ابھی تو ناز کر لو تم زوال آئے تو لوٹ آنا
بچھڑ کے مجھ سے ملنے کا خیال آئے تو لوٹ آنا
زوال کس چیز کو آتا ہے؟ ناز کو؟ پہلا مصرعہ بدلیں، دوسرا مصرعہ بہت جاندار ہے اس کی نسبت پہلا مصرعہ کمزور محسوس ہو رہا ہے
کچھ اس طرح کوشش کریں کہ
عروجِ حسن پر جب بھی زوال آئے تو لوٹ آنا
تمنا کی اڑانوں پر زوال آئے تو لوٹ آنا
نئے رشتوں کے حرمت پر زوال آئے تو لوٹ آنا
سدا کچھ بھی نہیں رہتا، زوال آئے تو لوٹ آنا
دوسرے مصرعے میں "بچھڑ کر" ہونا چاہیئے
لکھوں گا میں غزل کوئی ہمارے عشق پر جانا ں
غزل پڑھتے ہی دل میں گر سوال آئے تو لوٹ آنا
پہلے بھی عرض کی تھی کہ عشق، غزل، سوال کی ترتیب کم از کم مجھے مناسب نہیں لگ رہی، آپ زبردستی رکھنا چاہیں تو آپ کی مرضی، میرا مشورہ تو یہ ہے کہ
لکھوں گا داستاں جب بھی ہمارے عشق کی جاناں
اگر پڑھ کر کوئی من میں سوال آئے تو لوٹ آنا
مری ناکامِ الفت کی حقیقت جب سمجھ جاؤ
تمہارے دل میں گر کوئی ملال آئے تو لوٹ آنا
درست ہے
کبھی میری وفاؤں پہ بھی بےحد ناز تھا تم کو
تمہیں درپیش پھر گر وہ مثال آئے تو لوٹ آنا
اوزان درست ہیں لیکن روانی کی کمی ہے اور "پھر گر" ایک ساتھ اچھے نہیں لگ رہے
کبھی میری وفائوں پر تمہیں بھی ناز تھا بےحد
کبھی درپیش تم کو وہ مثال آئے تو لوٹ آنا
خزاں رُت میں کہیں ٹوٹے بکھرتے پھول دیکھو تو
تمہارے دل میں احساسِ وصال آئے تو لوٹ آنا
ٹوٹے کے ساتھ بکھرے اور بکھرتے کے ساتھ ٹوٹتے استعمال ہوتا ہے۔ پھولوں کا ٹوٹنا بکھرنا وصال کا احساس نہیں پیدا کرتے، فراق کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ کوئی ایسی بات کریں کہ جس میں دو چیزیں یوں مل رہی ہوں کہ ان کے ملنے سے اپنے وصال کی یاد آ جائے، جیسے لہروں کا کنارے سے ملنا، بھنورے کا پھولوں سے ملنا، چکور کا چاند سے ملنا وغیرہ
تمہاری یاد نے سرخی مری آنکھوں میں بھر دی ہے
تمہاری آنکھوں میں بھی رنگ لال آئے تو لوٹ آنا
سرخی لپ اسٹک کو بھی کہتے ہیں، پہلے مصرعہ میں ایسا لگ رہا ہے جیسے یاد نے آنکھوں میں لپ اسٹک لگا دی ہے۔ بدل دیں تو بہتر ہوگا۔ دوسرے مصرعے میں "آنکھوں" کا وزن پورا نہیں ہو رہا، اس کی بجائے "آنکھ" کہیں تو ٹھیک ہے اس صورت میں آپ کا مصرعہ درست ہو جائے گا۔ اگر دونوں آنکھوں کا ذکر ضروری ہے تو دوسرا مصرعہ بدلنا پڑے گا۔
تری یادوں کی سرخی نے مری آنکھیں سجائی ہیں
تری آنکھوں میں بھی گر رنگ لال آئے تو لوٹ آنا
نہیں ہو تم مرے پابند نا یہ شرط ہے ساگر
کبھی جو یاد گزرے ماہ و سال آئے تو لوٹ آنا
مہینہ اور سال کہیں گے تو جمع کا ثیغہ استعمال ہوگا مگر ردیف میں واحد کا ثیغہ چل رہا ہے "آئے"
گزارہ ساتھ تھا، گر یاد وہ سال آئے تو لوٹ آنا
اصلاح کرتے وقت ایک ڈر یہ بھی لگا رہتا ہے کہ شاعر کہیں برا نہ منا جائے، ظاہر ہے تنقید کسے پسند ہوگی۔ لیکن امید ہے کہ آپ اصلاح کو طنز یا کچھ اور نہیں سمجھیں گے۔