محمد شمیل قریشی
محفلین
یہ نظم میں نے ایک بت پرست سے خدا کی تعریف میں لکھی ہے ۔
تیری ذِلت منشاِ ذِلت بنی
مُجھ کو ذِلت سے بِہروباراں مِل گیا
جِس کا سُونتے جبیں سجدہ کرتے گئی
مُجھ کو مالِک وہ دو جہاں مِل گیا
تُو نے سُننے سُنانے میں جو کھو دیا
مُجھ کو حق و صداقت وہ سب مِل گیا
تُو نے ہر خِشت کو یوں ہی سجدے کِئے
یہ تصور ِ بُتاں تُجھ سے رَل مِل گیا
اے غافِل ذرا بانگِ قُدرت تو سُن
جِس نے چاہا تھا جو اُس کو وہ مِل گیا
تیری ذِلت منشاِ ذِلت بنی
مُجھ کو ذِلت سے بِہروباراں مِل گیا
جِس کا سُونتے جبیں سجدہ کرتے گئی
مُجھ کو مالِک وہ دو جہاں مِل گیا
تُو نے سُننے سُنانے میں جو کھو دیا
مُجھ کو حق و صداقت وہ سب مِل گیا
تُو نے ہر خِشت کو یوں ہی سجدے کِئے
یہ تصور ِ بُتاں تُجھ سے رَل مِل گیا
اے غافِل ذرا بانگِ قُدرت تو سُن
جِس نے چاہا تھا جو اُس کو وہ مِل گیا