تمہارے بن میرا ہر دن، گزر رہا تھا عذاب جیسا
تمہارا چہرہ میری نگاہ میں، کھلا تھا ہر پل کتاب جیسا
کسی سے جب بھی میں بات کرتا، تو تم ہی ہوتیں میری مخاطب
تمہارا ہر ہر لفظ ہوتا، سوال جیسا جواب جیسا
حضور رب جب بھی ہاتھ اٹھے، دعا یہی میرے لب سے نکلی
میرے خدایا میری بہن کو، ہمیشہ رکھنا گلاب جیسا
تمہارا چہرہ میری نگاہ میں، کھلا تھا ہر پل کتاب جیسا
کسی سے جب بھی میں بات کرتا، تو تم ہی ہوتیں میری مخاطب
تمہارا ہر ہر لفظ ہوتا، سوال جیسا جواب جیسا
حضور رب جب بھی ہاتھ اٹھے، دعا یہی میرے لب سے نکلی
میرے خدایا میری بہن کو، ہمیشہ رکھنا گلاب جیسا
یہ صرف جذبات تھے جو چند لمحوں کے لئے کسی کے دل پر آئے اور اس نے کاغذ پر اتار دیئے، اس سے قبل نہ کبھی شعری زور آزمائی کی اور نہ اس کے بعد ۔۔ اور قواعد شعری سے مکمل جہالت بھی ساتھ ساتھ ہے
اہل فن کے سامنے اس لئے پیش کیا ہے کہ اسے پرکھ کر بتائیں کہ کیا اصلاح کے ذریعے اسے کسی قابل بنایا جا سکتا ہے ؟