میری پہلی سائیکل

محمدظہیر

محفلین

میں شروع سے شرارتی ہونے کے علاوہ بہت ضدی واقع ہوا ہوں ۔ بچپن میں ضد میرے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ، مجھے پال پوس کر بڑا کرنے میں والدین نے کتنی صبر اور استقامت سے کام لیا ہوگا۔ گوکہ بچپن کے کئی واقعات مجھے ابھی تک یاد ہیں، لیکن آج جو واقعہ لکھ رہا ہوں، وہ نہ صرف ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے بلکہ کئی دفعہ سوچ کر ہنسی بھی آتی ہے کہ میں کتنا ضدی تھا ۔
یہ غالباً اس وقت کی بات ہے جب میں دوم جماعت کا طالب علم تھا۔میرے گھر کے سامنے کی سڑک کے اُس پار ایک گھر ہے جہاں دو بھائی بہن رہتے تھے۔ چھوٹے بھائی کا نا م ذیشان تھا اور بڑی بہن کا نام پتا نہیں کیا تھا لیکن اس کے گھر والے اسے تشو کہ کر مخاطب ہوتے تھے۔ تشو میرے بڑے بھائی کی کلاس میٹ تھی اور مجھ سے غالباً دو سال بڑی تھی۔ ذیشان مجھ سے عمر میں چھوٹا تھا لیکن محلے میں زیادہ بچے نہیں تھے اس لیے ہم سب مل کر وقت گزارتے تھے ۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ روز کی طرح ، اسکول سے گھر لوٹ کر منہ ہاتھ دھو لیا اور کھانا کھا کر محلے کے دوستوں سے ملنے نکلا ۔ ذیشان محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔ میں بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔ اس کی بڑی بہن کو اسکول سے واپس آ تی دیکھ کر میں نے ذیشان سے پوچھا ، تمہاری بہن اتنا بن سنور کر کیوں گئی تھی اسکول ؟ اس نے کہا کہ آج دی دی کا برتھ ڈے ہے ۔ میں نے زیادہ توجہ نہیں دی اور ہم کھیلنے میں مصروف رہے ۔ کچھ دیر بعد ذیشان کی بڑی بہن خوشی خوشی بائی سائیکل چلاتی ہوئی گھر سے نکلی۔سائیکل بالکل نئی لگ رہی تھی جیسے ابھی خرید کر لایا ہو۔ مجھے بہت تعجب ہوا کہ ہمیشہ پیدل چلنے والی آج سائیکل لیے گھوم رہی ہے۔ تشو سائیکل چلا تی ہوئی ہمارے قریب آگئی ۔ میرے پاس سائیکل نہیں تھی۔ دراصل مجھے اب تک سائیکل کی خواہش نہیں ہوئی تھی، گوکہ گھر سے ہر خواہش ضد کر کے پوری کر لیتا تھا۔ میں نے ابھی کچھ کہا بھی نہیں تھا کہ تشو نے خود کہہ دیا ، 'آج میرے ڈیڈی نے مجھے برتھ ڈے پر سائیکل تحفے میں دی ہے'۔ ۔ میں اس کی بات سن کر چپ رہا ۔ تشو وہیں سائیکل چلاتی رہی ، اسے سائیکل چلاتا دیکھ کر میرے دل میں بھی سائیکل کی خواہش پیدا ہوئی۔شروع سے والدہ نے میری ہر خواہش پوری کی تھی۔ میں نے عزم کر لیا کہ آج میں بھی اپنی سائیکل لوں گا۔
میں فوراً وہاں سے گھر چلا گیا۔ والدہ کسی خاتون سے بات کرتی ہوئی گیٹ کے پاس کھڑی تھی۔ میں نے جاکر والدہ سے کہا، تشو کی سالگرہ پر اسے تحفے میں سائیکل ملی ہے ، مجھے بھی نئی سائیکل چاہیے۔والدہ حیران ہوئی کہ اچانک مجھے سائیکل چلانے کا بھوت کیوں چڑ گیا ۔ میں نے صاف سیدھا کہ دیا ، تشو نے آج نئی سائیکل لی ہے مجھے بھی چاہیے۔ والدہ نے کہا ، تشو عمر میں مجھ سے بڑی ہے اور اس کا برتھ ڈے ہے اس لیے اسے سائیکل تحفے میں ملی ہوگی ۔ جب تمہاری سالگرہ آئے گی تو تم بھی نئی سائیکل لے لو۔ میں نے کہا ، مجھے آج ہی سائیکل چاہیے نہیں ملی تو میں گھر میں قدم نہیں رکھوں گا۔
والدہ نے شاید سوچا ہوگا کہ کچھ دیر میں بھول جاؤں گا اس لیے مجھے گھر میں آنے کے لیے کہ کر اندر چلی گئی۔ میں گھر کے باہر کھڑا وہیں رونا شروع کیا۔ ہر کوئی آتا جاتا دیکھتا جا رہا تھا اور محلے کے کئی بچے میرے آس پاس جمع ہوئے تھے۔ کسی نے والدہ کو اطلاع دی کہ میں بہت دیر سے باہر کھڑا رو رہا ہوں ۔ حالت خراب ہوگئی تھی میری روتے روتے۔ کئی لوگوں نے مجھے پکڑ کر گھر لے جانے کی کوشش کی لیکن کسی کے ہاتھ نہیں آیا۔ رضا بھائی پڑوسی میرے انکار کے باوجود زبردستی گود میں اٹھا کر میرے گھر لے جا رہے تھے، میں نے غصے میں ان کے گال پر زور دار تمانچہ رسید کر دیا ۔ انہوں نے مجھے وہیں چھوڑ دیا اور خاموشی سے چلے گئے۔
قریب دو گھنٹوں تک وہیں کھڑا روتا رہا ۔ مغرب کا وقت ہوگیا تھا۔ اتنے میں والد صاحب دفتر سے گھر آگئے ۔ والدہ نے پورا قصہ والد صاحب کو سنا دیا ۔ میرے پاپا کو معلوم تھا میں کسی چیز کی ضد کروں تو حاصل کیے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ انہوں نے مجھے نماز چلنے کو کہا۔ میں نہیں گیا۔ وہ مغرب کی نماز پڑھ کر آئے ۔ مجھے دیکھ کر گیٹ کھولا اور کار نکالی ۔ کار چلاتے ہوئے میرے پاس لے آئے اور کہا ، آؤ بیٹھ جاؤ تمہاری سائیکل لے آتے ہیں۔ میرے چہرے پر بکھرے آنسو خوشی میں تبدیل ہوگئے ۔ میں جلدی سے کار میں بیٹھ گیا ۔ ہم سائیکل کی دکان پہنچ گئے ۔میں نے ایک سائیکل پسند کرلی۔ کار کے پیچھے حصے میں سائیکل رکھ کر گھر لے آئے ۔ یوں کسی اور کی سالگرہ پر میں نے تحفہ لے لیا!

 
مدیر کی آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
اگر آپ کے والدین پاس ہیں تو ان کے پاؤں دھو دھو کر پیا کریں کہ ہم لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ والدین کیا چیز ہوتے ہیں۔۔۔ اللہ عزوجل اپنے اور اپنے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ اطیعواللہ واطیعوالرسول ۔ کہ اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ لیکن والدین کے لئے فرماتا ہے کہ وباالوالدین احسانا۔ کہ والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو۔۔۔ اب احسان کیا ہوتا ہے یہ مجھ جیسا ناچیز کیا بتائے۔۔۔:)
 
رضا بھائی کے کان تو آپ نے بچپن میں ہی لال کر دیے اس کے بعد تو رضا صاحب دور دور ہی رہے ہوں گے آپ سے ساری زندگی مجھے بھی گلی میں سائیکل چلانا بہت اچھا لگتا تھا چھوٹے بھائی کی سائیکل زیادہ تر میرے ہی قبضے میں رہتی تھی...:laugh::laugh::laugh:
 

زیک

مسافر
رضا بھائی کے کان تو آپ نے بچپن میں ہی لال کر دیے اس کے بعد تو رضا صاحب دور دور ہی رہے ہوں گے آپ سے ساری زندگی مجھے بھی گلی میں سائیکل چلانا بہت اچھا لگتا تھا چھوٹے بھائی کی سائیکل زیادہ تر میرے ہی قبضے میں رہتی تھی...:laugh::laugh::laugh:
پہلے آپ کے چھوٹے بھائی پر ترس آیا مگر پھر غور کیا کہ اس کو سائیکل لے کر دی گئی جبکہ آپ کو نہیں لہذا ترس کی ضرورت نہیں۔
 
پہلے آپ کے چھوٹے بھائی پر ترس آیا مگر پھر غور کیا کہ اس کو سائیکل لے کر دی گئی جبکہ آپ کو نہیں لہذا ترس کی ضرورت نہیں۔
اس کو یہ کہ کر گلی میں کھڑا رکھتی دیکھو میں کیسے چلاتی ہوں آپ بس دیکھو مجھے پھر آپ کو چلانا سکھاتی ہوں جب اپنا شوق پورا ہو جاتا تو اس کو کہتی چلو بیٹھو سائیکل پر اور پیچھے سے پکڑ کر ایک چکر لگوا دیتی تھی:heehee:
 

محمدظہیر

محفلین
بظاہر آخر کا دو لائن کا والد کا تذکرہ پوری روداد پر بھاری ہے. باپ کی شفقت اور قربانیوں کا اندازہ بڑے ہو کر ہی ہوتا ہے.
تابش بھائی ممنون ہوں
واقعی میں اپنے والدین کی جتنی تعریف کروں کم ہے ۔ اللہ میرے اوپر ان کا سایہ برقرار رکھے۔
 

محمدظہیر

محفلین
اگر آپ کے والدین پاس ہیں تو ان کے پاؤں دھو دھو کر پیا کریں کہ ہم لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ والدین کیا چیز ہوتے ہیں۔۔۔ اللہ عزوجل اپنے اور اپنے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ اطیعواللہ واطیعوالرسول ۔ کہ اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ لیکن والدین کے لئے فرماتا ہے کہ وباالوالدین احسانا۔ کہ والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو۔۔۔ اب احسان کیا ہوتا ہے یہ مجھ جیسا ناچیز کیا بتائے۔۔۔:)
جزاک اللہ بھائی ۔۔ آپ کی بات بالکل درست ہے۔
 
Top