فیصلے کی ضرورت
شاہد شاہنواز
شہر کراچی کے باسیوں نے بوری بند لاشیں بھی دیکھی ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کا بھی سامنا کیا ہے۔ وہ خون میں نہائے ہوئے شام و سحر سے بھی گزرے ہیں اور اپنے پیارو ں کی لاشوں پر ماتم کناں بھی رہے ہیں۔ کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے کہتے کہنے والے نہیں تھکتے تھے اور اب اس کے باسیوں کو موت کی نیند سلانے والوں کا اسلحہ ہی ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں ہر چیز ہے لیکن سکون نہیں ہے اور ہر دوا ہے لیکن بد امنی کی کوئی دوا نہیں۔
یہ شہر ، شہر قائد ہے۔ بانی پاکستان نے یہیں آنکھ کھولی تھی۔ اس شہر کو اچھی طرح یاد ہے جب 1947ءمیں پاکستان بنا تھا اس وقت کیسا منظر تھا اور اب کیا حالت ہے۔ راہگیروں کو لوٹنے والے ، چوریاں کرنے والے، ڈاکے ڈالنے والے، قتل کرنے والے ، سب بد کردار ، لٹیرے اور ڈاکو اسی شہر میں جمع ہو گئے ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی یہی شہر ہے اور صنعتی ترقی کی توقع بھی اسی شہر سے کی جاتی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سیاستدان اس شہر کی بات چھوڑ دیں اور یہ شہر تاجروں کے حوالے کردیاجائے؟ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ مظاہروں کے لیے کہیں اور جگہ مخصوص کی جائے جو اس شہر سے باہر ہو۔ چوروں اور لٹیروں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی جائیں تاکہ شہر ان کو نظر ہی نہ آئے ، لیکن افسوس! ایسا ممکن نہیں ہے۔ قطرہ قطرہ کرکے جو خون نچوڑتے تھے اور خون دوبارہ جمع ہوجاتا تھا، انہوں نے اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ اتنی ترقی کر لی ہے کہ خون کے پورے سمندر کو ایک ہی جھٹکے میں نگل جانا چاہتے ہیں۔ ہندوﺅں کا سنا تھا کہ وہ مردوں کو جلا تے ہیں، شہر کراچی کے باسیوں نے ایک نئی روایت قائم کی ہے۔ اپنے ہی بھائیوں کو زندہ جلا دیا ۔ 300کے قریب لوگوں کو ایک فیکٹری میں بند کرکے اس طرح آ گ سے جلا دیا گیا جیسے ان کے جسموں میں نہ خون دوڑ رہا تھا، نہ وہ سانس لیتے تھے، نہ ان کو جینے کا حق تھا۔ جینے کا حق صرف ان بے حس حیوان صفت مجرموں کو تھا جن کی اندھی آنکھوں نے فیکٹری میں صرف اپنا قیمتی سامان ہی دیکھا تھا۔ اور کچھ نہیں۔
کیا وہ سامان اتنا ہی قیمتی تھا کہ اس کی خاطر انسانوں کی جانوں کو ارزاں سمجھا جاتا؟ ایسا کون سا قارون کا خزانہ اس فیکٹری میں جمع ہوگیا تھا جسے بچانے کے لیے اتنے سارے لوگوں کو ایک ساتھ زندہ جلادیا گیا ؟ کیا صرف اس لیے کہ لوگ غریب ہیں، ان کی جان لینا جائز ہوجاتا ہے؟ کیا مفلسوں کو جلا ڈالنے پر خدا کوئی سزا نہیں دیتا؟ کیا عذاب الٰہی صرف غریبوں کے لیے ہے؟ امیروں کے لیے صرف جنت ہے؟ ایسے نہ جانے کتنے ہی سوال ہیں جو انسانی ذہن میں ابھرتے ہیں اور انسان محض رو کر یا سر پکڑ کر چپ ہوجاتا ہے۔ جواب ہوتا ہے لیکن بعض اوقات دکھ اتنا بڑا لگنے لگتا ہے کہ کوئی بھی جواب آپ کو مطمئن نہیں کرسکتا۔
آپ یہاں راقم سے یہ سوال کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں کہ امن پسند شہر کراچی کے باسیوں نے تو یہ جرم نہیں کیا۔ انہوں نے تو اپنے بھائیوں کو زندہ نہیں جلایا۔ پھر اس سب کا الزام وہ کس طرح پورے شہر کے باسیوں پر عائد کر رہا ہے؟ظاہر ہے کہ بھیڑوں کے ریوڑ میں کالی بھیڑیں صرف چند ہوتی ہیں، تالاب کو گندہ کرنے والی مچھلی صرف ایک ہوتی ہے، چند مجرموں کے جرم کا الزام پورے شہر کے باسیوں پر عائد کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ لیکن میں اپنے بھائیوں، بزرگوں ، بہنوں اور ماﺅں سے صرف ایک ہی بات کہنا چاہتا ہوں۔ یہ مجھے نظر آرہا ہے کہ آپ نے ان کو نہیں جلایا۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ میں بے قصور ہوں لیکن میرا ضمیر یہ بات تسلیم نہیں کرتا۔ جب میں اس شہر میں موجود ہوں اور میں نے ان بے ضمیروں کے خلاف یا کم از کم ان مظلوموں کے حق میں ایک بھی قدم نہیں اٹھایا تو میں خود کو اس الزام سے بری کیسے قرار دے سکتا ہوں؟میں یہ کیسے مان لوں کہ آپ بے قصور ہیں۔بے حسی کی ایک بہت موٹی چادر ہے جس نے ہم لوگوں کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں۔ ہمیں دکھ اور کرب کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ موت ہمارے سروں پر ناچ رہی ہے اور ہم رقص و سرود کی محفلوں کا لطف اٹھار ہے ہیں ۔ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم بے قصور ہیں۔ چلئے مان لیا آپ بے قصور ہیں، لیکن کیا آپ دردِ دل بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟تھوڑی دیر کے لیے یہ بھول جائےے کہ آپ کی اپنی دنیا کی کوئی حقیقت ہے۔ ان کی دنیا میں بھی جھانک کر دیکھ لیجئے۔
جو لوگ آپ کو زندہ جلا رہے ہیں، ان کے خلاف نفرت کی آگ کو دل میں بھڑکنے دیجئے ۔ معاف کرنا اچھی بات ہے لیکن اس وقت آپ نے معاف کردیا تو آپ کی معافی کو آپ کی کمزوری سمجھا جائے گا۔ ظالموں کو معاف کرنا مظلوموں پر ظلم ہے۔ معاف مت کیجئے۔ کوئی راستہ نکالےے ۔ سوچئے ۔ کیا جس نے ان بد کرداروں کو ذہن دیا جس کے بل بوتے پر یہ آپ کے ساتھ اتنا ظلم کر رہے ہیں، اسی خدا نے آپ کو کچھ بھی نہیں دیا؟کیا آپ کے پاس سوچ نہیں ہے۔ کیا آ پ کے پاس دل نہیں ہے۔ جذبہ نہیں ہے۔ ایمان کی حرارت ختم ہوچکی ہے؟ خدارا اپنے ذہن اور خیال کو اس سمت میں چلنے دیجئے جس سمت میں چلنے سے آپ اسے خوف کی وجہ سے روکتے ہیں۔ موت کا خوف موت سے زیادہ خطرناک ہے۔ سوچئے آگ میں جل جانے کے تصور سے کتنے ہی لوگ لرز جاتے ہیں۔ وہ تو واقعی جل کر شہید ہو گئے ۔ ان کو شہید نہ کہاجائے تو اور کیا کہاجائے؟ ان کی زندگی کیسی تھی، ان سے پوچھتے توبتاتے۔
تم نے شاید کبھی دیکھی ہو مقدر کی چمک
زندگی ہم نے گزاری ہے قیامت کی طرح
لیکن اب تو زندگی کو آگ جیسی ہولناک چیز نے جلا کر ختم کردیا ۔ جن لوگوں کی قیامت ان کی زندگی میں ہوچکی، انہیں خدا اور کیا عذاب دے گا؟ ان کے سب گناہ دھل گئے۔ وہ پاک ہو گئے۔لیکن جو بچ گئے ہیں ان کا خیال رکھنے کے لیے آپ بچے ہیں اور اب آپ کو کوئی فیصلہ کرنا ہے۔ کوئی مثبت ، ٹھوس اور ہمدردانہ فیصلہ۔