سید عاطف علی
لائبریرین
میری ایک بہت پرانی غزل ۔جیسا کہ بحرو قوافی سے ظاہر ہے۔یہ خدائے سخن کے ایک مصرع کی طرحی غزل ہے۔یہاں محفل میں آمد کا سبب یہی غزل بنی تھی۔
غزل
شعلہ جب جسم و جاں سے اٹھتا ہے
ضبط غم خوردگاں سے اٹھتاہے
شور یہ گلستاں سے اٹھتا ہے
یا یہ قلبِ تپاں سے اٹھتا ہے
ایک موہوم سا یقین تھا وہ
جیسے میرے گماں سے اٹھتا ہے
آہِ مظلوم کا اثر دیکھو
پردہ ہر کن فکاں سے اٹھتا ہے
بار ارض و سماء تھا سہل پہ "دل "
کب یہ اس ناتواں سے اٹھتا ہے
چھوڑ اے دل خیالِ خام ترا
ذکر اس داستاں سے اٹھتا ہے
توڑ ڈالو فصیل ِقصر کہ آج
فر ق سود و زیاں سے اٹھتا ہے
چشم زاہد بھی کر نہ پائی ضبط
تو جو بزمِ بُتاں سے اٹھتا ہے
پھر سے اُبھرا سفینۂ منصور
شورِ حق بادباں سے اٹھتا ہے
ہو چکے تھے چراغ سارے گل
’’ یہ د ھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘
سید عاطفؔ علی
غزل
شعلہ جب جسم و جاں سے اٹھتا ہے
ضبط غم خوردگاں سے اٹھتاہے
شور یہ گلستاں سے اٹھتا ہے
یا یہ قلبِ تپاں سے اٹھتا ہے
ایک موہوم سا یقین تھا وہ
جیسے میرے گماں سے اٹھتا ہے
آہِ مظلوم کا اثر دیکھو
پردہ ہر کن فکاں سے اٹھتا ہے
بار ارض و سماء تھا سہل پہ "دل "
کب یہ اس ناتواں سے اٹھتا ہے
چھوڑ اے دل خیالِ خام ترا
ذکر اس داستاں سے اٹھتا ہے
توڑ ڈالو فصیل ِقصر کہ آج
فر ق سود و زیاں سے اٹھتا ہے
چشم زاہد بھی کر نہ پائی ضبط
تو جو بزمِ بُتاں سے اٹھتا ہے
پھر سے اُبھرا سفینۂ منصور
شورِ حق بادباں سے اٹھتا ہے
ہو چکے تھے چراغ سارے گل
’’ یہ د ھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے‘‘
سید عاطفؔ علی