میری پسند

نور وجدان

لائبریرین
گاؤں کے بے چراغ رستے میں
میلی چادر بچھا کے مٹی پر
یہ جو اندھے اداس دل والی
ایک پاگل دکھائی دیتی ہے
جس کی بے ربط گفتگو اکثر
بام و در کو سنائی دیتی ہے
جس کی آنکھوں میں رات ڈھلتی ہے
جس کی شہ رگ کے ڈھلتے موسم میں
زندگی کی تپش پگھلتی ہے
جم گئے جس کے خواب چہرے پر
جھریاں ہیں بے حساب چہرے پر

کانپتے ہاتھہ جن کے سائے سے
آخر شب دعا لرزتی ہے
جس کی اکھڑی اکھڑتی سانسوں سے
روز و شب کے بھنور گریزاں ہیں
بھوک جس کے لئے غذا جیسی
جس کے نزدیک پیاس پانی ہے

اس کو عبرت سے دیکھنے والو
اس کے بارے میں اپنے گاؤں کے
داستان گو بزرگ کہتے ہیں
یہ اکیلی اداس بنجارن
اب سے آدھی صدی سے اس جانب
روپ میں دھوپ سے بھی اجلی تھی
پھول کھلتے تھے جس کے آنگن میں
خوشبوؤں سے خراج لیتی تھی
اب سے آدھی صدی کے اس جانب
یہ اکیلی اداس بنجارن
اپنے گاؤں کی اپسراؤں میں

" خوبصورت ترین لڑکی تھی "

محسن نقوی
 

نور وجدان

لائبریرین
ﻋﺪﯾﻢ ﮬﺎﺷﻤﯽ
آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا
ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا
اتنے بڑے جہان میں جائے گا تو کہاں
اس اک خیال نے مجھے مرنے نہیں دیا
ساحل دکھائی دے تو رہا تھا بہت قریب
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا
جتنا سکوں ملا ہے ترے ساتھ راہ میں
اتنا سکون تو مجھے گھر نے نہیں دیا
اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا
4443
 

نور وجدان

لائبریرین
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی

سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے سیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی

دل کو چمک سکے گا کیا، پھر بھی ترش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی

اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھئیے، بات تھی کچہ محال بھی

مری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

اس کی سخن طرازیاں مرے لئے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی

گاہ قریب شاہ رگ، گاہ امید دائم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات، ہجر بھی تھا وصال بھی

اس کے بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہش پہ تھے روح کے اور جال بھی

شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار، کچھ تو مرا خیال بھی

شاعرہ: پروین شاکر۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا

میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی فریاد کرنے آ رہا ہے راستہ دینا

اجازت ہو تو کہ دوں قصۂ الفت سرِ محفل
مجھے کچھ تو فسانہ یاد ہے کچھ تم سنا دینا

میں مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرمِ محبت کا
مگر پہلے خطا پر غور کر لو پھر سزا دینا

قمرؔ وہ سب سے چھپ کر آ رہے ہیں فاتحہ پڑھنے
کہوں کس سے کہ میری شمعِ تربت کو بجھا دینا

قمر جلالوی
 

نور وجدان

لائبریرین
یاد

دشتِ تنہائی میں
اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے
تیرے ہونٹوں کے سَراب

دشتِ تنہائی میں
دُوری کے خس و خاک تلے
کِھل رہے ہیں
تیرے پہلُو کے سمن اور گلاب

اُٹھ رہی ہے کہیں قُربت سے
تیری سانس کی آنچ
اپنی خُوشبو میں
سُلگتی ہوئی مدھم مدھم

دُور اُفق پار
چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گِر رہی ہے تیری دلدار
نظر کی شبنم

اس قدر پیار سے
اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رُخسار پہ
اس وقت تیری یاد نے ہات

یُوں گُماں ہوتا ہے
گرچہ ہے ابھی صبحِ فراق
ڈھل گیا ہِجر کا دن
آ بھی گئی وصل کی رات

"فیض احمد فیض"
https://www.facebook.com/Innocent.l...7964/581545638631498/?type=1&relevant_count=1
 

نور وجدان

لائبریرین
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی !!!!!!

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میری تخلیق میرے فکر کی پہچان بھی ہے

میرے حرفوں ، میرے لفظوں میں ہے چہرہ میرا
میرا فن اب میرا مذہب ، میرا ایمان بھی ہے

میر و غالب نہ سہی ، پھر بھی غنیمت جانو
میرے یاروں کے سِرہانے میرا دیوان بھی ہے

مجھ سے پوچھو کہ شکستِ دل و جاں سے پہلے
میرے احساس پہ گزری ہے قیامت کیا کیا

سایہء دار و شبِ غم کی سخاوت سے الگ
میں نے سوچی قد و گیسو کی علامت کیا کیا

میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خرابوں سے پرے
میرے بکھرے ہوئے جذبے تھے سلامت کیا کیا

طنزِ اغیار سے احباب کے اخلاص تلک
میں نے ہر نعمتِ عظمیٰ کا لبادہ پہنا

دستِ قاتل کی کشش آپ گواہی دے گی
میں نے ہر زخم قبا سے بھی زیادہ پہنا

میری آنکھوں میں خراشیں تھیں دھنک کی لیکن
میری تصویر نے ملبوس تو سادہ پہنا

ضربتِ سنگِ ملامت میرے سینے پہ سجی
تمغہء جرّات و اعزازِ حکومت کی طرح

کُھل کے برسی میری سوچوں پہ عداوت کی گھٹا
آسمانوں سے اُترتی ہوئی دولت کی طرح

قریہ قریہ ہوئی رسوا میرے فن کی چاہت
کونے کونے میں بکھرتی ہوئی شہرت کی طرح

میرے آنگن میں حوادث کی سواری اُتری
میرا دل وجہء عذابِ در و دیوار ہوا

عشق میں عزّتِ سعادت بھلا کر اکثر
میر صاحب کی طرح میں بھی گناہ گار ہوا

اپنی اُجڑی ہوئی آنکھوں سے شعائیں لے کر
میں نے بجھتی ہوئی سوچوں کو جوانی دی ہے

اپنی غزلوں کے سُخن تاب ستارے چُن کر
سنگریزوں کو بھی آشفتہ بیانی دی ہے

حسنِ خاکِ رہِ یاراں سے محبت کر کے
میں نے ہر موڑ کو اِک تازہ کہانی دی ہے

مجھ سے روٹھے ہیں میرے اپنے قبیلے والے
میرے سینے میں ہر اِک تیرِ ستم ٹوٹا ہے

کربِ نا قدریء یاراں کہ بھنور میں گِھر کر
بارہا دل کی طرح شوق کا دم ٹوٹا ہے

میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
میں نے اس شہر کی چاہت سے شرف پایا ہے

میرے اعادہ کا غضب ابرِ کرم ہے مجھ کو
میرے احباب کی نفرت میرا سرمایہ ہے

مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی

میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
وسعتِ دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی

میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی !!!!

(محسن نقوی)
 

نور وجدان

لائبریرین
مکمل غزل

رہتے تھے پستیوں میں مگر خود پسند تھے
ہم لوگ اِس لحاظ سے کتنے بلند تھے

آخر کو سو گئی کھلی گلیوں میں چاندنی
کل شب تمام شہر کے دروازے بند تھے

گزرے تو ہنستے شہر کو نمناک کر گئے
جھونکے ہوائے شب کے بڑے درد مند تھے

موسم نے بال و پر تو سنوارے بہت مگر
اُڑتے کہاں کہ ہم تو اسیرِ کمند تھے

وہ ایک تو کہ ہم کو مٹا کر تھا مطمئن
وہ ایک ہم کے پھر بھی حریصِ گزند تھے

محسن ریا کے نام پہ ساتھی تھے بے شمار
جن میں تھا کچھ خلوص وہ دشمن بھی چند تھے

محسن نقوی
 

نور وجدان

لائبریرین
_ محسن نقوی

ہمارا کیا ہے، ہم تو چراغِ شب کی طرح
اگر جلے بھی تو بس اتنی روشنی ہو گی
کہ تند اندھیروں کی راہ میں جگنو
ذرا سی دیر کو چمکے، چمک کے کھو جائے
پھر اس کے بعد کسی کو نہ کچھ سجھائی دے۔
نہ شب کٹے نہ سراغِ‌سحر دکھائی دے۔

ہمارا کیا ہے کہ ہم تو پسِ غبارِ سفر
اگر چلے بھی تو بس اتنی راہ طے ہو گی
کہ جیسے تیز ہواؤں کی ذد میں نقشِ قدم
ذرا سی دیر کو اُبھرے، اُبھر کے مٹ جائے
پھر اس کے بعد نہ راستہ نہ راہ گزر ہی ملے۔
حدِ نگاہ تک دشتِ بے کنار ملے۔

ہماری سمت نہ دیکھو کہ کوئی دیر میں ہم
قبیلہء دل و جاں سے بچھڑنے والے ہیں
بسے بسے ہوئے شہر اپنی آنکھوں کے
مثالِ خانہء ویراں اُجڑنے والے ہیں۔
"ہوا کا شور یہی ہے تو دیکھتے رہنا!
ہماری عمر کے خیمے اُکھڑنے والے ہیں۔"

شاعر: محسن نقوی
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی!
اِس دشت میں اِک شہر تھا، وہ کیا ہُوا آوارگی!

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تُو کون ہے، اُس نے کہا ’’آوارگی‘‘

لوگو بھلا اُس شہر میں کیسے جیئیں گے ہم، جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا، آوارگی!

یہ درد کی تنہائیاں، یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے، اپنی سُنا آوارگی!

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا، ’’آوارگی‘‘

اُس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمانِ وفا
اِس سَمت لہروں کی دھمک، کچّا گھڑا، آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا ’’آوارگی‘‘

شاعر: محسن نقوی
 

نور وجدان

لائبریرین
آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا
کل شام میں تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا

مٹھی میں بند کیا ہوا بچوں کے کھیل میں
جگنو کے ساتھ اس کا اجالا بھی مر گیا

کچھ ہی برس کے بعد تو اس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ ڈر گیا

ایسا نہیں کہ غم نے بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے پہلے گزر گیا

لکھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
"مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا"

شاعر: قتیل شفائی
 

نور وجدان

لائبریرین
چلنے کا حوصلہ نہیں، رُ کنا محال کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروین شاکر
چلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا
عشق کے اس سفر نے تو ، مجھ کو نڈھال کردیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کردیا

اے میری گل زمیں تجھے، چاہ تھی ایک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامانِ یار منتظر
بانوِ شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کردیا

ممکناں فیصلوں میں ایک ہجر کا ایک فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے تو کمال کردیا

میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقف حال کردیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کردیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گِلا کیا
منسبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کردیا

پروین شاکر
 

نور وجدان

لائبریرین
نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
اُ دھر ایک حرف کے کشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اُڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا
 

نور وجدان

لائبریرین
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی، نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگاہ ہم پہ عدو کی ہے
صفِ زاہداں ہے تو بے یقیں، صفِ مے کشاں ہے تو بے طلب
نہ وہ صبح درود و وضو کی ہے، نہ وہ شام جام و سبو کی ہے
نہ یہ غم نیا، نہ ستم نیا، کہ تری جفا کا گلہ کریں
یہ نظرتھی پہلے بھی مضطرب، یہ کسک تو دل میں کبھو کی ہے
کفِ باغباں پہ بہارِ گل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر
کہ ہر ایک پھول کے پیرہن، میں نمود میرے لہو کی ہے
نہیں ‌خوفِ روزِ سیہ ہمیں، کہ ہے فیض ظرفِ نگاہ میں
ابھی گوشہ گیر وہ اک کرن، جو لگن اُس آئینہ رُو کی ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
شاعر : جمال احسانی
سلوکِ ناروا کا اس لئے شکوہ نہیں کرتا
کہ میں بھی تو کسی کی بات کی پروا نہیں کرتا

ترا اصرار سر آنکھوں پہ تجھ کو بھول جانے کی
میں کوشش کرکے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا

بہت ہشیار ہوں اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں
میں دل کی بات کو دیوار پر لکھا نہیں کرتا

اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا

زمیں پیروں سے کتنی بار اک دن میں نکلتی ہے
میں ایسے حادثوں پر دل مگر چھوٹا نہیں کرتا ۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
کبھی بھلا کے ، کبھی اُس کو یاد کر کے مجھے
جمال قرض چکانے ہیں عمر بھر کے مجھے

ابھی تو منزلِ جاناں سے کوسوں دور ہوں میں
ابھی تو راستے ہیں یاد اپنے گھر کے مجھے

جو لکھتا پھرتا ہے دیوار و در پہ نام مرا
بکھیر دے نہ کہیں حرف حرف کر کے مجھے

محبتوں کی بلندی پہ ہے یقین تو کوئی
گلے لگائے مری سطح پر اُتر کے مجھے

چراغ بن کے جلا جس کے واسطے اک عمر
چلا گیا وہ ہوا کے سُپرد کر کے مجھے
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

جمال اب تو یہی رہ گیا ہے پتہ اُسکا
بھلی سی شکل تھی اچھا سا نام تھا اُسکا

پھر ایک سایہ در و بام پر اُتر آیا
دل و نگاہ میں پھر ذکر چھڑ گیا اُسکا

کسے خبر تھی کہ یہ دن بھی دیکھنا ہوگا
اب اعتبار بھی دل کو نہیں رہا اُسکا

جو میرے ذکر پر اب قہقہے لگاتا ہے
بچھڑتے وقت کوئی حال دیکھتا اُسکا

مجھے تباہ کیا اور سب کی نظروں میں
وہ بے قصور رہا یہ کمال تھا اُسکا

سو کس سے کیجئےذکر نذاکتِ خدوخال
کوئی ملا ہی نہیں صورتِ آشنا اُسکا

جو سایہ سایہ شب و روز میرے ساتھ رہا
گلی گلی میں پتہ پوچھتا پھرا اُسکا

جمال اُسنے تو ٹھانی تھی عمر بھر کے لیے

یہ چار روز میں کیا حال ہوگیا اُسکا

جمال احسانی


÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
ناکامیوں سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا
ہم نے تیرے حصول کو مقصد بنالیا

جمال احسانی

جمال اب تو یہی رہ گیا ہے پتہ اُسکا

بھلی سی شکل تھی اچھا سا نام تھا اُسکا

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷


کوئی گزر گیا مجھ پر نگاہ کرتے ہوئے

جو بوجھ اپنے نہیں وہ بھی ڈھونے پڑتے ہیں
اس آب و خاک سے مجھ کو نباہ کرتے ہوئے

میں‌ چپ کھڑا ہوں یہاں اور گزرتا جاتا ہے
کوئی سوال، کوئی انتباہ کرتے ہوئے

جہانِ اجر و سزا میں بجز دل آزاری
میں سوچتا نہیں کوئی گناہ کرتے ہوئے

جو حرف چاہتا ہوں لکھ نہیں سکا اب تک
زمانہ ہوگیا کاغذ سیاہ کرتے ہوئے

دماغ نے کہاں مانی کبھی فقیر کی بات
یہ دل ڈرا تھا اسے بادشاہ کرتے ہوئے

جمال احسانی
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷





ہ شہر اپنے حریفوں سے ہارا تھوڑی ہے
یہ بات سب پہ مگر آشکارا تھوڑی ہے
ترا فراق بھی رزقِ حلال ہے مجھ کو
یہ پھل پرائے شجر سے اتارا تھوڑی ہے
جو عشق کرتا ہے چلتی ہوا سے لڑتا ہے
یہ جھگڑا صرف ہمارا تمھارا تھوڑی ہے
یہ لوگ تجھ سے ہمیں دور کر رہے ہیں مگر
ترے بغیر ہمارا گزارا تھوڑی ہے
جمال آج تو جانے کی مت کرو جلدی
کہ پھر نصیب یہ صحبت دوبارہ تھوڑی ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

شاعر : جمال احسانی

ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں
بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں

وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں
ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں

میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا
اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں

اب اپنے دوسرے پھیرے کے انتظار میں ہوں
جہاں جہاں مرے دشمن ہیں تاڑ آیا ہوں

میں اُس گلی میں گیا اور دل و نگاہ سمیت
جمال جیب میں جو کچھ تھا جھاڑ آیا ہوں

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
 

نور وجدان

لائبریرین
کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو
کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو

گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو

جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو

کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو

اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو

یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو

یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو

اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو

محسن نقوی
 
Top