میرے خدایا میری بہن کو

راجہ

محفلین
تمہارے بن میرا ہر دن، گزر رہا تھا عذاب جیسا
تمہارا چہرہ میری نگاہ میں، کھلا تھا ہر پل کتاب جیسا

کسی سے جب بھی میں بات کرتا، تو تم ہی ہوتیں میری مخاطب
تمہارا ہر ہر لفظ ہوتا، سوال جیسا جواب جیسا

حضور رب جب بھی ہاتھ اٹھے، دعا یہی میرے لب سے نکلی
میرے خدایا میری بہن کو، ہمیشہ رکھنا گلاب جیسا

یہ صرف جذبات تھے جو چند لمحوں کے لئے کسی کے دل پر آئے اور اس نے کاغذ پر اتار دیئے، اس سے قبل نہ کبھی شعری زور آزمائی کی اور نہ اس کے بعد ۔۔ اور قواعد شعری سے مکمل جہالت بھی ساتھ ساتھ ہے
اہل فن کے سامنے اس لئے پیش کیا ہے کہ اسے پرکھ کر بتائیں کہ کیا اصلاح کے ذریعے اسے کسی قابل بنایا جا سکتا ہے ؟
 
تمہارے بن سب ہمارے دن یوں گذر رہے تھے عذاب جیسے
تمہارا چہرہ ہماری آنکھیں کہ پڑھ رہی ہوں کتاب جیسے

کسی سے جب بھی میں بات کرتا، خیال تیرا طواف کرتا۔ ۔ ۔ ۔
نہاں تھے اک اک سخن میں تیرے سوال جیسے جواب جیسے

حضور رب جب بھی ہاتھ اٹھے، دعا یہی میرے لب سے نکلی
خدایا میری بہن رہے یوں ہمیشہ تازہ گلاب جیسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ویسے مجھے لگتا ہے کہ یہ 'اصلاح' بذاتِ خود محتاجِ اصلاح ہے:grin:
 

الف عین

لائبریرین
راجہ تمہارے جذبات واقعی قابل قدر ہیں۔ اور محمود، تمہاری اصلاح درست ہے۔ دوسرے شعر کے علاوہ۔ اس کی تفہیم خود مجھے درست نہیں ہو سکی کہ راجہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ تم نے ان کا خیال بھی بدل دیا ہے بحر میں فٹ کرنے کی کوشش میں۔ ’خیال تیرا طواف کرتا ‘ کی ضرورت نہیں تھی۔ اصل مصرع بھی بحر میں ہے، وہی چل سکتا تھا۔
 

راجہ

محفلین
مکرمی محمود غزنوی صاحب
بہت شکریہ اس قدر توجہ کا، آئندہ بھی اسی توجہ کی امید رکھنا ہوں اگر کبھی ایسی غلطی کر دی تو
اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔۔ آمین
 

راجہ

محفلین
راجہ تمہارے جذبات واقعی قابل قدر ہیں۔ اور محمود، تمہاری اصلاح درست ہے۔ دوسرے شعر کے علاوہ۔ اس کی تفہیم خود مجھے درست نہیں ہو سکی کہ راجہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ تم نے ان کا خیال بھی بدل دیا ہے بحر میں فٹ کرنے کی کوشش میں۔ ’خیال تیرا طواف کرتا ‘ کی ضرورت نہیں تھی۔ اصل مصرع بھی بحر میں ہے، وہی چل سکتا تھا۔

مکرمی الف عین صاحب
السلام علیکم
باقاعدہ توجہ دینے پر میری طرف سے شکریہ قبول کیجئے۔
 
Top