عباد اللہ
محفلین
پاؤں کے آبلے گننے والو سنو لوٹ جاؤ ابھی سے پلٹ جاؤ تم
میری سنگت میں چلنا کوئی سہل ہے ہر قدم حسنِ ذوقِ نظر چاہیے
آگہی سانحہ ہے سو ہے یعنی ہم سہہ رہے ہیں عجب ڈھنگ کا یہ ستم
بے خودی سرخوشی کا کوئی جام ہو کوئی دم ہم کو خود سے مفر چاہیے
اس کا مذکور ہے ماورائے ہنر مایۂ حرف و معنی نہیں معتبر
پھر بھی اس کارگاہِ زیاں میں ہمیں تجھ سے اعجازِ نو کی خبر چاہیے
ہم کو اپنی معیت بہت راس ہے ہمسفر کو کہاں اس کا کچھ پاس ہے
ایک سیلِ صعوبت مہیا کرو سخت مشکل پئے رہگزر چاہیے
یہ سخن کچھ برائے قوافی نہیں ایک بھی حرف اس میں اضافی نہیں
کم شناسی کا شکوہ ہے اپنی جگہ دیکھنے کو بھی تابِ نظر چاہیے
جادۂ حرفِ تازہ پہ چلتے رہے ، سنگ ریزوں کو پلکوں سے چنتے رہے
اب تو حق ہے ہمارا خدائے سخن ، کوئی الہام ہو شعرِ تر چاہیے
حسن سے ہوں میں اب اسقدر خوش گماں ، ہاں نہ روٹھیں گے مجھ سے مرے مہرباں
عشق کی سرزنش بھی ہے اچھی مگر ، اک نگہ اپنے کردار پر چاہیے
عباد اللہ
میری سنگت میں چلنا کوئی سہل ہے ہر قدم حسنِ ذوقِ نظر چاہیے
آگہی سانحہ ہے سو ہے یعنی ہم سہہ رہے ہیں عجب ڈھنگ کا یہ ستم
بے خودی سرخوشی کا کوئی جام ہو کوئی دم ہم کو خود سے مفر چاہیے
اس کا مذکور ہے ماورائے ہنر مایۂ حرف و معنی نہیں معتبر
پھر بھی اس کارگاہِ زیاں میں ہمیں تجھ سے اعجازِ نو کی خبر چاہیے
ہم کو اپنی معیت بہت راس ہے ہمسفر کو کہاں اس کا کچھ پاس ہے
ایک سیلِ صعوبت مہیا کرو سخت مشکل پئے رہگزر چاہیے
یہ سخن کچھ برائے قوافی نہیں ایک بھی حرف اس میں اضافی نہیں
کم شناسی کا شکوہ ہے اپنی جگہ دیکھنے کو بھی تابِ نظر چاہیے
جادۂ حرفِ تازہ پہ چلتے رہے ، سنگ ریزوں کو پلکوں سے چنتے رہے
اب تو حق ہے ہمارا خدائے سخن ، کوئی الہام ہو شعرِ تر چاہیے
حسن سے ہوں میں اب اسقدر خوش گماں ، ہاں نہ روٹھیں گے مجھ سے مرے مہرباں
عشق کی سرزنش بھی ہے اچھی مگر ، اک نگہ اپنے کردار پر چاہیے
عباد اللہ
آخری تدوین: