی نہیں اٹھا سکا۔ بیدل کا ذوق انسان میں عجیب قسم کا ذہنی استسقا پیدا کر دیتا ہے، اور وہ اس کی ہر چیز سمجھ لینے کے لئے اس کے کلام کی بیتابانہ ورق گردانی کرنے لگتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس کی کسی خصوصیت کو نہیں پہچان سکتے!
میری رائے میں سب سے پہلے چہار عناصر کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ اسی سے کچھ پتہ بیدل کی زندگی کا بھی چلتا ہے، نیز یہ کہ کن واقعات و حالات سے وہ کیونکر متاثر ہوا، اس کے بعد نکات پڑھنا چاہیے۔ اور اگر زندگی وفا کرے تو پھر اس کی مثنویوں کی تلاوت کرنا چاہیے۔ کہ بیدل کی شاعری کا کمال انہیں سے ظاہر ہوتا ہے!
بیدل کا کلام اپنے پیام کے لحاظ سے یکسر غیر متنوع ہے، اور زبان کے لحاظ سے بھی درس و تدریس کی چیز نہیں، لیکن اندازِ بیان اور نزاکتِ تخییل کے لحاظ سے وہ یقیناً اس دنیا کی چیز نہیں۔ بیدل ہی دنیا کا سب سے پہلا، اور آخری شاعر ہے، جس کی زبان اس کی تخییل نے پیدا کی اور تخییل ماورائی ادراک نے۔
اگر کبھی لکھنؤ آنا ہو تو تکلیف فرمائیے، یہ باتیں زبانی کرنے کی ہیں، خط و کتابت سے طے کرنے کی نہیں!
 

الف نظامی

لائبریرین
مرزا بیدل کی مثنوی طورِ معرفت اور مثنوی محیطِ اعظم کے متعلق مرزا غالب کے اشعار ان کے قلم سے ملاحظہ کیجیے۔
ازیں صحیفہ بنوعی ظہور معرفت است
کہ ذرہ ذرہ چراغان طورِ معرفت است
متعلقہ:-
مثنوی بیدل ، جامعہ پنجاب اور خطاطی غالب


6h6xiv.jpg
 
آخری تدوین:
Top