میری کل کی ڈائری سے ایک ورق۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ جیسے جو ہونا تھا وہ نہ ہو کر بھی کچھ اور ہی ہونا ہوتا گیا۔ اتنی الجھنیں اور اس سے نیند کا نہ آنا۔ رات تین بجے تک کروٹیں بدلتے رہے۔اور اس ہونے اور نہ ہونے کے درمیان خود پر ہی جھلاتے رہے۔

رہ رہ کر روم پارٹنر کے خراٹے کی کریہ آواز اور پھر اوپر سے مچھروں کی یلغار۔

پھر سوچا کہ اس کم بخت نیند کو بھی ابھی ہی سیر کو جانا تھا۔ارے جب جانا ہی تھا تو ہمیں بھی ساتھ ہی لے جاتے۔پھر خود پرلعنت بھیجی اور خدا سے فریاد کی ۔خدایا !نیند کا کچھ توبندوبست کرکہ تجھ پر ہی بھروسہ ہے۔

صبح کو جب آنکھ کھلی تو دیکھا الارم میاں اپنی بندوق تانے ہمارے سر پر کھڑے ہیں۔ان کی طرف دیکھ کر خود پر جھلا یااور خود کو دھکا دیتے ہوئے روزمرہ کے کاموں کو چل دئے۔

دماغ کا پڑھا لکھا ہونا بھی عجیب بیماری ہے۔ آپ نہ سوچنا چاہیں پھر بھی سوچیں گے کہ آپ ساری دنیا کو اپنے سر پر اٹھائے رات کو ہی کیوں نکلتے ہیں۔جیسے ان تمام الجھنوں کو حل کرنے کی ڈیوٹی پر ہوں۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں خود کون ہوں؟ اس اقتصادی سیکورٹی اور اپنے فرائض کے درمیان جھولتا ہوا۔ یا خود کے ہونے کو ثابت کرنے کی جدوجہد میں لگا ہوا۔ یا انہیں نشان قدم پر چلتا ہوا کہ جس پر چل کر آدمی نہ جانے کہاں کو چلتا چلا جاتا ہے، خود بھی نہیں پتہ ۔



نیلم

محمد بلال اعظم

سیدہ شگفتہ

تعبیر

قیصرانی

مہ جبین

زبیر مرزا

تلمیذ

حسان خان

نیرنگ خیال

شمشاد

باباجی

انیس الرحمن

عائشہ عزیز

عاطف بٹ

عسکری

ملائکہ

محسن وقار علی

ابن سعید

عینی شاہ

کاشف عمران

حسیب نذیر گل

مقدس

الف عین

منیب احمد فاتح

محمد خلیل الرحمٰن

محمد یعقوب آسی

محمداحمد

عبدالروف اعوان

انجم خان
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب سوچ و خیال
اس کو ذرا مزید " آوارگی " میں مبتلا ہونے دیں ۔ پھر دیکھیں کیا خوب " فلسفہ حقیقت " جنم لیتا ہے ۔
خود پر لعنت ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ سے صرف نظر کرتے اک اچھی " بے ربط" تحریر جو " ربط " تلاشنے پر ابھارتی ہے ۔۔۔۔۔
 
Top