جعفر بشیر
محفلین
میری صُبح ، میری شام ، میری رات میں تُم ہو
جو بھی کروں بات مری بات میں تُم ہو
کل پُکارا کسی کو نام سے تیرے
ہر وقت مری جان خیالات تُم ہو
غم غلط ہوتا نہیں ، پی کے بھی دیکھ لیا
ساغر و مینا و خرابات میں تُم ہو
جرّاح نے ڈھونڈا بہت قطرہ خُوں نہ ملا
دل اور جان مری ذات میں تُم ہو
قریبِ مرگ ہیں جس کے غم میں جعفرؔ
اُس نے پُوچھا بھی نہیں کیسے حالات میں تُم ہو