میرے اطراف میں اک آگ کا دریا پایا

شوکت پرویز

محفلین
میرے اطراف میں اک آگ کا دریا پایا
جب بھی پایا مجھے حالات سے لڑتا پایا

ذہن کو اپنے کروڑوں سے بھی اعلیٰ پایا
لیکن اس دل سے ہمیشہ اسے ہارا پایا

زندگی کے سبھی پنّوں پہ سفر لکھّا تھا
اُس پہ رستوں کو بھی پُرخار ہمیشا پایا

ایک بجھتا سا چراغ اور مِری جاں بَلَبی
دیکھ لے موت نے گھر میں مِرے کیا کیا پایا

دشمن و دوست میں اب فرق کریں بھی کیسے
آستینوں میں یہاں سانپ کو پلتا پایا

دل مِرا غم کی سیہ شب کا مسافر تھا مگر
رخ پہ مسکان کے سورج کو چمکتا پایا

کیسی دنیا ہے کہ دنیا کے لئے مرتی ہے
مَیں نے اس کو تو بس اک کھیل تماشا پایا

اپنے دل پر کئی زخموں کے نشاں پائے ہیں
اس کی نظروں کا بہت ٹھیک نشانا پایا

مجھ سے مت پوچھ صنم! کیا ہے وفا کا حاصل
تُو سنا اپنی، کہ مَیں نے تو جو پایا، پایا

(شوکت پرویز)
 
اچھی غزل ہے شوکت بھائی۔
یہ سمجھ نہیں آیا کہ یہاں:
میرے اطراف میں اک آگ کا دریا پایا
کہ یہ خطاب آخر کس سے کیا جا رہا ہے؟ خود پایا؟ یا کسی اور نے پایا؟
اور ساتھ ہی:
اُس پہ رستوں کو بھی پُرخار ہمیشا پایا
ہمیشا ؟ یا ہمیشہ ؟
اس کی نظروں کا بہت ٹھیک نشانا پایا
نشانا؟ یا نشانہ؟
 
اپنے دل پر کئی زخموں کے نشاں پائے ہیں
اس کی نظروں کا بہت ٹھیک نشانا پایا
یہاں بھی ابلاغ کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ کئی زخم۔۔ تو کیا سب "اس" کے دیے ہوئے تھے؟ لیکن اس کا اشارہ تو کہیں موجود نہیں ہے۔

زندگی کے سبھی پنّوں پہ سفر لکھّا تھا
یہاں لفظ "پنّوں " کچھ مناسب نہیں لگ رہا۔ ہندی لفظ سے یہاں اجتناب کیا جا سکتا ہے۔

امید ہے اس دخل در (نا) معقولات کو گوارا کریں گے۔ ہم بھی طالب علم ہیں اور سیکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
کاشف کی بات سے متفق ہوں مطلع کی حد تک۔ اس کے علاوہ پنوں ہی نہیں مسکان سے بھی بچا جا سکتا تھا۔
کاشف اسرار احمد،قافئے کے لحاظ سے املا کی تبدیلی جائز ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
داد و تحسین کے گل حاضرِ خدمت ہیں جناب
اس غزل کے سبھی شعروں کو مہکتا پایا:rose::rose::rose::rose:
 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
شکریہ ابن رضا بھائی!
آپ کا اندازِ تحسین بھی مہکتا ہوا ہے۔
۔۔۔
مجھے لگتا ہے کہ پہلے مصرع کے آخری میں جو "جی" ہے، اس کی جگہ "جناب" کرنے سے بہتر ہو سکتا ہے۔ :)
۔۔۔
مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ نے اصلاح کے لئے نہیں بلکہ برجستہ توصیفی شعر لکھا ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے اسے لکھ دیا، کہ شاید اصلاحِ سخن کے طلباء کے کام آ جائے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
شکریہ ابن رضا بھائی!
آپ کا اندازِ تحسین بھی مہکتا ہوا ہے۔
۔۔۔
مجھے لگتا ہے کہ پہلے مصرع کے آخری میں جو "جی" ہے، اس کی جگہ "جناب" کرنے سے بہتر ہو سکتا ہے۔ :)
۔۔۔
مجھے معلوم ہے کہ یہ آپ نے اصلاح کے لئے نہیں بلکہ برجستہ توصیفی شعر لکھا ہے۔ لیکن پھر بھی میں نے اسے لکھ دیا، کہ شاید اصلاحِ سخن کے طلباء کے کام آ جائے۔
محل تو جناب کا ہی ہے شوکت بھائی مگر وزن اجازت نہیں دیتا۔:)
 
Top