آصف شفیع
محفلین
میری کتاب" ذرا جو تم ٹھر جاتے" سے ایک غزل:
اور اب یہ بات دل بھی مانتا ہے
وہ میری دسترس سے ماورا ہے
چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں
ہوا کا زور بڑھتا جا رہا ہے
مرے دل میں سمندر سا تلاطم
مری آنکھوں سے چشمہ پھوٹتا ہے
صدا کوئی سنائی دے تو کیسے
مرے گھر میں خلا اندر خلا ہے
زمانہ ہٹ چکا پیچھے کبھی کا
اور اب تو صرف اپنا سامنا ہے
میں چپ ہوں، اب اسے کیسے بتاؤں
کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے
اور اب یہ بات دل بھی مانتا ہے
وہ میری دسترس سے ماورا ہے
چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں
ہوا کا زور بڑھتا جا رہا ہے
مرے دل میں سمندر سا تلاطم
مری آنکھوں سے چشمہ پھوٹتا ہے
صدا کوئی سنائی دے تو کیسے
مرے گھر میں خلا اندر خلا ہے
زمانہ ہٹ چکا پیچھے کبھی کا
اور اب تو صرف اپنا سامنا ہے
میں چپ ہوں، اب اسے کیسے بتاؤں
کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے