الف نظامی
لائبریرین
طرحی نعتیہ مشاعرہ
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا" (نور بریلوی)
تاریخ: 19 اپریل ، 1985 ء بروز جمعہ
مقام: مولانا اذکار الحق کی اقامت گاہ
صدارت: پروفیسر زاہر حسن فاروقی
شعراء: ساجد حسین ساجد ، سعادت حسن آس ، شاکر القادری ، اصغر بریلوی ، اختر شادانی
ساجد حسین ساجد
خاکِ نعلین ہوئی سرمہ میری آنکھوں کا
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا"
میں نے فردوس کے در اپنے پہ کھلتے دیکھے
مدحتِ آقا میں جب ہاتھ قلم تک پہنچا
کہکشاں چاند ستارے ہیں تیری راہ کی دھول
روند کر اوجِ ثریا تو ارم تک پہنچا
بات گو میرے گناہوں سے چلی تھی ساجد
ذکر پر خواجہء طیبہ کے کرم تک پہنچا
سعادت حسن آس
چاند تک پہنچا کوئی بابِ حرم تک پہنچا
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا"
رائیگاں اس کی عبادت بھی ریاضت بھی ہوئی
تیری گلیوں سے جو ہٹ ہٹ کے حرم تک پہنچا
اپنی تقدیر پہ وہ لفظ ہے نازاں کتنا
نعتِ آقا کے لیے جو بھی قلم تک پہنچا
آپ کی عمر کا گزرا ہے جو اک اک لمحہ
ڈھل کے قرآن کی صورت میں وہ ہم تک پہنچا
شاکر القادری
سینکڑوں موڑ نئے راہِ تمنا میں ملے
جب تیری زلفِ گرہ دار کے خم تک پہنچا
دو تھے وہ نور ، جھکے اتنے کہ قوسین بنے
سلسلہ قرب کا یوں وصل بہم تک پہنچا
سب کی معراج نمازوں میں ہے پنہاں شاکر
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا"
اصغر بریلوی
حق تعالی نے ترے شہر کی کھائی سوگند
جب تری بات چلی قصہ قسم تک پہنچا
مجھ سے پوچھے کوئی صحرائے مدینہ کی بہار
اس کے رتبے کو نہ گلزار اِرم تک پہنچا
ہوگا سرکار کا دیدار لحد میں اس کو
حسرتِ دید میں جو ملک عدم تک پہنچا
فکر دنیا غم عقبی نہیں اب اے اصغر
للہ الحمد میں آقا کے قدم تک پہنچا
اختر شادانی
ورفعنا لک ذکرک کی صداقت ہے عیاں
وادی بطحا سے دیں چین و عجم تک پہنچا
کوئی خطہ نہیں دنیا میں جہاں پر ان کا
نامِ نامی نہ ہو قرطاس و قلم تک پہنچا
آج ہر ایک غلام ان کا یہ کرتا ہے دعا
میرے مولی تو مجھے ان کے قدم تک پہنچا
تعارف شعرائے محفل
اختر شادانی:
ولد مولانا اسرار الحق طوطئی ہند ، 1910 ء میں رہتک میں پیدا ہوئے۔ 1933 میں منشی فاضل کیا۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے اور مقامی ہائی سکول سے ریٹائر ہو گئے۔ شاداں بلگرامی کے شاگرد تھے اور اسی نسبت سے شادانی کہلاتے تھے۔ اردو کے پرگو شاعر تھے۔ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ آخری عمر میں کراچی چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے۔
آس ، سعادت حسن:
15 اکتوبر 1952 کو اٹک میں پیدا ہوئے۔ واپڈا میں ملازم ہیں۔ نعت گوئی کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ نعتیہ مجموعے: آقا ہمارے ، آس کے پھول ، آس مان ، شائع ہو چکے ہیں۔
اصغر بریلوی:
نام محمد سعید ، درانی نسل کے فرزند ، 1326 ھ میں بریلی میں پیدا ہوئے۔ محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ صدر بازار اٹک میں رہائش تھی۔ آخری ایام میں یہاں سے راولپنڈی منتقل ہوگئے اور وہیں عالم آخرت کو سدھارے۔ ایک مجموعہ کلام "خون نابہ دل" یادگار چھوڑا۔
شاکر القادری ، سید:
گیلانی خاندان کا چشم و چراغ ، ایک جوہرِ قابل ، جس نے اپنے علمی ، ادبی اور فنی پہلووں کی خود تراش کی ہے۔ مجھے بعض اوقات اس کے لیے اپنے دل میں حسد کا جذبہ ابھرتا محسوس ہوتا ہے۔
----
ارمغانِ اٹک بحضور سید لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
طرحی نعتیہ مشاعرے 1957 تا 2006
مرتبہ نذر صابری
محفل شعر و ادب اٹک۔ القلم ادارہ مطبوعات اٹک پاکستان
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا" (نور بریلوی)
تاریخ: 19 اپریل ، 1985 ء بروز جمعہ
مقام: مولانا اذکار الحق کی اقامت گاہ
صدارت: پروفیسر زاہر حسن فاروقی
شعراء: ساجد حسین ساجد ، سعادت حسن آس ، شاکر القادری ، اصغر بریلوی ، اختر شادانی
ساجد حسین ساجد
خاکِ نعلین ہوئی سرمہ میری آنکھوں کا
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا"
میں نے فردوس کے در اپنے پہ کھلتے دیکھے
مدحتِ آقا میں جب ہاتھ قلم تک پہنچا
کہکشاں چاند ستارے ہیں تیری راہ کی دھول
روند کر اوجِ ثریا تو ارم تک پہنچا
بات گو میرے گناہوں سے چلی تھی ساجد
ذکر پر خواجہء طیبہ کے کرم تک پہنچا
سعادت حسن آس
چاند تک پہنچا کوئی بابِ حرم تک پہنچا
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا"
رائیگاں اس کی عبادت بھی ریاضت بھی ہوئی
تیری گلیوں سے جو ہٹ ہٹ کے حرم تک پہنچا
اپنی تقدیر پہ وہ لفظ ہے نازاں کتنا
نعتِ آقا کے لیے جو بھی قلم تک پہنچا
آپ کی عمر کا گزرا ہے جو اک اک لمحہ
ڈھل کے قرآن کی صورت میں وہ ہم تک پہنچا
شاکر القادری
سینکڑوں موڑ نئے راہِ تمنا میں ملے
جب تیری زلفِ گرہ دار کے خم تک پہنچا
دو تھے وہ نور ، جھکے اتنے کہ قوسین بنے
سلسلہ قرب کا یوں وصل بہم تک پہنچا
سب کی معراج نمازوں میں ہے پنہاں شاکر
"میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا"
اصغر بریلوی
حق تعالی نے ترے شہر کی کھائی سوگند
جب تری بات چلی قصہ قسم تک پہنچا
مجھ سے پوچھے کوئی صحرائے مدینہ کی بہار
اس کے رتبے کو نہ گلزار اِرم تک پہنچا
ہوگا سرکار کا دیدار لحد میں اس کو
حسرتِ دید میں جو ملک عدم تک پہنچا
فکر دنیا غم عقبی نہیں اب اے اصغر
للہ الحمد میں آقا کے قدم تک پہنچا
اختر شادانی
ورفعنا لک ذکرک کی صداقت ہے عیاں
وادی بطحا سے دیں چین و عجم تک پہنچا
کوئی خطہ نہیں دنیا میں جہاں پر ان کا
نامِ نامی نہ ہو قرطاس و قلم تک پہنچا
آج ہر ایک غلام ان کا یہ کرتا ہے دعا
میرے مولی تو مجھے ان کے قدم تک پہنچا
تعارف شعرائے محفل
اختر شادانی:
ولد مولانا اسرار الحق طوطئی ہند ، 1910 ء میں رہتک میں پیدا ہوئے۔ 1933 میں منشی فاضل کیا۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے اور مقامی ہائی سکول سے ریٹائر ہو گئے۔ شاداں بلگرامی کے شاگرد تھے اور اسی نسبت سے شادانی کہلاتے تھے۔ اردو کے پرگو شاعر تھے۔ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ آخری عمر میں کراچی چلے گئے اور وہیں فوت ہوئے۔
آس ، سعادت حسن:
15 اکتوبر 1952 کو اٹک میں پیدا ہوئے۔ واپڈا میں ملازم ہیں۔ نعت گوئی کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ نعتیہ مجموعے: آقا ہمارے ، آس کے پھول ، آس مان ، شائع ہو چکے ہیں۔
اصغر بریلوی:
نام محمد سعید ، درانی نسل کے فرزند ، 1326 ھ میں بریلی میں پیدا ہوئے۔ محکمہ ڈاک میں ملازم تھے۔ صدر بازار اٹک میں رہائش تھی۔ آخری ایام میں یہاں سے راولپنڈی منتقل ہوگئے اور وہیں عالم آخرت کو سدھارے۔ ایک مجموعہ کلام "خون نابہ دل" یادگار چھوڑا۔
شاکر القادری ، سید:
گیلانی خاندان کا چشم و چراغ ، ایک جوہرِ قابل ، جس نے اپنے علمی ، ادبی اور فنی پہلووں کی خود تراش کی ہے۔ مجھے بعض اوقات اس کے لیے اپنے دل میں حسد کا جذبہ ابھرتا محسوس ہوتا ہے۔
----
ارمغانِ اٹک بحضور سید لولاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
طرحی نعتیہ مشاعرے 1957 تا 2006
مرتبہ نذر صابری
محفل شعر و ادب اٹک۔ القلم ادارہ مطبوعات اٹک پاکستان