میری نثری تخلیقات ۔۔۔ شاہد شاہنواز

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے اردو نثر میں لکھنا غالبا اس وقت سے شروع کردیا تھا جب میں میٹرک کا طالب علم تھا۔۔۔ یہ 2000ء کی بات ہے۔۔ اس وقت سے اب تک بہت کم لکھا ہے، لیکن جو کچھ بھی ہے، جہاں جہاں سے ہاتھ لگا، اس تھریڈ میں پوسٹ کروں گا۔۔ فی الحال یہ ایک کالم ملا ہے جو اخبار میں شائع تو کیا گیا لیکن اس میں ایڈیٹنگ اتنی زیادہ کی گئی کہ میں جو کہنا چاہتا تھا، وہ بیان ہی نہیں ہوسکا۔۔۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ کالم 14 اگست کو شائع کیا گیا اور اس دن کوئی پاکستانی ، اپنے پیارے ملک پاکستان کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔ خیر، پاکستان کے خلاف تو عام دنوں میں بھی لکھنا برداشت نہیں کیاجاتا، نہ کیا جانا چاہئے، تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے پاکستان کے خلاف کچھ نہیں لکھا، اور اگر لکھ دیا ہے تو آپ سے نشاندہی کی درخواست ہے تاکہ اس غلطی کو درست کیاجاسکے ۔۔۔ اس تمہید کے بعد میں یہاں اس کالم کو پیسٹ کر رہا ہوں۔۔۔ عنوان ہے: ’’چھوڑ دیجئے پاکستان‘‘۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
چھوڑ دیجئے پاکستان (شاہد شاہنواز)
دنیا میں اور بھی بہت سے مقامات ہیں جہاں آپ کو پاکستان سے بہت بہتر سہولیات اور آرام میسر آسکتاہے پھر آپ نے اپنی رہائش اور زندگی بسر کرنے کے لیے پاکستان ہی کا انتخاب کیوں کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم میں سے بہت سے لوگ کچھ اِس طرح دیں گے کہ وہ مجبور ہیں اور مجبوری کی وجہ کوئی بھی ہوسکتی ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو غربت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم میں سے بیشتر لوگ غریب نہ ہوتے تو ان میں سے بیشتر لوگ کب کے یہ ملک چھوڑ کر جا چکے ہوتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر غریب نہ ہوتے تو ملک کیوں چھوڑتے؟ ظاہر ہے پاکستان ایک ایسا عجیب قسم کا ملک بن چکا ہے جو امیروں کے لیے آسائش اور سہولیات سے مزین جنت اور غریبوں کے لیے مصیبتوں سے بھرپور بدترین دوزخ کا منظر پیش کرتا ہے۔ امیر فرعون کی طرح جو چاہتا ہے اپنے آپ کو خدا سمجھ کے کر گزرتا ہے جبکہ غریب کی حالت یہاںاس سقراط جیسی ہے جس نے زہر کا پیالہ تو پی لیا ہو مگر موت اس کے قریب تک آنے سے انکار کر دے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے؟جب بھی ہم میں سے کوئی شخص یہ سوال پوچھتا ہے تو پاکستان کا ہر وہ شہری جسے کچھ عقل ہے اور جسے نہیں بھی ، سب مل کر اسے برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ بھلے مانس، کبھی یہ مت سوچنا کہ پاکستان نے تمہیں کیا دیا ہے۔ ہمیشہ یہی سوال اپنے آپ سے پوچھنا کہ تم نے پاکستان کو کیا دیا ہے اور اب تک اس کے لیے کیا کیا ہے لیکن جب تک اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب ہمیں مل نہیں جاتا کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے، ہم یہ سوال بھی اپنے آپ سے کیوں پوچھیں کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟ کیا پاکستان بھی ہم سے اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنی محبت ہمیں پاکستان سے ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو ہم سے شاید اتنی محبت نہیں ہے جتنی محبت ، ہم پاکستان سے کرتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور بدلے میں پاکستان نے ہمیں کچھ بھی نہیں دیا۔ اُلٹا محرومیوں، مایوسیوں اور مفلسی سے نوازا ہے۔ ہمارے سر پر چھت ہے یا پھر کھلا آسمان لیکن اب تو اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں رہا۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور ہم زندہ ہیں۔ ایسے زندہ ہیں کہ اگرزندہ نہ ہوتے تو شاید اس سے کہیں بہتر ہوتا۔ یہ سب پاکستان سے محبت کا نتیجہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟کیا ہم واقعی پاکستان سے محبت کرتے ہیں؟ میرا خیال ہے ہم سب لوگ یہ دعویٰ تو کر سکتے ہیں مگر اسے ثابت نہیں کرسکتے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو خواہ مخواہ کا فساد اور بربادی کی تدبیریں کرتے ہیں۔ جو مجرم ہیں ان کی بات چھوڑئیے۔ اپنے گھر اور محلوں میں فساد پھیلانے والے اور بلا وجہ پھوٹ ڈالنے والے احمق لوگوں کو شمار کرنا شروع کریں۔ یہ گنتی آپ کی توقعات سے کہیں زیادہ طویل اور تھکا دینے والی ثابت ہوگی۔ اب جن بے وقوف لوگوں کو آپ نے بطور فسادی پہچان کر ان کی ایک فہرست بنائی ہے ، آپ کا کیا خیال ہے ایسے لوگوں کا کوئی علاج ہے؟ کیا اس قسم کے لوگوں کو پاکستان سے کوئی محبت ہوسکتی ہے؟ شاید ہو، مگر یہ اتنے بے وقوف ہیں کہ محبت کیا ہے، اس کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے۔ کیا ہم ایسے لوگوں کو خود سے الگ کر کے کاٹ کر پھینک سکتے ہیں؟ ظاہر ہے ہم ایسا نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے سامنے پھر وہی مثال آجائے گی کہ اگر جسم کے کسی عضو پر ناسور نمودار ہو جائے تو اسے کاٹ کر پھینکنا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں لیکن کیا یہ رویہ درست ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ جب کوئی غیر ہم پر انگلی اٹھائے تو ہم اسے کاٹ دیں اور جب یہی انگلی اپنوں کی طرف سے اٹھائی جائے تو سر جھکا کر چپ چاپ سب سہہ لیں اور اُف تک نہ کہیں؟ انصاف اس معاملے میں ہم سے بے رحمی کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں چن چن کر ان اپنوں کے گریبان پکڑنے ہوں گے جنہوں نے غیروں سے بڑھ کر ہمارے ساتھ دشمنی نبھائی ہے اور چور بازاری، اقربا پروری اور رشوت جیسے گھناﺅنے افعال سے ہمارے ملک کے تشخص تک کو بربادکرکے رکھ دیا ہے۔ تشخص سے مراد وہ بنیادی خصوصیات ہیں جن کے ذریعے ہم ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ملکی تشخص ملک کی روایات اور ثقافت سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم میں دوسروں سے ہٹ کر کچھ انوکھا اور منفرد انداز ہونا چاہیے جسے ہماری پہچان کہا جاسکے۔ موجودہ دور ایک ایسا دور ہے جس میں علیحدہ علیحدہ تشخص کی دھجیاں بکھر کر رہ گئی ہیں اور ایسا صرف پاکستان کے ساتھ نہیں ہوا ہے۔ ایسے بہت سے ممالک ہیں جنہیں اپنی شناخت دوسری اقوام کی شناخت میں ضم ہوتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ آج کل ایک اور ثقافت جنم لینے لگی ہے جسے ہم بین الاقوامی ثقافت کا نام دے سکتے ہیں۔ زیادہ گہرائی میں جانے اور غور کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو قومیں ترقی کرنا چھوڑ دیتی ہیں وہ اپنا وقار کھو دیتی ہیں اور جن کے پاس یہ وقار نہیں ہوتا وہ بے چارگی سے ان قوموں کی طرف دیکھنے لگتی ہیں جنہیں باوقار سمجھا جا رہا ہوتاہے۔ اب وہ کریں تو کیا کریں؟ ان کا وقار ان سے چھین بھی نہیں سکتیں اور اپنے آپ میں بھی اتنا دم خم باقی نہیں بچتا کہ اپنی عزت اقوامِ عالم میں خود بنا سکیں نتیجتاً وہ ان قوموں کی نقل شروع کردیتی ہیں جو ترقی یافتہ ہیں لیکن اس سے بھی انہیں مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا۔ ظاہر ہے جو چیز آپ کی اپنی نہیں ہے آپ اسے اپنا کر اپنے آپ کو اپنائیت محسوس نہیں کراسکتے۔ ہمیشہ ایک عجیب سا احساس آپ کے ساتھ رہتا ہے ۔غیریت کا احساس اور اپنے نامکمل ہونے کا خیال۔ ریاست کے بنیادی ستون جس وقت ایک دوسرے سے متصادم ہونے لگتے ہیں، وہ وقت ریاست کے زوال کا وقت شمار کیا جاتا ہے۔ جس ملک میں انصاف حاصل کرنے کے لیے پوری عمر انتظار میں کاٹنی پڑ جائے، جہاں جیلوں میں جانے والے شریف چور بن کر نکلیں، جہاں تعلیم اتنی بے وقعت ہو کہ تعلیم حاصل کرنے والے بیشتر نوجوان بے روزگار رہیں،جہاں زندہ رہنا مشکل اور خودکشی آسان لگنے لگے اور جہاں بھوک اور افلاس کا مقابلہ کرتے کرتے غریب خدا تک کو فراموش کر دے، وہاں ایک عام شہری کے دل میں ملک کی محبت کتنی ہے اور وہ ملک کی محبت کو کیا مقام دیتا ہے، یہ سوال کرنا ہی ایک بہت بڑی حماقت نظر آتاہے۔ جواب تو بعد کی بات ہے۔ پاکستان کیا ہے؟ زمین کا ایک ٹکڑا ہے جسے کچھ ایسے لوگوں نے حاصل کیا تھا جو اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کو شاید یہ علم نہیں تھا کہ ان کی آنے والی نسلیں اسلام سے کس حد تک بے زار اور لاتعلق ہوجائیں گی اور جو ملک انہوں نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھااس میں اسلام کا صرف نام رہ جائے گا۔ اب آپ سوچئے کہ پاکستان میں ایسا کیا ہے جس سے محبت کی جائے؟ کچھ لوگ جذباتی ہو کر یہاں کی مٹی کا نام لیتے ہیں۔ وہ پاکستان کو ملک نہیں بلکہ وطن کہتے ہیں۔ ملک تو کوئی بھی ہوسکتا ہے لیکن وطن کے لفظ سے اپنائیت جھلکتی ہے۔ اس سے انسان میں ایک احساس پیدا ہوتاہے کہ جہاں وہ رہ رہاہے وہاں سب لوگ اپنے ہیں اور کوئی شخص پرایا نہیں ہے۔جذبات اور احساسات کی اپنی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ ہمارے اردگرد کتنی ہی حقیقتیں بکھری پڑی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر حقیقت کا رنگ ہمارے جذبات پر فرق ڈالے مگر جذبات ضرور حقیقتیں تخلیق کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ ہم جذبات کو بھی بطور حقیقت کے تسلیم کریں اور ان کو بھی اہمیت دیں۔ انہی جذبات کو اہمیت دیتے ہوئے ہم پاکستان کو زمین کا ایک ٹکڑاکہنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی اہمیت اس کے لوگوں سے ہے۔ پاکستان کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ زمین، یہ دریا، یہ سمندر، یہ صحرا، یہ پہاڑ اور یہ نظارے سب کے سب بے کار ہیں۔ پاکستانی پاکستان سے زیادہ اہم ہے۔ پاکستانی سے پاکستان ہے ، پاکستان سے پاکستانی نہیں ہے۔ آج میں آپ کو وطن سے محبت کرنے کی بجائے وطن میں رہنے والوں سے محبت کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر آپ ٹھیک ہوجائیں گے تو آپ کے ملک کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ پاکستانی کی بات کیجئے۔ چھوڑ دیجئے پاکستان!!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں میں جن افراد کو ٹیگ کرر ہا ہوں، ان کے علاوہ بھی ہر شخص یہ حق رکھتا ہے کہ میں نے اگر کچھ غلط کہا ہے تو اس کی نشاندہی کرے اور اگر زبان و بیان میں کوئی مسئلہ ہے تو وہ بھی بتایاجائے تاکہ میں درست کرسکوں۔۔۔

محترم الف عین ، محترم محمد یعقوب آسی ، مزمل شیخ بسمل ، محمد اسامہ سَرسَری ، نیلم ، شمشاد ، متلاشی ، @التباس ، امجد علی راجا ، نیرنگ خیال ، ظفری ، سید شہزاد ناصر ، @مقدس، پردیسی ، تبسم ، امجد میانداد ، فاتح ، محسن وقار علی ، شوکت پرویز ، @ملائکہ، ماہا عطا ، سید زبیر ، محمد احمد ، محمد بلال اعظم ، محمد اظہر نذیر ، مغزل ، قیصرانی ، فہیم ،
مدیحہ گیلانی زبیر مرزا ،
عندلیب ۔۔۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اور کسی کو آپ کے خیال میں ٹیگ کرنا چاہئے جو اس ضمن میں بہتر رائے دے سکے تو میری طرف سے ٹیگ کیے جانے والے افراد یا دیگر احباب جو اتفاق سے ادھر آنکلیں، کر سکتے ہیں۔۔۔
 
بلا تمہید ۔۔۔۔
آج سے تیرہ چودہ سال پہلے کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل جو فکری ناپختگی کا حاصل ہے۔

آپ کو چاہئے تھا یہاں پوسٹ کرنے سے پہلے اس کو کم از کم ایک بار ایڈٹ کر لیتے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بلا تمہید ۔۔۔ ۔
آج سے تیرہ چودہ سال پہلے کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل جو فکری ناپختگی کا حاصل ہے۔
آپ کو چاہئے تھا یہاں پوسٹ کرنے سے پہلے اس کو کم از کم ایک بار ایڈٹ کر لیتے۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، میں نے یہ آرٹیکل 2007ء یا 2008ء میں لکھا ہے۔۔۔ میں نے اس کو بغور پڑھا ضرور ہے لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آیا تو تبدیلی بھی نہیں کی ۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
پاکستان تو خود کو قائم رکھنے کی کوشش میں جتا ہوا ہے ۔ مگر " پاکستانی " اس کی ایک نہیں چلنے دیتے ۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ہے تو " پاکستانی " ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالم اگر پیراگرافس میں تقسیم کر دیا جاتا ۔ تو مصنف کی سوچ قاری تک آسانی کے ساتھ مکالمہ کر لینے میں کامیاب رہتی ۔۔۔۔۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس کالم کو جوں کا توں یہاں کاپی کرنے سے یہی مراد تھی کہ اور کون کون ہے جو اس سے اختلاف کرتا ہے۔۔۔ اختلاف ہی سیدھی راہ دکھانے کا موجب ہے۔۔ سو ہم اس کالم کی بحث سے باز آتے ہیں۔۔۔ جلد ہی کوئی نئی بحث چھیڑیں گے۔۔۔
 
معذرت غلطی سے یہاں کچھ اور پوسٹ ہوگیا۔

( ابن سعید بھائی! یہاں اس لڑی میں میں نے کچھ نہیں پوسٹ کیا ، مگر ابھی آن لائن ہوا تو نظر آیا کہ یہاں میری طرف سے یہ جملہ پوسٹ ہوا ہے: ”آپ نے بہت بے تکا سا کالم لکھا ہے“ دیکھ کر حیرت ہوئی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیسے ہوا جبکہ نہ میں نے یہاں کچھ لکھا نہ میرا پاسورڈ کسی اور کو معلوم ہے۔)
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
معذرت غلطی سے یہاں کچھ اور پوسٹ ہوگیا۔

( ابن سعید بھائی! یہاں اس لڑی میں میں نے کچھ نہیں پوسٹ کیا ، مگر ابھی آن لائن ہوا تو نظر آیا کہ یہاں میری طرف سے یہ جملہ پوسٹ ہوا ہے: ”آپ نے بہت بے تکا سا کالم لکھا ہے“ دیکھ کر حیرت ہوئی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیسے ہوا جبکہ نہ میں نے یہاں کچھ لکھا نہ میرا پاسورڈ کسی اور کو معلوم ہے۔)
میرا خیال ہے آپ اپنا پاس ورڈ بدل دیں فوری طور پر۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
میں نے اردو نثر میں لکھنا غالبا اس وقت سے شروع کردیا تھا جب میں میٹرک کا طالب علم تھا۔۔۔ یہ 2000ء کی بات ہے۔۔ ۔
اتنا عرصہ ہوگیا ۔۔۔ اب تک تو انٹر کرلینا چاہیئے تھا ۔ ;)
خیر مذاق برطرف ۔۔ جب الوطنی کا اچھا اظہار ہے ۔ ربط اور خیالات بھی اچھے اور معیاری ہیں ۔ جاری رکھیئے گا ۔ امید ہے اور بھی بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا ۔
اور ہاں ۔۔۔۔ انٹر اس بار ضرور کرلینا ۔ :hurryup:
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اتنا عرصہ ہوگیا ۔۔۔ اب تک تو انٹر کرلینا چاہیئے تھا ۔ ;)
خیر مذاق برطرف ۔۔ جب الوطنی کا اچھا اظہار ہے ۔ ربط اور خیالات بھی اچھے اور معیاری ہیں ۔ جاری رکھیئے گا ۔ امید ہے اور بھی بہت کچھ پڑھنے کو ملے گا ۔
اور ہاں ۔۔۔ ۔ انٹر اس بار ضرور کرلینا ۔ :hurryup:
اس سے پہلے بھی انٹر کیا تھا تبھی آپ کو پوسٹ نظر آئی تھی۔۔ اب بھی پوسٹ لکھنے کے بعد Enterکروں گا۔۔۔ بہت بار انٹر کیا ہے میں نے ۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
فیصلے کی ضرورت
شاہد شاہنواز​
شہر کراچی کے باسیوں نے بوری بند لاشیں بھی دیکھی ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کا بھی سامنا کیا ہے۔ وہ خون میں نہائے ہوئے شام و سحر سے بھی گزرے ہیں اور اپنے پیارو ں کی لاشوں پر ماتم کناں بھی رہے ہیں۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے کہتے کہنے والے نہیں تھکتے تھے اور اب اس کے باسیوں کو موت کی نیند سلانے والوں کا اسلحہ ہی ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں ہر چیز ہے لیکن سکون نہیں ہے اور ہر دوا ہے لیکن بد امنی کی کوئی دوا نہیں۔
یہ شہر ، شہر قائد ہے۔ بانی پاکستان نے یہیں آنکھ کھولی تھی۔ اس شہر کو اچھی طرح یاد ہے جب 1947ءمیں پاکستان بنا تھا اس وقت کیسا منظر تھا اور اب کیا حالت ہے۔ راہگیروں کو لوٹنے والے ، چوریاں کرنے والے، ڈاکے ڈالنے والے، قتل کرنے والے ، سب بد کردار ، لٹیرے اور ڈاکو اسی شہر میں جمع ہو گئے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی یہی شہر ہے اور صنعتی ترقی کی توقع بھی اسی شہر سے کی جاتی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سیاستدان اس شہر کی بات چھوڑ دیں اور یہ شہر تاجروں کے حوالے کردیاجائے؟ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ مظاہروں کے لیے کہیں اور جگہ مخصوص کی جائے جو اس شہر سے باہر ہو۔ چوروں اور لٹیروں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جائیں تاکہ شہر ان کو نظر ہی نہ آئے ، لیکن افسوس! ایسا ممکن نہیں ہے۔ قطرہ قطرہ کرکے جو خون نچوڑتے تھے اور خون دوبارہ جمع ہوجاتا تھا، انہوں نے اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ اتنی ترقی کر لی ہے کہ خون کے پورے سمندر کو ایک ہی جھٹکے میں نگل جانا چاہتے ہیں۔ ہندوﺅں کا سنا تھا کہ وہ مردوں کو جلا تے ہیں، شہر کراچی کے باسیوں نے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ اپنے ہی بھائیوں کو زندہ جلا دیا ۔ 300کے قریب لوگوں کو ایک فیکٹری میں بند کرکے اس طرح آ گ سے جلا دیا گیا جیسے ان کے جسموں میں نہ خون دوڑ رہا تھا، نہ وہ سانس لیتے تھے، نہ ان کو جینے کا حق تھا۔ جینے کا حق صرف ان بے حس حیوان صفت مجرموں کو تھا جن کی اندھی آنکھوں نے فیکٹری میں صرف اپنا قیمتی سامان ہی دیکھا تھا۔ اور کچھ نہیں۔
کیا وہ سامان اتنا ہی قیمتی تھا کہ اس کی خاطر انسانوں کی جانوں کو ارزاں سمجھا جاتا؟ ایسا کون سا قارون کا خزانہ اس فیکٹری میں جمع ہوگیا تھا جسے بچانے کے لیے اتنے سارے لوگوں کو ایک ساتھ زندہ جلادیا گیا ؟ کیا صرف اس لیے کہ لوگ غریب ہیں، ان کی جان لینا جائز ہوجاتا ہے؟ کیا مفلسوں کو جلا ڈالنے پر خدا کوئی سزا نہیں دیتا؟ کیا عذاب الٰہی صرف غریبوں کے لیے ہے؟ امیروں کے لیے صرف جنت ہے؟ ایسے نہ جانے کتنے ہی سوال ہیں جو انسانی ذہن میں ابھرتے ہیں اور انسان محض رو کر یا سر پکڑ کر چپ ہوجاتا ہے۔ جواب ہوتا ہے لیکن بعض اوقات دکھ اتنا بڑا لگنے لگتا ہے کہ کوئی بھی جواب آپ کو مطمئن نہیں کرسکتا۔
آپ یہاں راقم سے یہ سوال کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں کہ امن پسند شہر کراچی کے باسیوں نے تو یہ جرم نہیں کیا۔ انہوں نے تو اپنے بھائیوں کو زندہ نہیں جلایا۔ پھر اس سب کا الزام وہ کس طرح پورے شہر کے باسیوں پر عائد کر رہا ہے؟ظاہر ہے کہ بھیڑوں کے ریوڑ میں کالی بھیڑیں صرف چند ہوتی ہیں، تالاب کو گندہ کرنے والی مچھلی صرف ایک ہوتی ہے، چند مجرموں کے جرم کا الزام پورے شہر کے باسیوں پر عائد کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ لیکن میں اپنے بھائیوں، بزرگوں ، بہنوں اور ماﺅں سے صرف ایک ہی بات کہنا چاہتا ہوں۔ یہ مجھے نظر آرہا ہے کہ آپ نے ان کو نہیں جلایا۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ میں بے قصور ہوں لیکن میرا ضمیر یہ بات تسلیم نہیں کرتا۔ جب میں اس شہر میں موجود ہوں اور میں نے ان بے ضمیروں کے خلاف یا کم از کم ان مظلوموں کے حق میں ایک بھی قدم نہیں اٹھایا تو میں خود کو اس الزام سے بری کیسے قرار دے سکتا ہوں؟میں یہ کیسے مان لوں کہ آپ بے قصور ہیں۔بے حسی کی ایک بہت موٹی چادر ہے جس نے ہم لوگوں کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں۔ ہمیں دکھ اور کرب کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ موت ہمارے سروں پر ناچ رہی ہے اور ہم رقص و سرود کی محفلوں کا لطف اٹھار ہے ہیں ۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم بے قصور ہیں۔ چلئے مان لیا آپ بے قصور ہیں، لیکن کیا آپ دردِ دل بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟تھوڑی دیر کے لیے یہ بھول جائےے کہ آپ کی اپنی دنیا کی کوئی حقیقت ہے۔ ان کی دنیا میں بھی جھانک کر دیکھ لیجئے۔
جو لوگ آپ کو زندہ جلا رہے ہیں، ان کے خلاف نفرت کی آگ کو دل میں بھڑکنے دیجئے ۔ معاف کرنا اچھی بات ہے لیکن اس وقت آپ نے معاف کردیا تو آپ کی معافی کو آپ کی کمزوری سمجھا جائے گا۔ ظالموں کو معاف کرنا مظلوموں پر ظلم ہے۔ معاف مت کیجئے۔ کوئی راستہ نکالےے ۔ سوچئے ۔ کیا جس نے ان بد کرداروں کو ذہن دیا جس کے بل بوتے پر یہ آپ کے ساتھ اتنا ظلم کر رہے ہیں، اسی خدا نے آپ کو کچھ بھی نہیں دیا؟کیا آپ کے پاس سوچ نہیں ہے۔ کیا آ پ کے پاس دل نہیں ہے۔ جذبہ نہیں ہے۔ ایمان کی حرارت ختم ہوچکی ہے؟ خدارا اپنے ذہن اور خیال کو اس سمت میں چلنے دیجئے جس سمت میں چلنے سے آپ اسے خوف کی وجہ سے روکتے ہیں۔ موت کا خوف موت سے زیادہ خطرناک ہے۔ سوچئے آگ میں جل جانے کے تصور سے کتنے ہی لوگ لرز جاتے ہیں۔ وہ تو واقعی جل کر شہید ہو گئے ۔ ان کو شہید نہ کہاجائے تو اور کیا کہاجائے؟ ان کی زندگی کیسی تھی، ان سے پوچھتے توبتاتے۔
تم نے شاید کبھی دیکھی ہو مقدر کی چمک
زندگی ہم نے گزاری ہے قیامت کی طرح
لیکن اب تو زندگی کو آگ جیسی ہولناک چیز نے جلا کر ختم کردیا ۔ جن لوگوں کی قیامت ان کی زندگی میں ہوچکی، انہیں خدا اور کیا عذاب دے گا؟ ان کے سب گناہ دھل گئے۔ وہ پاک ہو گئے۔لیکن جو بچ گئے ہیں ان کا خیال رکھنے کے لیے آپ بچے ہیں اور اب آپ کو کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ کوئی مثبت ، ٹھوس اور ہمدردانہ فیصلہ۔
٭٭٭٭٭
(شائع شدہ روزنامہ نوائے وقت، کراچی، مورخہ 10-10-2012)
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/karachi/2012-10-10/page-11
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
معذرت کے ساتھ، اوپر جو پوسٹ میں نے کی ہے، یہ Urdu Unicode Solutionنامی سافٹ وئیر کو استعمال کرتے ہوئے ان پیج سے یونی کوڈ میں Convert کی گئی ہے۔۔۔ میں نے اس سے پہلے بھی یہ مسئلہ دیکھا تھا کہ ایسی پوسٹ کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہتی ہیں، بعد میں عجیب و غریب کیریکٹرز آنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔ لہٰذا اس مسئلے کو یا تو انتظامیہ شمشاد ، ابن سعید ، نبیل ۔۔۔ صاحبان دیکھ سکتے ہیں یا پھر مجھ سے دوبارہ اس Conversion کا کہاجاسکتا ہے، اگر آپ میری مندرجہ بالا پوسٹ دیکھنا چاہیں۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
معذرت کے ساتھ، اوپر جو پوسٹ میں نے کی ہے، یہ Urdu Unicode Solutionنامی سافٹ وئیر کو استعمال کرتے ہوئے ان پیج سے یونی کوڈ میں Convert کی گئی ہے۔۔۔ میں نے اس سے پہلے بھی یہ مسئلہ دیکھا تھا کہ ایسی پوسٹ کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہتی ہیں، بعد میں عجیب و غریب کیریکٹرز آنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔ لہٰذا اس مسئلے کو یا تو انتظامیہ شمشاد ، ابن سعید ، نبیل ۔۔۔ صاحبان دیکھ سکتے ہیں یا پھر مجھ سے دوبارہ اس Conversion کا کہاجاسکتا ہے، اگر آپ میری مندرجہ بالا پوسٹ دیکھنا چاہیں۔۔۔

ایسے کسی مسئلے کا ہمیں علم نہیں ہے۔ ایک مرتبہ درست متن پوسٹ ہونے کے بعد ازخود اس میں تبدیلی پیدا ہونے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے حتی کہ اس میں ترمیم نہ کی جائے۔
 
Top