محمد وارث
لائبریرین
یگانہ ایک قادر الکلام شاعر تھے لیکن جب وہ پچھلی صدی کے اوائل میں عظیم آباد سے ہجرت کر کے لکھنؤ آئے تو لکھنؤ والوں نے ان کی بالکل ہی قدر نہ کی۔ اس وقت لکھنؤ والے اپنے برے سے برے شاعر کو بھی باہر والے اچھے سے اچھے شاعر کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے تھے اور یگانہ چونکہ "باہر والے" تھے سو لکھنؤ والوں کو ایک آنکھ نہ بھائے۔ بقول مجنوں گورکھپوری، "لکھنؤ کے لوگوں میں اتنا ظرف کبھی نہ تھا کہ کسی باہر کے بڑے سے بڑے شاعر کو لکھنؤ کے چھوٹے سے چھوٹے شاعر کے مقابلے میں کوئی بلند مقام دے سکیں۔" (غزل سرا، نئی دہلی 1964ء بحوالہ چراغِ سخن از یگانہ، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور، 1996ء)۔
اور یہیں سے یگانہ اور لکھنؤ کے شعرا کے درمیان ایک ایسی چشمک شروع ہو گئی جو یگانہ کی موت پر بھی ختم نہ ہوئی، مزید برآں یہ کہ اس وقت لکھنؤ کے شعرا غالب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور اپنے ہر اس شاعر کو مسندِ علم و فضل پر بٹھا دیتے تھے جو غالب کے رنگ میں کہتا تھا چاہے جتنا بھی برا کہتا تھا سو یگانہ کی اپنی محرومی کے سبب غالب سے بھی دشمنی پیدا ہو گئی اور آخری عمر تک غالب کے کلام میں نقص تلاش کرتے رہے اور انکا اظہار کرتے رہے۔
لیکن ہمیشہ کی طرح، ادبی چشمکوں میں صرف دھول ہی نہیں اڑتی اور کاغذ سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے منہ پر صرف سیاہی ہی نہیں ملی جاتی بلکہ ان چشمکوں سے کچھ ایسے نوادر کا بھی ظہور ہوتا ہے جو شاید عام حالات میں کبھی مسندِ شہود پر نہ آتے اور انہی میں یگانہ کی علمِ عروض پر لازوال اور "اتھارٹی" کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب "چراغِ سخن" ہے جو انہیں معرکوں کی یادگار ہے جس کے سرورق پر مرحوم نے لکھا تھا۔
مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شُکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہلِ لکھنؤ کرتے
کاغذوں پر سیاہی خیر ملی ہی جاتی ہے، لیکن اس مظلوم الشعرا کے ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ کسی اہلِ قلم کے ساتھ نہ ہوا ہوگا۔ انہوں نے ایک اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں ایک فرقے کے خلاف کچھ تند و تیز و متنازعہ جملے تھے سو قلم کی پاداش میں دھر لیے گئے، جس محلے میں رہتے تھے وہاں اسی فرقے کی اکثریت تھی، اور چونکہ تھے بھی بے یار و مددگار، سو اہلیانِ محلہ نے پکڑ لیا، منہ پر سیاہی ملی، جوتوں کا ہار پہنایا، گدھے پر سوار کیا اور شہر میں جلوس نکال دیا۔
مدیر نقوش، محمد طفیل نے یگانہ سے ان کے آخری دنوں میں ملاقات کی تھی، اس ملاقات کی روداد انہوں نے اپنی کتاب "جناب" میں یگانہ پر خاکہ لکھتے ہوئی لکھی ہے، مذکورہ واقعہ کا ذکر کچھ یوں آیا ہے۔
"بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگے اور پھر مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے میرا جلوس دیکھا تھا؟"
"کیسا جلوس؟"
"اجی وہی جس میں مجھے جوتوں کے ہار پہنائے گئے تھے، میرا منہ بھی کالا کیا گیا تھا اور گدھے پر سوار کر کے مجھے شہر بھر میں گھمایا گیا تھا۔"
"اللہ کا شکر ہے کہ میں نے وہ جلوس نہیں دیکھا۔"
"واہ صاحب وا، آپ نے تو ایسے اللہ کا شکر ادا کیا ہے جیسے کوئی گھٹیا بات ہو گئی ہو، سوچو تو سہی کہ آخر کروڑوں آدمیوں میں سے صرف مجھی کو اپنی شاعری کی وجہ سے اس اعزاز کا مستحق کیوں سمجھا گیا؟ جب کہ یہ درجہ غالب تک کو نصیب نہ ہوا، میر تک کو نصیب نہ ہوا۔"
میں چاہتا تھا کہ میرزا صاحب اس تکلیف دہ قصہ کو یہیں ختم کر دیں مگر وہ مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو اور اسکے بدلے یہ گراں قدر انعام پایا ہو۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فوراً دو غزلہ کے مُوڈ میں آ گئے۔ "جی ہاں جناب، آپ کے لاہور میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔"
"وہ قصہ کیا تھا۔"
"جناب قصہ یہ تھا کہ میرزا یگانہ چنگیزی یہاں سے کراچی کا پاسپورٹ لے کے چلے تھے اور لاہور پہنچ کر اپنے ایک دوست کے ساتھ پنجاب سے نکل کر سرحد پہنچ گئے تھے، واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔ (ایک دم جمع سے واحد کے صیغے پر آ گئے)۔ اکیس روز جیل میں بند رہا، ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لایا گیا، پہلی پیشی پر مجسٹریٹ صاحب نے نام پوچھا۔ میں نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بڑی شان سے بتایا۔ "یگانہ"۔
ساتھ کھڑے ہوئے ایک وکیل صاحب نے بڑی حیرت سے مجھ سے سوال کیا۔ "یگانہ چنگیزی؟"۔
"جی ہاں جناب۔"
یہ سنتے ہی مجسٹریٹ صاحب نے (غالباً آفتاب احمد نام بتایا تھا) میری رہائی کا حکم صادر فرما دیا۔
جب رہا ہو گیا تو جاتا کدھر؟ اور پریشان ہو گیا، مجسٹریٹ صاحب نے میری پریشانی کو پڑھ لیا، میں نے ان سے عرض کیا، میرے تمام روپے تو تھانے والوں نے جمع کر لیے تھے، اب مجھے دلوا دیجیئے۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب نے کہا، درخواست لکھ دیجیئے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی، کاغذ کہاں سے لاتا اور کیسے درخواست لکھتا، اس پر بہ کمالِ شفقت مجسٹریٹ صاحب نے مجھے ایک آنہ دیا اور میں نے کاغذ خرید کر درخواست لکھی جس پر مجھے فوراً روپے مل گئے۔ آپ لاہور جائیں تو آفتاب احمد صاحب کے پاس جا کر میرا سلام ضرور عرض کریں۔
اور ہاں آپ بھی لاہور جا کر اب یہ کہیں گے کہ یگانہ سے ملے تھے، آپ یگانہ سے کہاں ملے ہیں؟ یگانہ کو گوشت پوست کے ڈھانچے میں دیکھنا غلط ہے، یگانہ کو اس کے شعروں میں دیکھنا ہوگا، یگانہ کو اس ٹوٹی ہوئی چارپائی پر دیکھنے کی بجائے اس مسند پر دیکھنا ہوگا جس پر وہ آج سے پچاس برس بعد بٹھایا جائے گا۔"
یگانہ کی مظلومیت یہیں ختم نہیں ہوتی، ان کو موت کے بعد بھی نہ بخشا گیا، ان کا جنازہ پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ فقط کچھ لوگ ہی انکے جنازے میں شامل تھے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی
اور یہیں سے یگانہ اور لکھنؤ کے شعرا کے درمیان ایک ایسی چشمک شروع ہو گئی جو یگانہ کی موت پر بھی ختم نہ ہوئی، مزید برآں یہ کہ اس وقت لکھنؤ کے شعرا غالب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور اپنے ہر اس شاعر کو مسندِ علم و فضل پر بٹھا دیتے تھے جو غالب کے رنگ میں کہتا تھا چاہے جتنا بھی برا کہتا تھا سو یگانہ کی اپنی محرومی کے سبب غالب سے بھی دشمنی پیدا ہو گئی اور آخری عمر تک غالب کے کلام میں نقص تلاش کرتے رہے اور انکا اظہار کرتے رہے۔
لیکن ہمیشہ کی طرح، ادبی چشمکوں میں صرف دھول ہی نہیں اڑتی اور کاغذ سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے منہ پر صرف سیاہی ہی نہیں ملی جاتی بلکہ ان چشمکوں سے کچھ ایسے نوادر کا بھی ظہور ہوتا ہے جو شاید عام حالات میں کبھی مسندِ شہود پر نہ آتے اور انہی میں یگانہ کی علمِ عروض پر لازوال اور "اتھارٹی" کا درجہ حاصل کرنے والی کتاب "چراغِ سخن" ہے جو انہیں معرکوں کی یادگار ہے جس کے سرورق پر مرحوم نے لکھا تھا۔
مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شُکر کے سجدے
دعائے خیر تو کیا اہلِ لکھنؤ کرتے
کاغذوں پر سیاہی خیر ملی ہی جاتی ہے، لیکن اس مظلوم الشعرا کے ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ کسی اہلِ قلم کے ساتھ نہ ہوا ہوگا۔ انہوں نے ایک اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں ایک فرقے کے خلاف کچھ تند و تیز و متنازعہ جملے تھے سو قلم کی پاداش میں دھر لیے گئے، جس محلے میں رہتے تھے وہاں اسی فرقے کی اکثریت تھی، اور چونکہ تھے بھی بے یار و مددگار، سو اہلیانِ محلہ نے پکڑ لیا، منہ پر سیاہی ملی، جوتوں کا ہار پہنایا، گدھے پر سوار کیا اور شہر میں جلوس نکال دیا۔
مدیر نقوش، محمد طفیل نے یگانہ سے ان کے آخری دنوں میں ملاقات کی تھی، اس ملاقات کی روداد انہوں نے اپنی کتاب "جناب" میں یگانہ پر خاکہ لکھتے ہوئی لکھی ہے، مذکورہ واقعہ کا ذکر کچھ یوں آیا ہے۔
"بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگے اور پھر مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے میرا جلوس دیکھا تھا؟"
"کیسا جلوس؟"
"اجی وہی جس میں مجھے جوتوں کے ہار پہنائے گئے تھے، میرا منہ بھی کالا کیا گیا تھا اور گدھے پر سوار کر کے مجھے شہر بھر میں گھمایا گیا تھا۔"
"اللہ کا شکر ہے کہ میں نے وہ جلوس نہیں دیکھا۔"
"واہ صاحب وا، آپ نے تو ایسے اللہ کا شکر ادا کیا ہے جیسے کوئی گھٹیا بات ہو گئی ہو، سوچو تو سہی کہ آخر کروڑوں آدمیوں میں سے صرف مجھی کو اپنی شاعری کی وجہ سے اس اعزاز کا مستحق کیوں سمجھا گیا؟ جب کہ یہ درجہ غالب تک کو نصیب نہ ہوا، میر تک کو نصیب نہ ہوا۔"
میں چاہتا تھا کہ میرزا صاحب اس تکلیف دہ قصہ کو یہیں ختم کر دیں مگر وہ مزے لے لے کر بیان کر رہے تھے جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو اور اسکے بدلے یہ گراں قدر انعام پایا ہو۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد فوراً دو غزلہ کے مُوڈ میں آ گئے۔ "جی ہاں جناب، آپ کے لاہور میں بھی گرفتار ہوئے تھے۔"
"وہ قصہ کیا تھا۔"
"جناب قصہ یہ تھا کہ میرزا یگانہ چنگیزی یہاں سے کراچی کا پاسپورٹ لے کے چلے تھے اور لاہور پہنچ کر اپنے ایک دوست کے ساتھ پنجاب سے نکل کر سرحد پہنچ گئے تھے، واپسی پر گرفتار کر لیا گیا۔ (ایک دم جمع سے واحد کے صیغے پر آ گئے)۔ اکیس روز جیل میں بند رہا، ہتھکڑی لگا کر عدالت میں لایا گیا، پہلی پیشی پر مجسٹریٹ صاحب نے نام پوچھا۔ میں نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بڑی شان سے بتایا۔ "یگانہ"۔
ساتھ کھڑے ہوئے ایک وکیل صاحب نے بڑی حیرت سے مجھ سے سوال کیا۔ "یگانہ چنگیزی؟"۔
"جی ہاں جناب۔"
یہ سنتے ہی مجسٹریٹ صاحب نے (غالباً آفتاب احمد نام بتایا تھا) میری رہائی کا حکم صادر فرما دیا۔
جب رہا ہو گیا تو جاتا کدھر؟ اور پریشان ہو گیا، مجسٹریٹ صاحب نے میری پریشانی کو پڑھ لیا، میں نے ان سے عرض کیا، میرے تمام روپے تو تھانے والوں نے جمع کر لیے تھے، اب مجھے دلوا دیجیئے۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب نے کہا، درخواست لکھ دیجیئے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی، کاغذ کہاں سے لاتا اور کیسے درخواست لکھتا، اس پر بہ کمالِ شفقت مجسٹریٹ صاحب نے مجھے ایک آنہ دیا اور میں نے کاغذ خرید کر درخواست لکھی جس پر مجھے فوراً روپے مل گئے۔ آپ لاہور جائیں تو آفتاب احمد صاحب کے پاس جا کر میرا سلام ضرور عرض کریں۔
اور ہاں آپ بھی لاہور جا کر اب یہ کہیں گے کہ یگانہ سے ملے تھے، آپ یگانہ سے کہاں ملے ہیں؟ یگانہ کو گوشت پوست کے ڈھانچے میں دیکھنا غلط ہے، یگانہ کو اس کے شعروں میں دیکھنا ہوگا، یگانہ کو اس ٹوٹی ہوئی چارپائی پر دیکھنے کی بجائے اس مسند پر دیکھنا ہوگا جس پر وہ آج سے پچاس برس بعد بٹھایا جائے گا۔"
یگانہ کی مظلومیت یہیں ختم نہیں ہوتی، ان کو موت کے بعد بھی نہ بخشا گیا، ان کا جنازہ پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ فقط کچھ لوگ ہی انکے جنازے میں شامل تھے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
شہرہ ہے یگانہ تری بیگانہ روی کا
واللہ یہ بیگانہ روی یاد رہے گی