میری غزلیں اور میری نظمیں

نور وجدان

لائبریرین
اصلاح شدہ غزلوں کو اس زمرے میں ترتیب سے پیش کرتی رہوں گی ۔ اس ضمن میں پہلی غزل پیشِ خدمت ہے


مجھے تو وقت نے تھمنے کا حوصلہ نہ دیا
مرا نصیب تھا ایسا، دیا دیا، نہ دیا
÷÷÷÷
اُڑان بھر نہ سکی میں، چلی ہوا ایسی
کوئی مدد کو جو آیا تو راستہ نہ دیا
÷÷÷÷
مثال دوں بھی تو کیا دوں کہ جب ارسطو نے
کسی بھی طور فلاطوں کو حوصلہ نہ دیا
÷÷÷÷
بھلائی کرتی رہی میں سبھی تھا لاحاصل
برا کیا ہے سبھی نے کبھی صلہ نہ دیا
÷÷÷÷
یہ کیا کہ رنج دیے بےشمار تُو نے مگر
انہیں سہار سکوں، ایسا حوصلہ نہ دیا
÷÷÷÷
ِدوانہ جان کے کھاتے رے ترس لیکن
کسی نے تھام کے مجھ کو تو آسرا نہ دیا
÷÷÷÷​

خیال اُس کا مرے دل سے نوچ دے کوئی
کہ جس نے نورؔ، محبت کا بھی صلہ نہ دیا​
 

نور وجدان

لائبریرین
تمہاری محبت سے ہوگا کنارا
ہمارا بھی مر مر کے ہوگا گزارا
میسر تمہں بھی ہو ایسی ہی راتیں
خفا تم سے ہو کوئی پیارا تمہارا


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت نکلا جائے ہے تدبیر سے
اب گلہ ہو بھی تو کیا تقدیر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خون کب تک زخم سے جاری رہے
لوگ مرہم رکھ چکے شمشیر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواب دیکھوں میں بہار شوق کا
مت مچا تو شور اب زنجیر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زخم رہتے ہیں ہرے دل کے یہاں
لطف کیا ہو شوخیِ تحریر سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب تمنائیں ہوئیں اب نورؔ ختم
مت ڈرا ہمدم مجھے تقدیر سے

 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

اسے میرے احساس ہی سے ہے نفرت
بجھا چاہتا ہے چراغِ محبت
÷÷÷÷÷

بھروسہ کسی پر بھی ہوتا نہیں ہے
قرابت سے ہونے لگی ہے جو وحشت
÷÷÷÷÷


ہر اِک بات پر دین کا ہے حوالہ۔۔!!
محبت ہے یہ دین کی، یا سیاست۔۔؟

÷÷÷÷÷÷÷÷
تعلق ہی دنیا سے میں توڑ ڈالوں!!
مِلے ہے ہر اِک بات پر جو اذیّت
÷÷÷÷÷÷÷

مداوا غمِ دل کا ہو نورؔ کیسے
کہ زخموں سے ہونے لگی ہے محبت

 

نور وجدان

لائبریرین
خواب میں کوئی اشارہ تو ملے​
بحر کو کوئی کنارا تو ملے​

دیپ الفت کےتو جلنے ہیں صدا​
رات کو کوئی ستارہ تو ملے​

پھول کھلتے ہیں، صبا چلتی ہے​
اس جنوں میں بھی خسارہ تو ملے​

زخمِ دِل اُن کو دکھائیں بھی تو کیوں!​
حشر برپا ہے ، کنارا تو ملے​

جب دوا نورؔ نہ کام آئی کوئی​
زہر دو! کوئی سہارا تو ملے​

حق کا نعرہ میں لگاتی ہوں صدا​
دل جلے! مجھ کو کنارا تو ملے​

مے کشوں کو تو اجل مست کرے​
ماہ کے رخ کا اشارہ تو ملے!​

جب ملے خاکِ نجف کا سُرمہ​
وصل ہو میرا !وہ پیارا تو ملے​

خاکِ در جان کی اے کاش بنوں​
رخ ترے سے وہ نظارہ تو ملے​
 

نور وجدان

لائبریرین
روح کی حقیقت ہے لا الہ الا اللہ
نفس کی قناعت ہے لا الہ الا اللہ
شمس کی دَرخشانی پر ،قمر کی تابش پر
یہ رقم شہادت ہے لا الہ الا اللہ
آسمان کی عظمت پر زمیں کی پستی پر
نقش یہ علامت ہے لا الہ الا اللہ
قلب کے وجودِ فانی پہ گر ہو تسخیری
کرتا یہ دلالت ہے لا الہ الا اللہ
خالقِ جہاں کا اب نور بس گیا مجھ میں
زیست کی صداقت ہے لا الہ الا اللہ
تار تار سازِ جسم کا ثنا میں ہے مصروف
تن کی بھی عبارت ہے لا الہ الا اللہ
اسمِ ''لا'' سے اثباتِ حق کی ضرب پر میرے
دل نے دی شہادت ہے لا الہ الا اللہ
روزِ حشر نفسا نفسی کے شور و غوغے میں
عفو کی سفارت ہے لا الہ الا اللہ
خون کی روانی میں نقش ''لا ''عبارت ہے
عبد کی عبادت ہے لا الہ الا اللہ​
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک دستک مجھے سنائی دی​
تیری مانوس یاد کی خوشبو
دل کی دہلیز پر ہے رنجہ کیا ؟
ایک پل مُسکرا دی تُو آیا !
دوجے پل اس گُماں پہ، میں رو دی
آزمائش نئے طریقوں سے
چوٹ دیتی ہے یہ سلیقوں سے
خامشی جھانکتی دَریچوں سے
تاکتی لہر لہر دریا کی
بن رہی خود میں کوئی طوفاں کیا
بحر ہجراں کی ہے نمو کب سے
سب بُخارات بن کے بھی بادل
آسماں پر مکیں رہے کب سے
آشیاں بھی جلے بجھے کب سے
جانے بنجر ہے یہ زمیں کب سے​
 
Top