فلک شیر
محفلین
ہدایت علی صاحب، شاید یہی نام تھا ان کا..... گورے چٹے، ڈھلتی عمر، دبتا قد، سر پہ کم ہوتے ،لیکن بھنوؤں اور کانوں کی لو پہ بھرواں بال، متانت آشنا چہرہ اور گٹھا ہوا جسم....پہلے دوسرے درجہ میں میرے آبائی قصبہ ورپال چٹھہ کے یہ پہلے بزرگ میرے حافظہ میں استاد کا نام سن کر ابھرتے ہیں۔ سادہ لباس کے باوجود شخصیت بارعب ... کچھ ان کی چال کا بھی اثر تھا شاید، جو تیزی کی طرف مائل ہوتے ہوئے بھی باوقار تھی۔ غالبًا سرکاری مدرسہ میں میری تعلیم کے گھنٹوں کو کم جان کر انہیں گھر آ کر مجھے پڑھانے کی درخواست کی گئی تھی ۔ ہماری چھوٹی سی بیٹھک میں وہ اردو قاعدہ اور پہاڑے وغیرہ مجھے سکھایا کرتے اور خط سیدھا کرنے میں مدد بھی فرماتے۔ ان کے لیے چائے کے نام پر دودھ پتی اور دیگر لوازمات پیش کیے جاتے ۔ میں ان کے آنے اور جلد جانے کی دعائیں کیا کرتا۔ مارتے نہیں تھے، شفیق سے بزرگ تھے۔ ان کے بھائی بند اڈے پر کسی قسم کی دکان کرتے تھے، ایک دن میں نے گھومتے پھرتے انہیں وہاں دیکھ لیا اور سوچتا رہا کہ ہدایت صاحب کا دکان پہ کیا کام، وہ تو استاد ہیں۔ کیا خبر تھی کہ آتے دنوں میں حالات کا جبر ایسا ہو گا ....کہ ہر استاد کو دکان پہ بیٹھا دیکھوں گا، خود کو بھی۔
ورپال چٹھہ میں سرکاری سکول کے تیسرے درجہ میں تھا، کہ دادا کا بنایا آبائی گھر چھوڑنا پڑا، وہ دادا کے تین شادی شدہ بیٹوں کے لیے چھوٹا پڑ گیا تھا....وہ چھوٹے پڑ ہی جاتے ہیں، وجوہات معلوم ہوتے ہوئے بھی دل کو مقبول نہیں ہوتیں، بالخصوص بعد کے سالوں میں۔علی پور چٹھہ، والد صاحب لڑکوں کے ہائی سکول میں پڑھاتے تھے، سو وہیں ہجرت ہوئی اور حیدری چوک میں اڈے والے سکول کے عرف سے مشہور مڈل سکول میں داخلہ ملا۔ وہاں میرے کلاس انچارج ہوئے...شبیر شاہ صاحب... ریٹائرمنٹ سے دو تین سال ہی اُرے ہوں گے تب۔ مناسب قامت، برصغیری رنگت، اکہرا وجود، سر بالوں اور طبیعت سختی سے قریب قریب خالی۔ چشمہ لگاتے تھے اور شہر بھر میں انگریزی سوٹ ڈانٹے اکیلے ہی دکھائی دیتے تھے۔ قلم گھڑتے گھڑتےاور ہماری نالائقیاں برداشت کرتے کرتے...ذرا نہ تھکتے۔ بس پیرِ سیر چشم کی طرح چشمے کنارے بیٹھے ڈول کے ڈول کھینچتے اور ہم ناہنجاروں میں بانٹا کرتے۔ نفاست اور شرافت کچھ انہی لوگوں کا خاصہ تھی۔ جیتے ہیں ابھی اور بھلے چنگے ہیں....خدا انہیں ایسا ہی رکھے۔
علی پور ، اسی اڈے والے سکول میں، یاد پڑتا ہے کہ چغتہ صاحب ہمارے انچارج تھے، قریب الریٹائرمنٹ بزرگ تھے۔ ان کی مدد کے لیے ایک باڈی بلڈر بٹ صاحب درآمد کیے گئے، نام ان کا بھولتا ہوں... ظاہر ہے دوسروں کی نرمی کا دف مارنے کے لیے ان کی سختی سے کام لیا جانا تھا۔ ظہور الٰہی ہمارے مانیٹر تھے، خوبصورت خط اور حلیم الطبع، آج بھی علی پور کی عمارتوں کو اپنے قلم اور تعمیراتی مہارت سے جمال بخشتے ہیں... انہوں نے ہمیں حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنے میں کسر نہ چھوڑی، مگر قومیں تو نبیوں کی نہیں مانا کرتیں، یہ تو ظہور الٰہی تھے ۔ بٹ صاحب موصوف شام کو کسرت کرتے اور دن میں ہماری مالش۔ میں تو پہلے دن کے مناظر سے ہی تائب ہو گیا اور شام اندھیرے تک کتابیں لے کر بیٹھا رہا، کہ اگلی صبح عتابِ یار مجھ ناچیز پہ نہ ہو جائے۔ روزانہ کلاس میں وہ مناظر دیکھنے کو ملتے کہ بڑے بڑے دلاوروں کا پتا پانی ہونے لگتا۔ بٹ صاحب جس سے بہت زیادہ "محبت" فرماتے، اسے سکول کے سامنے نکڑ پہ پھل فروش سے جوس منگوا کر اس کی طبیعت آئندہ سیشن کے لیے بحال کرنے میں مدد بھی دیتے۔ یاد پڑتا ہے کہ میں نے یہ حالات قبلہ والد صاحب سے ذکر کیے، جنہوں نے فرمایا کہ وہ بٹ صاحب ان کے شاگرد ہیں۔ ایک دن وہ مجھے ساتھ لے کر بٹ صاحب سے ملے، انہوں نے برخوردارانہ انداز میں والد صاحب سے باہمی دلچسپی کے امور پہ گفتگو فرمائی اور یوں میری جان میں کچھ جان آئی۔ والد صاحب نے میری باڈی بلڈنگ کے سامان میں دلچسپی (حیرت ہے) کا ذکر ان سے کیا۔ بٹ صاحب نے والد صاحب سے کہا کہ جو سامان اس کا دل چاہے، ان کے جمنیزیم سےاٹھا لے جائے، البتہ اگر یہ اپنا بستہ ہی اٹھا کر سکول آنے جانے کی مشق کرے، تو اس کے لیے کافی ہے، والد صاحب نے بھی ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ میں اسی پہ خوش تھا کہ فریقین کے ان مذاکرات کا نتیجہ کمرہ جماعت میں میری جان بخشی کی صورت میں نکلے گا۔ بہرحال بٹ صاحب موصوف نے جان مار کر محنت کروانے کی کوشش کی اور میرے ہم جماعت احباب نے بھی ان سے"فیض رسانی" میں کوتاہی نہ برتی ۔ پنجم کا وظیفے کا امتحان وزیر آباد میں ہوا، ایک ہی دن میں چار پانچ پرچے...اور پھر پنجم میں میرا وظیفہ لگ ہی گیا، جو میرے جیسے لاپروا سے طالب علم کے لیے بڑی بات تھی۔ مجھے ان کا نام یاد نہیں، شبیہ ذہن میں گھومتی ہے، یقیناً انہوں نے پوری نیک نیتی سے ہمارے روایتی اسالیب میں سے ایک یعنی 'سختی کے ذریعے سکھانا' ، کے ذریعے ہماری بھلائی چاہی تھی، میں ان کا شکرگزار ہوں اور دعا گو بھی۔ جہاں ہوں، دھڑلے سے جییں اور محبتیں سمیٹیں۔ہر سخت چہرے کے پیچھے ایک انسانی دل تو ہوتا ہی ہے، یقیناً وہ بھی ایسے ہی تھے، یہ الگ بات ہے کہ غالب تاثر کسی کا ایک قائم ہو جاتا ہے۔ چغتہ صاحب دار فانی سے کوچ فرما گئے، حق مغفرت اور راحت رسانی کرے۔
#میرےاساتذہ #یوم_اساتذہ #teachersday
ورپال چٹھہ میں سرکاری سکول کے تیسرے درجہ میں تھا، کہ دادا کا بنایا آبائی گھر چھوڑنا پڑا، وہ دادا کے تین شادی شدہ بیٹوں کے لیے چھوٹا پڑ گیا تھا....وہ چھوٹے پڑ ہی جاتے ہیں، وجوہات معلوم ہوتے ہوئے بھی دل کو مقبول نہیں ہوتیں، بالخصوص بعد کے سالوں میں۔علی پور چٹھہ، والد صاحب لڑکوں کے ہائی سکول میں پڑھاتے تھے، سو وہیں ہجرت ہوئی اور حیدری چوک میں اڈے والے سکول کے عرف سے مشہور مڈل سکول میں داخلہ ملا۔ وہاں میرے کلاس انچارج ہوئے...شبیر شاہ صاحب... ریٹائرمنٹ سے دو تین سال ہی اُرے ہوں گے تب۔ مناسب قامت، برصغیری رنگت، اکہرا وجود، سر بالوں اور طبیعت سختی سے قریب قریب خالی۔ چشمہ لگاتے تھے اور شہر بھر میں انگریزی سوٹ ڈانٹے اکیلے ہی دکھائی دیتے تھے۔ قلم گھڑتے گھڑتےاور ہماری نالائقیاں برداشت کرتے کرتے...ذرا نہ تھکتے۔ بس پیرِ سیر چشم کی طرح چشمے کنارے بیٹھے ڈول کے ڈول کھینچتے اور ہم ناہنجاروں میں بانٹا کرتے۔ نفاست اور شرافت کچھ انہی لوگوں کا خاصہ تھی۔ جیتے ہیں ابھی اور بھلے چنگے ہیں....خدا انہیں ایسا ہی رکھے۔
علی پور ، اسی اڈے والے سکول میں، یاد پڑتا ہے کہ چغتہ صاحب ہمارے انچارج تھے، قریب الریٹائرمنٹ بزرگ تھے۔ ان کی مدد کے لیے ایک باڈی بلڈر بٹ صاحب درآمد کیے گئے، نام ان کا بھولتا ہوں... ظاہر ہے دوسروں کی نرمی کا دف مارنے کے لیے ان کی سختی سے کام لیا جانا تھا۔ ظہور الٰہی ہمارے مانیٹر تھے، خوبصورت خط اور حلیم الطبع، آج بھی علی پور کی عمارتوں کو اپنے قلم اور تعمیراتی مہارت سے جمال بخشتے ہیں... انہوں نے ہمیں حالات کی سنگینی سے آگاہ کرنے میں کسر نہ چھوڑی، مگر قومیں تو نبیوں کی نہیں مانا کرتیں، یہ تو ظہور الٰہی تھے ۔ بٹ صاحب موصوف شام کو کسرت کرتے اور دن میں ہماری مالش۔ میں تو پہلے دن کے مناظر سے ہی تائب ہو گیا اور شام اندھیرے تک کتابیں لے کر بیٹھا رہا، کہ اگلی صبح عتابِ یار مجھ ناچیز پہ نہ ہو جائے۔ روزانہ کلاس میں وہ مناظر دیکھنے کو ملتے کہ بڑے بڑے دلاوروں کا پتا پانی ہونے لگتا۔ بٹ صاحب جس سے بہت زیادہ "محبت" فرماتے، اسے سکول کے سامنے نکڑ پہ پھل فروش سے جوس منگوا کر اس کی طبیعت آئندہ سیشن کے لیے بحال کرنے میں مدد بھی دیتے۔ یاد پڑتا ہے کہ میں نے یہ حالات قبلہ والد صاحب سے ذکر کیے، جنہوں نے فرمایا کہ وہ بٹ صاحب ان کے شاگرد ہیں۔ ایک دن وہ مجھے ساتھ لے کر بٹ صاحب سے ملے، انہوں نے برخوردارانہ انداز میں والد صاحب سے باہمی دلچسپی کے امور پہ گفتگو فرمائی اور یوں میری جان میں کچھ جان آئی۔ والد صاحب نے میری باڈی بلڈنگ کے سامان میں دلچسپی (حیرت ہے) کا ذکر ان سے کیا۔ بٹ صاحب نے والد صاحب سے کہا کہ جو سامان اس کا دل چاہے، ان کے جمنیزیم سےاٹھا لے جائے، البتہ اگر یہ اپنا بستہ ہی اٹھا کر سکول آنے جانے کی مشق کرے، تو اس کے لیے کافی ہے، والد صاحب نے بھی ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ میں اسی پہ خوش تھا کہ فریقین کے ان مذاکرات کا نتیجہ کمرہ جماعت میں میری جان بخشی کی صورت میں نکلے گا۔ بہرحال بٹ صاحب موصوف نے جان مار کر محنت کروانے کی کوشش کی اور میرے ہم جماعت احباب نے بھی ان سے"فیض رسانی" میں کوتاہی نہ برتی ۔ پنجم کا وظیفے کا امتحان وزیر آباد میں ہوا، ایک ہی دن میں چار پانچ پرچے...اور پھر پنجم میں میرا وظیفہ لگ ہی گیا، جو میرے جیسے لاپروا سے طالب علم کے لیے بڑی بات تھی۔ مجھے ان کا نام یاد نہیں، شبیہ ذہن میں گھومتی ہے، یقیناً انہوں نے پوری نیک نیتی سے ہمارے روایتی اسالیب میں سے ایک یعنی 'سختی کے ذریعے سکھانا' ، کے ذریعے ہماری بھلائی چاہی تھی، میں ان کا شکرگزار ہوں اور دعا گو بھی۔ جہاں ہوں، دھڑلے سے جییں اور محبتیں سمیٹیں۔ہر سخت چہرے کے پیچھے ایک انسانی دل تو ہوتا ہی ہے، یقیناً وہ بھی ایسے ہی تھے، یہ الگ بات ہے کہ غالب تاثر کسی کا ایک قائم ہو جاتا ہے۔ چغتہ صاحب دار فانی سے کوچ فرما گئے، حق مغفرت اور راحت رسانی کرے۔
#میرےاساتذہ #یوم_اساتذہ #teachersday