بنت شبیر
محفلین
ماں کا لفظ سنتے ہی ہم ماں کی محبت کو محسوس کر سکتے ہیں۔ میں ایک عظیم تحفہ ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ ماں کے بغیر زندگی زندگی نہیں۔ ہر ماں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ جب تک ان کے بچے کھانا نا کھا لیں وہ کھانا نہیں کھاتی اور اگر ان کے بچوں کو کوئی تکلیف ہو تو وہ ساری رات نہیں سو سکتی وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح میری ماں جی میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں۔ جیسا کہ میں اتوار والے صبح بستر پر اٹھنے کی حیل حجت کر رہی ہوتی ہوں کہ ماں جی کی کراری سی آواز آتی ہے، ابھی تک پڑی سو رہی ہو ساتھ والوں نے ناشتہ بھی تیار کر لیا ہے، فلاں نے صفائیاں شروع کر دی ہیں ، تب اٹھو گی جب سورج سوا نیزے پر آ جائے گا ۔اٹھو گی یا ناشتہ بستر پر ہی لے آؤں مہارانی کا۔اور جب ناشتہ کرنے لگی ہوں تو ماں جی کہتی ہیں، یہ وقت ہے ناشتہ کرنے کا ہوں، ساتھ والوں نے تو دن کا کھانا بھی تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور مہارانی کا ناشتہ ختم نہیں ہو رہا۔ رمضان میں اکیڈمی کی ٹائمنگ 2 سے 4 بجے تک تھی۔ جب میں 2 بجے جا کر 4 بجے واپس آتی تھی تو ماں جی کہتی تھیں یہ اکیڈمی کو ہاتھ لگانے جاتی ہو، پڑھتی بھی ہو کہ ویسے ہی واپس آ جاتی ہو۔ اب رمضان کے بعد 3 سے لیے کر 6 بجے تک ٹائمنگ ہے تو ماں جی شور ڈالتی ہیں۔ اتنی دیر سے آتی ہو، سارا ایک ہی دن پڑھنا ہوتا ہے۔ اور ویسے دنیا کی تمام ٹینشنز میری ماں جی نے اپنے سر اٹھا رکھی ہیں۔ اگر لائیٹ زیادہ جائے تو واپڈا والوں کو کوستی رہتی ہیں اور اگر بجلی نا جائے تو بھی کہتی ہیں کہ پتہ نہیں آج بجلی کیوں نہیں گئی اور پانی کا الگ شور اگر پانی نا آئے تو افففف آج پانی نہیں آیا ، کپڑے دھونے تھے ابھی خالہ آ رہی ہونگی کپڑے دھونے کے لیے، پانی نہیں ہے تو کیسے کپڑے دھلیں گے۔ اور اگر پانی آ جائے اور اسی دوران بجلی چلی جائے تو پھر واپڈا والے کی بھی خیر نہیں اس کے ساتھ پانی والے کی بھی خیر نہیں ہوتی، کہ اس کہ پتہ ہے اس وقت بجلی جاتی ہے تو پانی کیوں دے دیا اب موٹر کے بغیر پانی کیسے آئے گا۔ اور اس دوران گھر کا کوئی بھی فرد باہر سے گھر داخل ہو تو آتے ساتھ ماں جی ان کو یہی خبر سناتی ہیں کہ آج پانی بھی نہیں ہے اور بجلی بھی نہیں ہے اور پانی کی بوتلوں کا الگ شور جب بھی کوئی نیچے والے پورشن سے اوپر جاتا ہے تو ماں جی اس کے ہاتھ دو یا تین بوتلنے پانی کی بیج دیتی ہیں کیونکہ فریج تو اوپر ہی پڑا ہوا ہے۔ گرمی اور لوڈشیڈنگ سے تنگ آ کر پاپا جانی نے یو پی ایس لگوایا تھا۔ تو یہ ماں جی کے لیے ایک اور ٹینشن بن گئی تھی۔ جب زیادہ لائیٹ جائے تو یوپی ایس رات کے لیے بچانے کے لیے سب کو ایک کمرے میں بٹھا کر ایک پنکھا چلاتی تھیں تاکہ رات کو سارے پنکھے چل سکیں۔ ایک اور ٹینش تو میں بتانا ہی بھول گئی کہ چھت پر پودے بھی لگے ہوئے ہیں۔ اگر بہت زیادہ دھوپ ہو تو ماں جی کو یہ ٹینشن کھائے جاتی ہے کہ پودوں کا کیا ہو گا۔ نام پڑھ کر تو آپ نے سوچا ہوں گا کہ بہت سنجیدہ باتیں ہوگی لیکن کیا کریں ہر گھر میں ماں جی کا کردار ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمارے لیے اچھا ہی سوچتی ہیں لیکن ہم ان کی باتوں پر ہنستے رہتے ہیں۔ اور اگر ایک دن کے لیے ماں جی کہیں چلی جائے تو یہ سارے کام ہمیں کرنے پڑتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ ماں جی ہمارے لیے کتنے کام کرتی ہیں۔ اللہ سے دعا ہے اللہ تعالیٰ ماں جی کا سائیہ اور ہمارے پاپا جی کا سائیہ ہمارے سر پر سلامت رکھے آمین