سلیمان جاذب
محفلین
برسوں کا شناسا ، بھی شناسا نہیںلگتا
کچھ بھی پَسِ ہجراں مجھے اچھا نہیں لگتا
کچھ بھی پَسِ ہجراں مجھے اچھا نہیں لگتا
کر لوں میں یقیں کیسے کہ بدلہ نہیں کچھ بھی
لہجہ ہی اگر آپ کا لہجہ نہیں لگتا
لہجہ ہی اگر آپ کا لہجہ نہیں لگتا
اک تیرے نہ ہونے سے ہوا حال یہ دل کا
بستی میں کوئی شخص بھی اپنا نہیں لگتا
بستی میں کوئی شخص بھی اپنا نہیں لگتا
کاغذ سے وہ مانوس سی خوشبو نہیں آئی
یہ خط تو تیرے ہاتھ کا لکھا نہیں لگتا
یہ خط تو تیرے ہاتھ کا لکھا نہیں لگتا
آنکھوں میں میری اس لئے جاذب یہ نمی ہے
سوکھا ہوا دریا مجھے اچھا نہیں لگتا
سوکھا ہوا دریا مجھے اچھا نہیں لگتا