بحر -- فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فاعلن÷فاعلان
میرے آنسو تری آنکھوں سے نکلتے جاتے ہیں
لگتا ہے جیسے مرے درد پگلتے جاتے ہیں
عشق کی اس رہ میں کاٹی ہے مسافت ہم نے اتنی
کھا کھا کے ٹھوکریں ہم اب تو سنبھلتے جاتے ہیں
ہوئی ہے جب سے خبر ان کو طلب ہے بوسے کی
سن کہ یہ بات وہ تو ہم پہ برستے جاتے ہیں
ان کے آنے کی خبر ہوئی ہے جب سے، تب سے یہ
سن کہ ارمان مرے دل میں مچلتے جاتے ہیں
اس کو پانا ہی مقدر میں نہیں تھااپنے شام
دیکھ کے خواب ہی کچھ دیر بہلتے جاتے ہیں