میرے تلخ لہجے میں اُس کی خوش بیانی تھی

شاہد شاہنواز

لائبریرین
برائے اصلاح، محترم
الف عین ۔۔۔
دیگر دوست احباب سے بھی رائے دینے کی درخواست ہے۔۔۔

میرے تلخ لہجے میں اس کی خوش بیانی تھی
ساتھ وہ رہا جب تک غم بھی شادمانی تھی

مشعلوں کے جلنے سے روشنی ہوئی لیکن
ظالموں کو مفلس کی جھونپڑی جلانی تھی

اک طرف جلی کٹیا، دوسری طرف یہ دل
جس کی تیز دھڑکن پر اس کی حکمرانی تھی

بعد ایک مدت کے جب وہ ملنے آیا تو
اس کے خشک ہونٹوں پر اِک نئی کہانی تھی

جس پہ مر مٹی دنیا وہ ہنسی تو غائب تھی
اس کی مسکراہٹ بھی غم کی ترجمانی تھی

ہو سکے تو یہ کرنا، تم مجھے بھلا دینا
اس نے جب کہا مجھ سے، میں نے بات مانی تھی

پیار کیوں ہوا شاہدؔ، یاد کرکے رونا کیا؟
شب میں چاند نکلا تھا، روشنی تو آنی تھی
 

الف عین

لائبریرین
برائے اصلاح، محترم
الف عین ۔۔۔
دیگر دوست احباب سے بھی رائے دینے کی درخواست ہے۔۔۔

میرے تلخ لہجے میں اس کی خوش بیانی تھی
ساتھ وہ رہا جب تک غم بھی شادمانی تھی
دوسرے مصرعے میں فاعل غم مذکر ہے، اس لئے' شادمانی تھا' درست ہوتا
مشعلوں کے جلنے سے روشنی ہوئی لیکن
ظالموں کو مفلس کی جھونپڑی جلانی تھی
درست
اک طرف جلی کٹیا، دوسری طرف یہ دل
جس کی تیز دھڑکن پر اس کی حکمرانی تھی
دوسرا مصرع واضح نہیں، کس کی حکمرانی؟
بعد ایک مدت کے جب وہ ملنے آیا تو
اس کے خشک ہونٹوں پر اِک نئی کہانی تھی
ٹھیک مگر واضح یہ بھی نہیں
جس پہ مر مٹی دنیا وہ ہنسی تو غائب تھی
اس کی مسکراہٹ بھی غم کی ترجمانی تھی
درست
ہو سکے تو یہ کرنا، تم مجھے بھلا دینا
اس نے جب کہا مجھ سے، میں نے بات مانی تھی
اس میں بھی وضاحت کی. کمی لگتی ہے
پیار کیوں ہوا شاہدؔ، یاد کرکے رونا کیا؟
شب میں چاند نکلا تھا، روشنی تو آنی تھی
درست
 

ارشد رشید

محفلین
شاہد صاحب - غزل اچھی ہے مگر آپ کا بیانیہ اکثر جگہ کمزور ہو جاتا ہے
میرے تلخ لہجے میں اس کی خوش بیانی تھی
ساتھ وہ رہا جب تک غم بھی شادمانی تھی
-- جیسا کی الف عین صاحب نے لکھا یہاں "تھا" آئیگا تو آپ کو یہ مصرعہ بدلنا پڑے گا
قطع نظر اس بات کہ، میں یہ شعر بھی سمجھنے سے قاصر ہوں - تلخ لہجے میں کوئ خوش بیانی کیسے کر سکتا ہے - اگر ہوتا کہ میرے اداس لہجے میں اسکی خوش بیانی تھی تو بات کچھ بن سکتی تھی -

مشعلوں کے جلنے سے روشنی ہوئی لیکن
ظالموں کو مفلس کی جھونپڑی جلانی تھی
-- یہ شعر ٹھیک ہے

اک طرف جلی کٹیا، دوسری طرف یہ دل
جس کی تیز دھڑکن پر اس کی حکمرانی تھی
-- جلی کٹیا کا اس پورے شعر میں کیا محل ہے - آپ کو شعر میں یہ بتانا ہوگا -

بعد ایک مدت کے جب وہ ملنے آیا تو
اس کے خشک ہونٹوں پر اِک نئی کہانی تھی
== خشک ہونٹوں پر کا کیا مطلب ہے - شعر میں ہر بات کا سیاق و سباق ہوتا ہے - ایسے ہی کوئ لفظ نہیں ڈال سکتے -

جس پہ مر مٹی دنیا وہ ہنسی تو غائب تھی
اس کی مسکراہٹ بھی غم کی ترجمانی تھی
== یہ چلے گا گرچہ بہت عام خیال ہے

ہو سکے تو یہ کرنا، تم مجھے بھلا دینا
اس نے جب کہا مجھ سے، میں نے بات مانی تھی
== یہ شعر اچھا ہے

پیار کیوں ہوا شاہدؔ، یاد کرکے رونا کیا؟
شب میں چاند نکلا تھا، روشنی تو آنی تھی
دیکھیئے چاند تو شب میں ہی نکلتا ہے پھر اس بات کا کیا مطلب ہوا کہ شب میں چاند نکلا تھا - اس کو آپ تھوڑا عمومی بنائیں - جیسے جب بھی چاند نکلے گا یا " جیسے راتیں چاندنی تھیں جب " وغیرہ
(وزن دیکھنا آپ کی ذمہ ہے )
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میرے تلخ لہجے میں اس کی خوش بیانی تھی ۔۔۔ساتھ وہ رہا جب تک غم بھی شادمانی تھی
// اس کے بارے میں آج کچھ سوچتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔۔۔

مشعلوں کے جلنے سے روشنی ہوئی لیکن۔۔ظالموں کو مفلس کی جھونپڑی جلانی تھی
// اس شعر پر آپ دونوں کو کوئی اعتراض نہیں، سو یونہی رہے گا۔۔۔
اک طرف جلی کٹیا، دوسری طرف یہ دل۔۔۔جس کی تیز دھڑکن پر اس کی حکمرانی تھی
//اس شعر کو گزشتہ سے پیوستہ سمجھنے پرشاید بات واضح ہوسکے ۔۔۔ جھونپڑی جو گزشتہ شعر میں جلی، وہ اگلے شعر میں کٹیا ہوگئی۔۔۔ "اس" کی تعریف مطلعے میں ہوچکی ہے، سو قاری سے توقع باندھ لی گئی کہ وہ یہاں اس کا مطلب سمجھ جائیگا۔۔۔ پھر بھی آپ کا اعتراض بجا، کہ غزل کے ہر شعر کو اپنے آپ میں مکمل ہونا چاہئے ۔۔۔
بعد ایک مدت کے جب وہ ملنے آیا تو۔۔۔۔اس کے نرم ہونٹوں پر اِک نئی کہانی تھی
//غیر واضح کی وضاحت اگلے شعر میں کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ نئی کہانی کیا تھی ۔۔۔ خشک کی جگہ نرم کیا جاسکتا ہے۔ خشک سے ڈرامائی فضا پیدا کرنے سے زیادہ کچھ مقصود نہیں تھا۔۔۔
ہو سکے تو یہ کرنا، تم مجھے بھلا دینا۔۔۔اس نے جب کہا مجھ سے، میں نے بات مانی تھی
// اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں نے ایک ہی غزل میں پہلے ایک شعر کو گزشتہ سے پیوستہ بتایا اور پھر دوسرے کی وضاحت اگلے شعر میں کی۔ (ایک شعر میں جھونپڑی جلانی ۔۔ دوسرے میں جلی کٹیا ۔۔۔ پھر ایک شعر میں نئی کہانی اور آگے چل کر کہانی ۔۔۔ کہ مجھے بھلا دینا ۔۔۔ ) تسلیم، کہ اس سے ابہام پیدا ہورہا ہے۔۔۔ پھر بھی یونہی رہنے دینے میں کوئی ہرج نہیں لگتا۔
پیار کیوں ہوا شاہدؔ، یاد کرکے رونا کیا؟
شب میں چاند نکلا تھا، روشنی تو آنی تھی
@ARQadri
//شب اور چاند بطور مثال ہیں ۔۔۔ شب کا مطلب تنہائی کی زندگی جس میں پہلے کبھی کوئی چاند نکلا ہی نہیں تھا اور چاند سے "وہ" مراد ہے ۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اردو غزل میں اتنا کام ہوچکا ہے کہ ہم نئے لکھنے والے کیا کر رہے ہیں؟ اسے سمجھنے کیلئے ہمیں اردو ادب کی پوری تاریخ کھنگالنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔۔ اوپر ہم جس غزل پر بات کر رہے ہیں، مجھے علم ہی نہیں تھا کہ مسعود حسین خان (1919 تا2010) اسی قافیے ، ردیف اور بحر کے ساتھ ایک غزل کہہ چکے ہیں، قافیے کی تلاش کرتے ہوئے یہ غزل نظر سے گزری۔۔ برسبیلِ تذکرہ:
رات کل فضاؤں میں تیری ہی کہانی تھی۔۔۔ہم بھی سننے والے تھے دل کی پاسبانی تھی
آسماں سے آمد تھی گم شدہ خیالوں کی۔۔۔۔جس قدر تصور تھا اتنی شادمانی تھی
دور ساری دنیا سے اک نگر بسایا تھا۔۔۔۔اس کا ایک راجا تھا اس کی ایک رانی تھی
زلف و رخ کی باتیں تھیں دن تھا اور راتیں تھیں۔۔۔صبح کتنی رنگیں تھی شام کیا سہانی تھی
یاد ہیں وہ دن اب تک جب حسین راتوں میں۔۔۔۔تیری گنگناہٹ پر میری نغمہ خوانی تھی
تیرے اک تبسم پر وقت بھی ٹھہر جاتا۔۔۔۔اس میں کب ترنم تھا اس میں کب روانی تھی
آنسوؤں سے جیتا تھا گوہر محبت کو۔۔۔تیری کامرانی بھی کیسی کامرانی تھی
کتنی گرم جوشی تھی کتنی گریہ و زاری۔۔۔۔کتنی سرد مہری تھی کتنی سرگرانی تھی
میں نے تجھ کو کب سمجھا میں نے تجھ کو کب پایا۔۔۔میں زمیں کا بندہ تو روح آسمانی تھی
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
شاہد بھائی آپ کی اصلاح سخن میں پیش کی گئی غزلوں میں مجھے یہ پسند آئی ۔دو ایک تجاویز پیش کرتا ہوں تاکہ اس میں جتنا ممکن ہو اوریجنلٹی برقرار رہ سکے۔
یہیں کہیں اصلاح کے حوالے سے دو ایک ارشادات نظر سے گزرے کہ شاعر کودوسروں کے الفاظ نہیں قبول کرنے چاہییں۔بات تو دل کو لگتی ہے لیکن پھر ایسے شاعر کو اصلاح سخن کا کشٹ بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اساتذہ کی اصلاحیں چھپ چکی ہیں کہ کیسے اپنے شاگردوں کے شعروں میں ذرا سی ترمیم کر کےانھیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔

بات یہ ہے کہ اگر طالب اصلاح کا شعر ی خیال بدل نہیں رہا اور اکثر الفاظ اسی کے ہیں تو اچھی اصلاحیں اور تجاویز قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور شعر بھی اسی کا سمجھا جائے گا۔
ایک اور بات اس غزل کا مطلع آپ نے ذرا سی بات پہ رد کر دیا ،یوں نہ چاہیے ۔شاعر کو کچھ نہ کچھ تنقیدی ذوق و درک رکھنا چاہیے جس سے اسے یہ پتا چل سکے کہ اس نے کیا خوب کہا ہے اور کیا ناخوب اور کس کہے میں ابھی کسر باقی ہے۔کیونکہ اول تو ذوق: پرسن ٹو پرسن ویری: کرتا ہے پھر کچھ کیفیات اور واردات شاعر کی خالص ذاتی ہوتی ہیں جن کا احساس و ادراک اور کو نہیں ہو سکتا۔اگر شاعر نے اپنے اندر تنقیدی شعور اجاگر نہیں کیا تو وہ دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتا ہے۔
جیسا کہ ایک لطیفہ ہے ایک دیہاتی کے ہاں زیورات کی چوری ہوجاتی ہے ،اگلے دن عذر خواہوں کا تانتا بندھ جاتا ہے،ایک آتا ہے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے
ٹھک ٹھک ٹھک
سنا ہے آپ کے ہاں چوری ہوگئی
ہاں زیور چوری ہو گئے
کہاں رکھے تھے ؟
الماری میں
الماری رکھنے کی جگہ ہے ؟
کہاں رکھتا
جوتے کے ڈبے میں
یہ چلا جاتا ہے ،دوسرا آتا ہے
ٹھک ٹھک ٹھک
سنا ہے آپ کے ہاں چوری ہوگئی
ہاں زیور چوری ہو گئے
کہاں رکھے تھے؟
جوتے کے ڈبے میں (الماری میں رکھنے کی اصلاح کے بعد)
جوتے کے ڈبے میں کون رکھتا ہے!
پھر کہاں رکھتا
تکیے کے غلاف کے اندر

دوسرا جاتا ہے پھر تیسرا آتا ہے
ٹھک ٹھک ٹھک
سنا ہے آپ کے ہاں چوری ہوگئی
ہاں زیور چوری ہو گئے
کہاں رکھے تھے زیور ؟
تکیے کے غلاف کے اندر(جوتے کے ڈبے کی اصلاح کے بعد)
تکیہ بھی کوئی زیور رکھنے کی جگہ ہے !
پھر کہاں رکھتا منھ کے اندر (جھنجھلاتے ہوئے)
نہیں زمین کھود کر دفن کر دیتے!

تیسرا جاتا ہے پھر چوتھا آتا ہے

ٹھک ٹھک ٹھک
سنا ہے آپ کے ہاں چوری ہوگئی
بھائی خدا کا واسطہ ہے (ہاتھ جوڑتے ہوئے) میرے ہاں کوئی چوری نہیں ہوئی یہ افواہ لوگوں نے پھیلائی ہے۔
(زور سے دروازہ بند ہوتا ہے)
اس کے بعد ٹھک ٹھک ٹھک کی آواز آنا بھی بند ہو جاتی ہے۔
دیکھا آپ نے یہ ہوتا ہے ہر مشورہ قبول کرنے کا انجام اور میں اس غزل کی بات نہیں کر رہا کہ یہاں صائب آرا دی گئی ہیں بلکہ آپ کے عمومی رجحان کی بات کر رہا ہوں اور وہ ہے ہر مشورہ قبول کر لینا جو کہ مناسب نہیں ۔
اسی لیے اصلاح کے باب میں بزرگوں کا کیا خوب ارشاد ہے کہ یک در گیر و محکم گیر ۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
میرے تلخ لہجے میں اس کی خوش بیانی تھی
ساتھ وہ رہا جب تک غم بھی شادمانی تھی

دوسرے مصرعے میں فاعل غم مذکر ہے، اس لئے' شادمانی تھا' درست ہوتا
اعجاز صاحب کی تجویز پہ آرام سے عمل ہو سکتا تھا یوں کہنے سے:
میرے تلخ لہجے میں اس کی خوش بیانی تھی
ساتھ وہ رہا جب تک غم میں شادمانی تھی
اور یہ آپ کا شعر خوبصورت ہے ۔صنعت تضاد اور ایک پیراڈوکس کی خوب عکاسی ہے۔نہ جانے کیوں آپ نے اسے رد کر دیا۔
مشعلوں کے جلنے سے روشنی ہوئی لیکن
ظالموں کو مفلس کی جھونپڑی جلانی تھی
پہلا مصرع ایسے بھی ہو سکتا ہے:
مشعلیں جلانا تو محض اک بہانا تھا

روشنی کرنے کا خاص ذکر ضروری نہیں کہ مشعلیں جلانا اسی لیے ہوتا ہے نہ کہ جھونپڑی جلانے کے لیے۔
اک طرف جلی کٹیا، دوسری طرف یہ دل
جس کی تیز دھڑکن پر اس کی حکمرانی تھی
ارشد رشید بھائی کی بات سے متفق ہوں ۔یہ شعر اس غزل کے جوڑ کا نہیں۔
بعد ایک مدت کے جب وہ ملنے آیا تو
اس کے خشک ہونٹوں پر اِک نئی کہانی تھی
یہ شعر خوب ہے۔بے ساختگی ،منظر کشی اور واقعہ نگاری نے شعر میں جاذبیت پیدا کر دی ہے۔
جس پہ مر مٹی دنیا وہ ہنسی تو غائب تھی
اس کی مسکراہٹ بھی غم کی ترجمانی تھی
دوسرے مصرع میں :بھی : کی جگہ اب کر دیں۔
اس کی مسکراہٹ اب غم کی ترجمانی تھی
ہو سکے تو یہ کرنا، تم مجھے بھلا دینا
اس نے جب کہا مجھ سے، میں نے بات مانی تھی
گو بات مان لینا غیر شاعرانہ حرکت ہے مگر اچھی بات ہے اچھے شوہر ایسا ہی کرتے ہیں۔
پیار کیوں ہوا شاہدؔ، یاد کرکے رونا کیا؟
شب میں چاند نکلا تھا، روشنی تو آنی تھی
پہلے مصرع کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے :
پیار ہو گیاشاہد،کیوں ہوا یہ رہنے دو

گو پیار غزل کے لیے بہت عامیانہ اور فلمی لفظ لگتا ہے لیکن چلیں کیا کہا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یاسر شاہ کی اصلاح خوب ہے، دو ایک میرے مشورے کی تبدیلیوں کے بعد قبول کر لو،
محض اک بہانا تھا... کو... صرف اک بہانا تھا
پیار کی جگہ عشق کر دو مقطع میں
حکمرانی والا شعر نکال ہی دیا جائے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تمام تر نئے تبصرے پڑھ چکا، بے حد شکر گزار، لیکن فی الحال کچھ کہنے سے معذرت خواہ ہوں۔۔۔
پہلے ہر بات کو سمجھ لوں، پھر بات کرنا مناسب ہوگا۔یہاں کہی گئی کچھ باتوں سے اتفاق ہے، کچھ سے نہیں۔۔۔ پھر بھی اچھا ہوگا، کچھ سوچ سمجھ کر جواب دوں۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد بھائی آپ کی اصلاح سخن میں پیش کی گئی غزلوں میں مجھے یہ پسند آئی ۔دو ایک تجاویز پیش کرتا ہوں تاکہ اس میں جتنا ممکن ہو اوریجنلٹی برقرار رہ سکے۔
یہیں کہیں اصلاح کے حوالے سے دو ایک ارشادات نظر سے گزرے کہ شاعر کودوسروں کے الفاظ نہیں قبول کرنے چاہییں۔بات تو دل کو لگتی ہے لیکن پھر ایسے شاعر کو اصلاح سخن کا کشٹ بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اساتذہ کی اصلاحیں چھپ چکی ہیں کہ کیسے اپنے شاگردوں کے شعروں میں ذرا سی ترمیم کر کےانھیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔

بات یہ ہے کہ اگر طالب اصلاح کا شعر ی خیال بدل نہیں رہا اور اکثر الفاظ اسی کے ہیں تو اچھی اصلاحیں اور تجاویز قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور شعر بھی اسی کا سمجھا جائے گا۔
ایک اور بات اس غزل کا مطلع آپ نے ذرا سی بات پہ رد کر دیا ،یوں نہ چاہیے ۔شاعر کو کچھ نہ کچھ تنقیدی ذوق و درک رکھنا چاہیے جس سے اسے یہ پتا چل سکے کہ اس نے کیا خوب کہا ہے اور کیا ناخوب اور کس کہے میں ابھی کسر باقی ہے۔کیونکہ اول تو ذوق: پرسن ٹو پرسن ویری: کرتا ہے پھر کچھ کیفیات اور واردات شاعر کی خالص ذاتی ہوتی ہیں جن کا احساس و ادراک اور کو نہیں ہو سکتا۔اگر شاعر نے اپنے اندر تنقیدی شعور اجاگر نہیں کیا تو وہ دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتا ہے۔
جیسا کہ ایک لطیفہ ہے ایک دیہاتی کے ہاں زیورات کی چوری ہوجاتی ہے ،اگلے دن عذر خواہوں کا تانتا بندھ جاتا ہے،ایک آتا ہے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے
ٹھک ٹھک ٹھک
سنا ہے آپ کے ہاں چوری ہوگئی
ہاں زیور چوری ہو گئے
کہاں رکھے تھے ؟
الماری میں
الماری رکھنے کی جگہ ہے ؟
کہاں رکھتا
جوتے کے ڈبے میں
یہ چلا جاتا ہے ،دوسرا آتا ہے
ٹھک ٹھک ٹھک
سنا ہے آپ کے ہاں چوری ہوگئی
ہاں زیور چوری ہو گئے
کہاں رکھے تھے؟
جوتے کے ڈبے میں (الماری میں رکھنے کی اصلاح کے بعد)
جوتے کے ڈبے میں کون رکھتا ہے!
پھر کہاں رکھتا
تکیے کے غلاف کے اندر

دوسرا جاتا ہے پھر تیسرا آتا ہے
ٹھک ٹھک ٹھک
سنا ہے آپ کے ہاں چوری ہوگئی
ہاں زیور چوری ہو گئے
کہاں رکھے تھے زیور ؟
تکیے کے غلاف کے اندر(جوتے کے ڈبے کی اصلاح کے بعد)
تکیہ بھی کوئی زیور رکھنے کی جگہ ہے !
پھر کہاں رکھتا منھ کے اندر (جھنجھلاتے ہوئے)
نہیں زمین کھود کر دفن کر دیتے!

تیسرا جاتا ہے پھر چوتھا آتا ہے

ٹھک ٹھک ٹھک
سنا ہے آپ کے ہاں چوری ہوگئی
بھائی خدا کا واسطہ ہے (ہاتھ جوڑتے ہوئے) میرے ہاں کوئی چوری نہیں ہوئی یہ افواہ لوگوں نے پھیلائی ہے۔
(زور سے دروازہ بند ہوتا ہے)
اس کے بعد ٹھک ٹھک ٹھک کی آواز آنا بھی بند ہو جاتی ہے۔
دیکھا آپ نے یہ ہوتا ہے ہر مشورہ قبول کرنے کا انجام اور میں اس غزل کی بات نہیں کر رہا کہ یہاں صائب آرا دی گئی ہیں بلکہ آپ کے عمومی رجحان کی بات کر رہا ہوں اور وہ ہے ہر مشورہ قبول کر لینا جو کہ مناسب نہیں ۔
اسی لیے اصلاح کے باب میں بزرگوں کا کیا خوب ارشاد ہے کہ یک در گیر و محکم گیر ۔

مطلع رد کیا، لیکن اس کے پیچھے یہ مسئلہ تھا کہ غم بھی شادمانی تھا، یا تھی؟ مجھے تو کوئی مغالطہ نہیں ہوتا، شاید پڑھنے والوں کو ہوجائے ۔۔۔ تاہم یہ صورت بہتر ہے ۔۔۔
میرے تلخ لہجے میں اس کی خوش بیانی تھی
ساتھ وہ رہا جب تک غم میں شادمانی تھی
۔۔۔۔
اس کے خشک ہونٹوں پر اک نئی کہانی تھی، یہ شعر تو شامل کر لیا۔۔

میرے تلخ لہجے میں اس کی خوش بیانی تھی
ساتھ وہ رہا جب تک غم میں شادمانی تھی

مشعلیں جلانا تو صرف اک بہانا تھا
ظالموں کو مفلس کی جھونپڑی جلانی تھی

بعد ایک مدت کے جب وہ ملنے آیا تو
اس کے خشک ہونٹوں پر اِک نئی کہانی تھی

جس پہ مر مٹی دنیا وہ ہنسی تو غائب تھی
اس کی مسکراہٹ بھی غم کی ترجمانی تھی

ہو سکے تو یہ کرنا، تم مجھے بھلا دینا
اس نے جب کہا مجھ سے، میں نے بات مانی تھی

عشق کیوں ہوا شاہدؔ، یاد کرکے رونا کیا؟
شب میں چاند نکلا تھا، روشنی تو آنی تھی
۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کچھ اشعار جو پسند آتے ہیں، چاہے ان میں غلطی ہی کیوں نہ ہو، رکھ لیتا ہوں ۔۔ اصلاح کے بعد بعض اوقات غلطی دور ہوجاتی ہے، خوبصورتی غائب۔۔۔ یا جو مجھے اس شعر کی خوبصورتی لگتی ہے، وہ غائب ہوجائے تو اپنے طور پر فیصلہ کرلیتا ہوں کہ کیا کرنا چاہئے۔۔۔
پیار مجھے عامیانہ یا فلمی لفظ نہیں لگتا، کہنے والے عشق کو بھی عامیانہ لفظ کہتے ہیں ۔۔ اے عشقِ نبی ﷺ میرے دل میں بھی سما جانا پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ عشق کا لفظ آپ اپنے بھائی ، بہن یا ماں کیلئے استعمال نہیں کرسکتے، تو وہاں کیوں کرتے ہیں؟ اس سے پیار کی بو آتی ہے، لیکن میں کسی لفظ کو عامیانہ یا غلط نہیں کہتا۔ فلمیں بننے سے پہلے بھی یہ لفظ موجود تھے، یہ ہم انسان تھے جو ان کو فلموں میں لے آئے۔ لفظ کا استعمال ہی اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔۔۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تاہم اصلاح کا عمل جاری ہو تو میں کسی لفظ کے استعمال پر کیے گئے اعتراض کا جواب دینے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔۔۔ وجہ اتنی سی ہے کہ یہاں میری ایک غزل کیلئے آپ احباب نے اپنا قیمتی وقت نکالا ہے، اس قیمتی وقت کو دیگر موضوعات کیلئے استعمال کرنا ناانصافی ہوگی۔ اختلاف تو کسی بھی بات پر ہوسکتا ہے !
 
Top