محمد خرم یاسین
محفلین
این میری شمل کی کتاب My Soul is a Woman اس کے عالمی ادب اور مذاہب کے وسیع مطالعے کی شاہد ہے۔ اس کتاب میں اس نے نہ صرف اسلام میں خواتین کے کردار کے حوالے سے اہم سوالات کے جواب تلاش کرنے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ حقوقِ نسواں کے نام پر ہونے والے اسلام مخالف پراپیگنڈہ کی حقیقت بھی بیان کی ہے۔ کتاب کا اصل مو ضوع تصوف اور اس میں مسلمان خواتین کا کردار ہے۔
میں نے ایک اسائنمنٹ کے سلسلے میں اس کتاب کا ترجمہ کیا تھا اور اس کے حوالے سے کچھ تحقیقی مضامین بھی تحریر کیے تھے۔ ذیل میں ترجمے میں سے دیباچے کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے جو پوری کتاب کے مقصدِ تحریر کو حدف بناتا ہے۔ دیباچہ کچھ یوں ہے:
اسلام میں عورت کے کردار پر تحریر کی جانے والی کتب کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور ان میں اس کی زندگی کے مختلف مثبت اور منفی پہلو ؤں کو سامنے لایا جا رہا ہے۔عرب اور ترک خواتین کے جنسی و زیادہ اولاد کے مسائل کو حدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے ۔بالخصوص حقوقِ نسواں والے اس حوالے سے زیادہ فعال دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان میں سے بہت سے لوگ نا صرف اسلام کے تاریخی حقائق سے ناواقف ہیں بلکہ اسلامی زبان و ادب سے جہالت کی حد تک لا علم ہیں۔ اس حوالے سے تحقیق کے لیے Wiebke Walter کی کتاب Women in Islamایک مضبوط بنیاد مہیا کرتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیںSachikoکی کتاب The Tao of Islamکو نظر انداز نہیں کرنا چا ہیے ۔ اس میں انہوں نے بڑے عالمانہ انداز میں اسلام میں تصوف اور شریعت کے حوالے سے جنسیات کا مطالعہ کیا ہے۔
اس کتاب کا مقصد فوراً سے حقوقِ نسواں والے گرو ہ کا ساتھ دینا ہر گز نہیں بلکہ بہتر اور نئے انداز میں تصوف (Mysticism) میں عورت کے کردار کا مطالعہ ہے۔ 1990ء کے آغاز میں پروفیسر Edrich Heiler نے جو کہ تاریخِ مذاہب کے ماہرین میں سے ہیں، دنیا کے مختلف مذاہب میں عورت کے مقام کے بارے میں سیمینار منعقد کیے۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملااور اس وقت بہت سی نئی بصیرت افروز باتیں معلوم ہو ئیں ۔ اسی کے زیرِ اثر1950ء میں میں نے تصوف میں عورت کے کر دار پر بہت سے تحقیقی مقالہ جات شائع کیے۔ بنیادی طور پر اس مو ضو ع پر میری بے انتہا دلچسپی کا با عث بننے والیMargret Smithکی کتاب Rabia(حضرتِ رابعہ بصری ؒ )ہے جو نا صرف اپنی خصوصیات کی وجہ سے اہم ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس سے مجھے اسلام کی عظیم رہنما صوفیہ خواتین سے بھی شناسائی ہوئی۔ میں اس کتاب کوشکریہ کے ساتھ ساتھ ترکی کی تصوف لکھنے والی سمیہا ایوردی کے ساتھ منسوب بھی کرتی ہوں کہ انہوں نے بہت سی بصیرت انگیز باتوں سے روشناس کرایا۔
جب میں نے اس پراجیکٹ پر کام کرنا شرو ع کیا تو معلوم ہوا کہ اسلام اور عورت کے حوالے سے بہت سا کام کرنے والا رہتا ہے اور اس میں بہت گنجائش موجود ہے۔ مثلاً اسلام کی عالم خواتین، احادیث اورسنت کو آگے پہنچانے والی خواتین(حضرتِ عائشہؓ ان میں اہم مقام رکھتی ہیں) وغیرہ۔ چونکہ نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی خواتین علمِ الہیات کے بارے میں ان سے دریافت کرتی تھیں ، اس لیے اس میں ہر گز حیرانگی کی بات نہیں کہ ان کے بعد مردوں کی طرح خواتین میں بھی اس حوالے سے اہم نام سامنے آئے۔ Ruth Roded نے اپنی کتاب Islamic Biographical Collectionمیں ثابت کیا ہے اسلام میں مردوں کی نسبت خواتین نے نویں صدی سے اب تک سوانح عمری پر زیادہ کام کیا ہے ۔
عورتوں کے حوالے سے ادبی کتب کا مطالعہ بھی علم کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ ایک ایسی ہی کتاب ’’تہذیب النسواں و تربیت الانسان‘‘انیسویں صدی میں بھوپال کی شہزادی شاہجہاں بیگم نے لکھی۔اسی طرح کی ایک کتاب کو ہمارے دور میں’’ بہشتی زیور‘‘کے نام کے تحت رواج دیا گیا (مصنف:اشرف علی تھانوی۔نام کی تدوین کی گئی )۔اس کتاب کو بہت عرصے تک جہیز میں دینے کا رواج رہا اور اس میں عورت کی اخلاقی و عملی تربیت کے پہلوؤں پر بہت زور دیا گیا تھا ۔ اس کتاب کو بڑی مہارت اور معلومات کے ساتھ Barbra D. Metcalf نے تد وین کیا اور بتایا کہ کس طرح ایک اچھی گھریلو عورت بنا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ عورت کی تربیت کو انیسویں صدی کے اختتام تک ناولوں کا مو ضوع بھی بنایا گیا ۔ ان میں سے ایک ناول ڈپٹی نذیر احمد کا ’’مراۃ العروس ‘‘ہے جس میں پڑھی لکھی اور ملنسار ہیروئن کا کردار پیش کیا گیا ہے اور اس کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اسی روایت کو سندھی ادب نے بھی آگے بڑھایا اور مرزا قلیچ بیگ نے ’’زینت‘‘تحریر کیا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح خواتین جوتاریخ، ریاضی اور عربی جانتی ہیں ،وہ ہرمشکل صورتِ حال کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
مسلمان عورت کے در پیش مسائل کے مکمل ادراک کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ادبی سر گرمیوں کا مطالعہ اور اس پر غور کیا جائے۔ مسلمان خواتین کا ادب میں بڑا اور اہم حصہ رہا ہے ۔ ان کی شاعری کی فہرست کو جمع کرنا یقیناًکوئی زیادہ وقت طلب کام نہیں ہے۔ قدیم عرب کا ذکرکریں تو عورتیں اپنے بھائی کی وفات پر مر ثیے لکھتی اور پڑھتی تھیں۔ یہ صنف دورِ حا ضر کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ پھر یہ فہرست محبت کے نغموں کی جانب بڑھے گی جس میں فارسی و ترک خواتین کا نام بطورِ خاص آئے گا۔ اس ضمن میں مغل شہزادی زیب النساء کی شاعری ایک عمدہ مثال ہے۔
http://www.jahan-e-urdu.com/my-soul-is-a-woman-writer-annamer-schimmel/#more-8020
میں نے ایک اسائنمنٹ کے سلسلے میں اس کتاب کا ترجمہ کیا تھا اور اس کے حوالے سے کچھ تحقیقی مضامین بھی تحریر کیے تھے۔ ذیل میں ترجمے میں سے دیباچے کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے جو پوری کتاب کے مقصدِ تحریر کو حدف بناتا ہے۔ دیباچہ کچھ یوں ہے:
اسلام میں عورت کے کردار پر تحریر کی جانے والی کتب کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے اور ان میں اس کی زندگی کے مختلف مثبت اور منفی پہلو ؤں کو سامنے لایا جا رہا ہے۔عرب اور ترک خواتین کے جنسی و زیادہ اولاد کے مسائل کو حدفِ تنقید بنایا جا رہا ہے ۔بالخصوص حقوقِ نسواں والے اس حوالے سے زیادہ فعال دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان میں سے بہت سے لوگ نا صرف اسلام کے تاریخی حقائق سے ناواقف ہیں بلکہ اسلامی زبان و ادب سے جہالت کی حد تک لا علم ہیں۔ اس حوالے سے تحقیق کے لیے Wiebke Walter کی کتاب Women in Islamایک مضبوط بنیاد مہیا کرتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیںSachikoکی کتاب The Tao of Islamکو نظر انداز نہیں کرنا چا ہیے ۔ اس میں انہوں نے بڑے عالمانہ انداز میں اسلام میں تصوف اور شریعت کے حوالے سے جنسیات کا مطالعہ کیا ہے۔
اس کتاب کا مقصد فوراً سے حقوقِ نسواں والے گرو ہ کا ساتھ دینا ہر گز نہیں بلکہ بہتر اور نئے انداز میں تصوف (Mysticism) میں عورت کے کردار کا مطالعہ ہے۔ 1990ء کے آغاز میں پروفیسر Edrich Heiler نے جو کہ تاریخِ مذاہب کے ماہرین میں سے ہیں، دنیا کے مختلف مذاہب میں عورت کے مقام کے بارے میں سیمینار منعقد کیے۔ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملااور اس وقت بہت سی نئی بصیرت افروز باتیں معلوم ہو ئیں ۔ اسی کے زیرِ اثر1950ء میں میں نے تصوف میں عورت کے کر دار پر بہت سے تحقیقی مقالہ جات شائع کیے۔ بنیادی طور پر اس مو ضو ع پر میری بے انتہا دلچسپی کا با عث بننے والیMargret Smithکی کتاب Rabia(حضرتِ رابعہ بصری ؒ )ہے جو نا صرف اپنی خصوصیات کی وجہ سے اہم ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس سے مجھے اسلام کی عظیم رہنما صوفیہ خواتین سے بھی شناسائی ہوئی۔ میں اس کتاب کوشکریہ کے ساتھ ساتھ ترکی کی تصوف لکھنے والی سمیہا ایوردی کے ساتھ منسوب بھی کرتی ہوں کہ انہوں نے بہت سی بصیرت انگیز باتوں سے روشناس کرایا۔
جب میں نے اس پراجیکٹ پر کام کرنا شرو ع کیا تو معلوم ہوا کہ اسلام اور عورت کے حوالے سے بہت سا کام کرنے والا رہتا ہے اور اس میں بہت گنجائش موجود ہے۔ مثلاً اسلام کی عالم خواتین، احادیث اورسنت کو آگے پہنچانے والی خواتین(حضرتِ عائشہؓ ان میں اہم مقام رکھتی ہیں) وغیرہ۔ چونکہ نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی خواتین علمِ الہیات کے بارے میں ان سے دریافت کرتی تھیں ، اس لیے اس میں ہر گز حیرانگی کی بات نہیں کہ ان کے بعد مردوں کی طرح خواتین میں بھی اس حوالے سے اہم نام سامنے آئے۔ Ruth Roded نے اپنی کتاب Islamic Biographical Collectionمیں ثابت کیا ہے اسلام میں مردوں کی نسبت خواتین نے نویں صدی سے اب تک سوانح عمری پر زیادہ کام کیا ہے ۔
عورتوں کے حوالے سے ادبی کتب کا مطالعہ بھی علم کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ ایک ایسی ہی کتاب ’’تہذیب النسواں و تربیت الانسان‘‘انیسویں صدی میں بھوپال کی شہزادی شاہجہاں بیگم نے لکھی۔اسی طرح کی ایک کتاب کو ہمارے دور میں’’ بہشتی زیور‘‘کے نام کے تحت رواج دیا گیا (مصنف:اشرف علی تھانوی۔نام کی تدوین کی گئی )۔اس کتاب کو بہت عرصے تک جہیز میں دینے کا رواج رہا اور اس میں عورت کی اخلاقی و عملی تربیت کے پہلوؤں پر بہت زور دیا گیا تھا ۔ اس کتاب کو بڑی مہارت اور معلومات کے ساتھ Barbra D. Metcalf نے تد وین کیا اور بتایا کہ کس طرح ایک اچھی گھریلو عورت بنا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ عورت کی تربیت کو انیسویں صدی کے اختتام تک ناولوں کا مو ضوع بھی بنایا گیا ۔ ان میں سے ایک ناول ڈپٹی نذیر احمد کا ’’مراۃ العروس ‘‘ہے جس میں پڑھی لکھی اور ملنسار ہیروئن کا کردار پیش کیا گیا ہے اور اس کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اسی روایت کو سندھی ادب نے بھی آگے بڑھایا اور مرزا قلیچ بیگ نے ’’زینت‘‘تحریر کیا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح خواتین جوتاریخ، ریاضی اور عربی جانتی ہیں ،وہ ہرمشکل صورتِ حال کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
مسلمان عورت کے در پیش مسائل کے مکمل ادراک کے لیے ضروری ہے کہ اس کی ادبی سر گرمیوں کا مطالعہ اور اس پر غور کیا جائے۔ مسلمان خواتین کا ادب میں بڑا اور اہم حصہ رہا ہے ۔ ان کی شاعری کی فہرست کو جمع کرنا یقیناًکوئی زیادہ وقت طلب کام نہیں ہے۔ قدیم عرب کا ذکرکریں تو عورتیں اپنے بھائی کی وفات پر مر ثیے لکھتی اور پڑھتی تھیں۔ یہ صنف دورِ حا ضر کی شاعری میں بھی موجود ہے۔ پھر یہ فہرست محبت کے نغموں کی جانب بڑھے گی جس میں فارسی و ترک خواتین کا نام بطورِ خاص آئے گا۔ اس ضمن میں مغل شہزادی زیب النساء کی شاعری ایک عمدہ مثال ہے۔
جب کہ باقی خواتین کے نمونہ کلام کو دیکھنا ہو توفخری کی جواہر العجائب مددگار ہوگی۔ مختصر یہ کہ ایسی کتابیات کی فہرست سے اندازہ ہوگا کہ مسلم عورت نے ادب میں کس خوبی سے اپنا کردار نبھایا۔
بالکل ایسا ہی رسم الخط کے حوالے سے مسلمان خواتین کے کردار کے بارے میں کہا جا سکتاہے۔ مسلم خواتین نے قرآنِ مجید کی کتابت اور دیگر ٹیکسٹ کو مرتب کرنے میں بطور کاتب اہم کر دار ادا کیا۔ بہت سے جید علما ء نے پروفیسر اور اساتذہ خواتین سے علم حا صل کیا۔
سیاست میں مسلمان خواتین کا کردار بھلایا نہیں جا سکتا۔ خلفاء کی ماؤں اور بہنوں نے مشکلات میں اپنا حصہ ڈالا۔ 9ویں صدی کے دوران اسی حوالے سے Louis Massignon کی کتاب اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ در حقیقت مسلمان خواتین نے سیاست میں رہنماؤں کا کردار ادا کیا اور ابنِ بطوطہ نے مالدیپ کے جزائر میں مسلمان ملکہ کو دیکھا تو کہا کہ شمالی افریقہ میں وہ زیادہ بہتر انداز میں آزادی سے حکومت کر رہی ہیں۔ ترک سلطنت میں عورت نے بلا روک ٹوک حکومت کی اور یہی وجہ ہے کہ ترک پیدائشی التتمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ نے دہلی میں مسلمان حکومت کی سربراہی کی۔اس کے بالکل قریبی سالوں میں شجر الدر نامی غلام خاتون نے مصر میں حکومت کی۔ اس کے بعد نا صر ف مغل سلطنت (برصغیر) میں بلکہ دکن و دیگر سلطنتوں میں بھی مسلمان خواتین نے حکومتیں کیں۔انہی میں سے ایک نمایاں خاتون چاند بی بی بھی تھیں جن کی اپنے آفیسر کے ہاتھوں 1600ء میں شہادت ہوئی۔ دہلی، آگرہ، گولکنڈہ اور بیجا پور کی شہزادیاں بھی تعمیرات، خطاطی اور ادب کی سر پرستی کرتی رہیں۔ملکہ ممتاز محل کا مقبرہ جو ان کے شوہر بادشاہ،شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا، وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 1947ء سے قبل جنگِ آزادی میں عورت کا کردار ہم کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے۔
تاریخ میں خواتین کے حصے، شمولیت کے مطالعے کے حوالے سے ان منی ایچر پینٹنگز کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو ایران کی داستانوں سے انڈیا میں مغلوں کے محلوں تک کی نمائندگی کرتی ہیں۔ان میں موجودمسلمان خواتین کے چہروں اور لباس کے جائزے کے حوالے سے بھی اسلامی تعلیمات کو پڑھا یا سمجھاجا سکتا ہے۔
خواتین اور اسلام کے حوالے سے ایک اور معلوماتی مطالعہ یہ ہوگا کہ خواتین کے لیے(خوبصورت) خطابات کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کس خط میں کس خاتون کو کس طرح مخا طب کیا جاتا تھا اور عہدِ سلطنت میں عہدہ نشین خواتین کے کیا القابات تھے۔ اردو، عربی، فارسی اور ترک زبان میں ایسی بہت سی تحاریر (کام)موجود ہیں جن سے کم و بیش مشہور خواتین کی سوانح کا مطالعہ کیا جا سکتاہے۔
خواتین کے حوالے سے اتنے سارے مثبت پہلو ؤں کو دیکھتے ہوئے ہم منفی پہلو ؤں سے جان نہیں چھڑا سکتے جب خواتین کو حقیر سمجھا گیا۔قرآنِ مجید کی آیت جس میں مردوں کو عورتوں پر فوقیت دی گئی ہے اس کا غلط استعمال کئی طرح سے عورتوں کے لیے مشکلات کا سبب بنا ہے۔وہ خواتین جو ان پڑھ تھیں انہیں ان کے قانونی اور شرعی حق سے دور رکھا گیا اور طلاق و دیگر مسائل کا بھی انہیں سامنا رہاہے۔ اس حوالے سے کئی سوالات آج تک ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔
مشہورعوامی ادب (Folk Literature)میں عورت کو شاطر کے روپ میں دکھایا جاتاہے۔ ایسا میں یہ کہنا کہ اس سے مسلمانوں کا عورت کی جانب رویہ ظاہر ہوتا ہے غلط ہے کیوں کہ ایسا مغربی روایتی کہانیوں میں بھی ہوتا ہے۔ مذہبی لوگوں کے لیے یہ سوال کہ کیا عورت کو جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا اور کیا عورت جنت میں داخل بھی ہوسکے گی، ہمیشہ مشکل سوال ثابت ہوتا ہے کیوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جہنم کا بڑا حصہ خواتین سے بھرا ہوگا اور یہ بھی کہ جب ایک بوڑھی عورت نے پوچھا کہ کیا میں جنت میں جا ؤں گی تو آپ ﷺنے فرمایا نہیں اور پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ وہ جب جنت میں جائے گی تو خوبصورت دوشیزہ (کنواری)کے روپ میں ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان معاشرے میں عورت کا بہترین روپ شادی شدہ عورت اور ماں کا ہے۔ اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد بھی اکثر نقل کیا جاتا ہے کہاگر انسان کو انسان کے سامنے سجدے کی اجازت ہوتی تو میں بیوی کو شوہر کے سجدے کا حکم دیتا۔اس سے یقینا یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے حقوق(مرتبہ) برابر نہیں۔
اس سب کے با وجود ایک ایسا دائرہِ زندگی بھی یہ جس میں عورت مکمل حقوق سے مستفید ہوتی ہے، اور وہ ہے تصوف۔ جس طرح متقی اور پرہیز گار بندے کوخدا کا بندہ کہا جاتا ہے اسی طرح عورت کو بھی اسلام کی تاریخ اور ابتداء ہی سے تقویٰ کی وجہ سے فضیلت دی جاتی۔ہے۔اب اس حوالے سے تاریخ کے مطالعے میں تبدیلی کی ضرور ت ہے تا کہ حقائق سامنے آ سکیں۔
میں اس کتاب کی تکمیل کے سلسلے میں حوصلہ افزائی اور مشورے کے لیے اپنے کولیگ پروفیسر علی ایس آسانی کی شکر گزار ہوں جن کی عورت کے بارے میں اسماعیلیوں کے ادب(Devotional Literature)کے مطالعے نے تحقیق کی نئی راہ متعین کی۔بالکل ایسا ہی رسم الخط کے حوالے سے مسلمان خواتین کے کردار کے بارے میں کہا جا سکتاہے۔ مسلم خواتین نے قرآنِ مجید کی کتابت اور دیگر ٹیکسٹ کو مرتب کرنے میں بطور کاتب اہم کر دار ادا کیا۔ بہت سے جید علما ء نے پروفیسر اور اساتذہ خواتین سے علم حا صل کیا۔
سیاست میں مسلمان خواتین کا کردار بھلایا نہیں جا سکتا۔ خلفاء کی ماؤں اور بہنوں نے مشکلات میں اپنا حصہ ڈالا۔ 9ویں صدی کے دوران اسی حوالے سے Louis Massignon کی کتاب اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ در حقیقت مسلمان خواتین نے سیاست میں رہنماؤں کا کردار ادا کیا اور ابنِ بطوطہ نے مالدیپ کے جزائر میں مسلمان ملکہ کو دیکھا تو کہا کہ شمالی افریقہ میں وہ زیادہ بہتر انداز میں آزادی سے حکومت کر رہی ہیں۔ ترک سلطنت میں عورت نے بلا روک ٹوک حکومت کی اور یہی وجہ ہے کہ ترک پیدائشی التتمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ نے دہلی میں مسلمان حکومت کی سربراہی کی۔اس کے بالکل قریبی سالوں میں شجر الدر نامی غلام خاتون نے مصر میں حکومت کی۔ اس کے بعد نا صر ف مغل سلطنت (برصغیر) میں بلکہ دکن و دیگر سلطنتوں میں بھی مسلمان خواتین نے حکومتیں کیں۔انہی میں سے ایک نمایاں خاتون چاند بی بی بھی تھیں جن کی اپنے آفیسر کے ہاتھوں 1600ء میں شہادت ہوئی۔ دہلی، آگرہ، گولکنڈہ اور بیجا پور کی شہزادیاں بھی تعمیرات، خطاطی اور ادب کی سر پرستی کرتی رہیں۔ملکہ ممتاز محل کا مقبرہ جو ان کے شوہر بادشاہ،شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا، وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 1947ء سے قبل جنگِ آزادی میں عورت کا کردار ہم کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے۔
تاریخ میں خواتین کے حصے، شمولیت کے مطالعے کے حوالے سے ان منی ایچر پینٹنگز کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو ایران کی داستانوں سے انڈیا میں مغلوں کے محلوں تک کی نمائندگی کرتی ہیں۔ان میں موجودمسلمان خواتین کے چہروں اور لباس کے جائزے کے حوالے سے بھی اسلامی تعلیمات کو پڑھا یا سمجھاجا سکتا ہے۔
خواتین اور اسلام کے حوالے سے ایک اور معلوماتی مطالعہ یہ ہوگا کہ خواتین کے لیے(خوبصورت) خطابات کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ کس خط میں کس خاتون کو کس طرح مخا طب کیا جاتا تھا اور عہدِ سلطنت میں عہدہ نشین خواتین کے کیا القابات تھے۔ اردو، عربی، فارسی اور ترک زبان میں ایسی بہت سی تحاریر (کام)موجود ہیں جن سے کم و بیش مشہور خواتین کی سوانح کا مطالعہ کیا جا سکتاہے۔
خواتین کے حوالے سے اتنے سارے مثبت پہلو ؤں کو دیکھتے ہوئے ہم منفی پہلو ؤں سے جان نہیں چھڑا سکتے جب خواتین کو حقیر سمجھا گیا۔قرآنِ مجید کی آیت جس میں مردوں کو عورتوں پر فوقیت دی گئی ہے اس کا غلط استعمال کئی طرح سے عورتوں کے لیے مشکلات کا سبب بنا ہے۔وہ خواتین جو ان پڑھ تھیں انہیں ان کے قانونی اور شرعی حق سے دور رکھا گیا اور طلاق و دیگر مسائل کا بھی انہیں سامنا رہاہے۔ اس حوالے سے کئی سوالات آج تک ہمارا منہ چڑا رہے ہیں۔
مشہورعوامی ادب (Folk Literature)میں عورت کو شاطر کے روپ میں دکھایا جاتاہے۔ ایسا میں یہ کہنا کہ اس سے مسلمانوں کا عورت کی جانب رویہ ظاہر ہوتا ہے غلط ہے کیوں کہ ایسا مغربی روایتی کہانیوں میں بھی ہوتا ہے۔ مذہبی لوگوں کے لیے یہ سوال کہ کیا عورت کو جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا اور کیا عورت جنت میں داخل بھی ہوسکے گی، ہمیشہ مشکل سوال ثابت ہوتا ہے کیوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جہنم کا بڑا حصہ خواتین سے بھرا ہوگا اور یہ بھی کہ جب ایک بوڑھی عورت نے پوچھا کہ کیا میں جنت میں جا ؤں گی تو آپ ﷺنے فرمایا نہیں اور پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ وہ جب جنت میں جائے گی تو خوبصورت دوشیزہ (کنواری)کے روپ میں ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان معاشرے میں عورت کا بہترین روپ شادی شدہ عورت اور ماں کا ہے۔ اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد بھی اکثر نقل کیا جاتا ہے کہاگر انسان کو انسان کے سامنے سجدے کی اجازت ہوتی تو میں بیوی کو شوہر کے سجدے کا حکم دیتا۔اس سے یقینا یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے حقوق(مرتبہ) برابر نہیں۔
اس سب کے با وجود ایک ایسا دائرہِ زندگی بھی یہ جس میں عورت مکمل حقوق سے مستفید ہوتی ہے، اور وہ ہے تصوف۔ جس طرح متقی اور پرہیز گار بندے کوخدا کا بندہ کہا جاتا ہے اسی طرح عورت کو بھی اسلام کی تاریخ اور ابتداء ہی سے تقویٰ کی وجہ سے فضیلت دی جاتی۔ہے۔اب اس حوالے سے تاریخ کے مطالعے میں تبدیلی کی ضرور ت ہے تا کہ حقائق سامنے آ سکیں۔
http://www.jahan-e-urdu.com/my-soul-is-a-woman-writer-annamer-schimmel/#more-8020
آخری تدوین: