شوکت پرویز
محفلین
میرے اطراف میں اک آگ کا دریا پایا
جب بھی پایا مجھے حالات سے لڑتا پایا
ذہن کو اپنے کروڑوں سے بھی اعلیٰ پایا
لیکن اس دل سے ہمیشہ اسے ہارا پایا
زندگی کے سبھی پنّوں پہ سفر لکھّا تھا
اُس پہ رستوں کو بھی پُرخار ہمیشا پایا
ایک بجھتا سا چراغ اور مِری جاں بَلَبی
دیکھ لے موت نے گھر میں مِرے کیا کیا پایا
دشمن و دوست میں اب فرق کریں بھی کیسے
آستینوں میں یہاں سانپ کو پلتا پایا
دل مِرا غم کی سیہ شب کا مسافر تھا مگر
رخ پہ مسکان کے سورج کو چمکتا پایا
کیسی دنیا ہے کہ دنیا کے لئے مرتی ہے
مَیں نے اس کو تو بس اک کھیل تماشا پایا
اپنے دل پر کئی زخموں کے نشاں پائے ہیں
اس کی نظروں کا بہت ٹھیک نشانا پایا
مجھ سے مت پوچھ صنم! کیا ہے وفا کا حاصل
تُو سنا اپنی، کہ مَیں نے تو جو پایا، پایا
(شوکت پرویز)
جب بھی پایا مجھے حالات سے لڑتا پایا
ذہن کو اپنے کروڑوں سے بھی اعلیٰ پایا
لیکن اس دل سے ہمیشہ اسے ہارا پایا
زندگی کے سبھی پنّوں پہ سفر لکھّا تھا
اُس پہ رستوں کو بھی پُرخار ہمیشا پایا
ایک بجھتا سا چراغ اور مِری جاں بَلَبی
دیکھ لے موت نے گھر میں مِرے کیا کیا پایا
دشمن و دوست میں اب فرق کریں بھی کیسے
آستینوں میں یہاں سانپ کو پلتا پایا
دل مِرا غم کی سیہ شب کا مسافر تھا مگر
رخ پہ مسکان کے سورج کو چمکتا پایا
کیسی دنیا ہے کہ دنیا کے لئے مرتی ہے
مَیں نے اس کو تو بس اک کھیل تماشا پایا
اپنے دل پر کئی زخموں کے نشاں پائے ہیں
اس کی نظروں کا بہت ٹھیک نشانا پایا
مجھ سے مت پوچھ صنم! کیا ہے وفا کا حاصل
تُو سنا اپنی، کہ مَیں نے تو جو پایا، پایا
(شوکت پرویز)