میں نے اپنے محدود علم اور تجربے کی بنیاد پر جتنا بھی سوچا میرے خیال میں ہمارے تمام مسائل کی اصل وجہ ہماری سوچ اور سوچنے کا انداز ہے۔
دو باتیں ہیں ایک تو ہم منفی سوچ رکھتے ہیں اور دوسرا اپنے زاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔
ہمارے اندر ابھی تک وہ احساس ذمہ داری جاگا ہی نہیں جو کسی ریاست کے اندر رہنے والے شہریوں کو ایک قوم بناتا ہے۔ وہ احساس ذمہ داری سوچ کے بدلنے سے آتا ہے۔یہ احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم ملک وقوم کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے بلکہ ان کو زاتی مفادات پر ترجیح دینے لگتے ہیں اور ملک کی پراپرٹی کو اپنی پراپرٹی سمجھتے ہیں۔ اور یہ سوچ تب پیدا ہوتی ہے جب ہمارے اندر ان چیزوں کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ اگر ہمارے گھر کے اندر کوئی سکریپ بھی پڑا ہو تو کسی کی جرأت نہیں کہ اس کو اٹھا لے کیونکہ اس کی حفاظت کے لئے ہم جان کی بازی بھی لگا دیتے ہیں۔
کیوں؟

اس لئے کہ اس کی ملکیت کا احساس ہمارے اندر موجود ہے کہ یہ میری ملکیت ہے اور کسی کی کیا جرأت کہ اس کو ہاتھ بھی لگا لے۔ دوسرا اس کی اہمیت بھی ہمیں معلوم ہے کہ اور کچھ بھی نہیں تو کم از کم کباڑیا ہی کجھ روپے دے دے گا۔ اس طرح یہ دو احساسات : ملکیت اور اہمیت ہمیں اس کی حفاظت پر مجبور کرتے ہیں

مگر جہاں ہماری قومی اثاثہ جات کی بات ہو ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ہماری ہیں اور یہ ہماری اور آنے والی نسلوں کے کام آِئیں گیں ۔

ہمارے سکول ، کالجز ، گلیاں ، سڑکیں ، ہسپتال اور ادارے تباہ ہورہے ہیں ۔ لوگ ملکی دولت کو دونوں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے کیوں؟

سادہ سی بات ہے کہ ہم نے دل میں ابھی تک یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ ہماری پراپرٹی ہے اور ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے۔ جس دن ہمارے اندر یہ احساس ذمہ داری جاگ جائے گا اس دن سے ہمارے ملک کی تقدیر بدل جائے گی اور کوئی بد عنوانی کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔اور نہ ہی ہم کسی کو یہ جرأت کرنے دیں گے۔

یہ سب باتیں شعور سے آتی ہیں اور شعور تعلیم سے آِتا ہے۔ یکساں اور معیاری تعلیم سے جو قوموں کے اندر ایمان ، اتحاد ، اخوت ، نظم اور یقین محکم پیدا کرتی ہے۔ جو قوموں کے اندر تفریق نہیں بلکہ اتحاد پیدا کرتی ہے نہ کہ طبقاتی تقسیم کا موجب بنتی ہے۔ ایسی تعلیم جو ایثار اور صدقہ کے جذبہ کو پیدا کرتی ہے نہ کہ لوٹ کھسوٹ اور بد عنوانی کو

یہی وہ تعلیم اور شعور ہے جو ایسی سوچ پیدا کرتی ہے جس سے انسان کی ظاہری جاہ و جلال دیکھ کر عزت نہیں کی جاتی بلکہ اس کا کردار انسانیت کا معیار سمجھا جاتاہے۔

پھر ہم اپنے گرد بنائے ہوئے رنگ و نسل ، مذہب ، قبیلے اور علاقائی تعصبات کے تمام خول توڑ کر باہر آجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو انسانیت کے رشتے سے پہچاننے لگتے ہیں۔ ہمارے نزدیک سب سے معتبر اور قابل احترام رشتہ انسانیت کا ہوتا ہے

پھر ہماری شخصیت کی پہچان ہماری سوچ ہوتی ہے۔ وہ سوچ جس میں ہم کام تو لوکل سطح پر کر رہے ہوتے ہیں مگر مقصد گلوبل ہوتا ہے۔ ہم محض اپنی زات یا ملک کے بارے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کا سوچ رہے ہوتے ہیں اور یہی عالمی امن کا حقیقی فارمولہ ہے۔
 
میں نے اپنے محدود علم اور تجربے کی بنیاد پر جتنا بھی سوچا میرے خیال میں ہمارے تمام مسائل کی اصل وجہ ہماری سوچ اور سوچنے کا انداز ہے۔
دو باتیں ہیں ایک تو ہم منفی سوچ رکھتے ہیں اور دوسرا اپنے زاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔
ہمارے اندر ابھی تک وہ احساس ذمہ داری جاگا ہی نہیں جو کسی ریاست کے اندر رہنے والے شہریوں کو ایک قوم بناتا ہے۔ وہ احساس ذمہ داری سوچ کے بدلنے سے آتا ہے۔یہ احساس اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم ملک وقوم کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے بلکہ ان کو زاتی مفادات پر ترجیح دینے لگتے ہیں اور ملک کی پراپرٹی کو اپنی پراپرٹی سمجھتے ہیں۔ اور یہ سوچ تب پیدا ہوتی ہے جب ہمارے اندر ان چیزوں کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ اگر ہمارے گھر کے اندر کوئی سکریپ بھی پڑا ہو تو کسی کی جرأت نہیں کہ اس کو اٹھا لے کیونکہ اس کی حفاظت کے لئے ہم جان کی بازی بھی لگا دیتے ہیں۔
کیوں؟

اس لئے کہ اس کی ملکیت کا احساس ہمارے اندر موجود ہے کہ یہ میری ملکیت ہے اور کسی کی کیا جرأت کہ اس کو ہاتھ بھی لگا لے۔ دوسرا اس کی اہمیت بھی ہمیں معلوم ہے کہ اور کچھ بھی نہیں تو کم از کم کباڑیا ہی کجھ روپے دے دے گا۔ اس طرح یہ دو احساسات : ملکیت اور اہمیت ہمیں اس کی حفاظت پر مجبور کرتے ہیں

مگر جہاں ہماری قومی اثاثہ جات کی بات ہو ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ہماری ہیں اور یہ ہماری اور آنے والی نسلوں کے کام آِئیں گیں ۔

ہمارے سکول ، کالجز ، گلیاں ، سڑکیں ، ہسپتال اور ادارے تباہ ہورہے ہیں ۔ لوگ ملکی دولت کو دونوں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے کیوں؟

سادہ سی بات ہے کہ ہم نے دل میں ابھی تک یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ ہماری پراپرٹی ہے اور ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے۔ جس دن ہمارے اندر یہ احساس ذمہ داری جاگ جائے گا اس دن سے ہمارے ملک کی تقدیر بدل جائے گی اور کوئی بد عنوانی کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔اور نہ ہی ہم کسی کو یہ جرأت کرنے دیں گے۔

یہ سب باتیں شعور سے آتی ہیں اور شعور تعلیم سے آِتا ہے۔ یکساں اور معیاری تعلیم سے جو قوموں کے اندر ایمان ، اتحاد ، اخوت ، نظم اور یقین محکم پیدا کرتی ہے۔ جو قوموں کے اندر تفریق نہیں بلکہ اتحاد پیدا کرتی ہے نہ کہ طبقاتی تقسیم کا موجب بنتی ہے۔ ایسی تعلیم جو ایثار اور صدقہ کے جذبہ کو پیدا کرتی ہے نہ کہ لوٹ کھسوٹ اور بد عنوانی کو

یہی وہ تعلیم اور شعور ہے جو ایسی سوچ پیدا کرتی ہے جس سے انسان کی ظاہری جاہ و جلال دیکھ کر عزت نہیں کی جاتی بلکہ اس کا کردار انسانیت کا معیار سمجھا جاتاہے۔

پھر ہم اپنے گرد بنائے ہوئے رنگ و نسل ، مذہب ، قبیلے اور علاقائی تعصبات کے تمام خول توڑ کر باہر آجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو انسانیت کے رشتے سے پہچاننے لگتے ہیں۔ ہمارے نزدیک سب سے معتبر اور قابل احترام رشتہ انسانیت کا ہوتا ہے

پھر ہماری شخصیت کی پہچان ہماری سوچ ہوتی ہے۔ وہ سوچ جس میں ہم کام تو لوکل سطح پر کر رہے ہوتے ہیں مگر مقصد گلوبل ہوتا ہے۔ ہم محض اپنی زات یا ملک کے بارے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی بھلائی کا سوچ رہے ہوتے ہیں اور یہی عالمی امن کا حقیقی فارمولہ ہے۔
ماشاء اللہ آپ نے بہت عمدہ خیالات، بہت مربوط انداز میں پیش کیے ہیں. جزاک اللہ
 

فرقان احمد

محفلین
اچھے خیالات ہیں، اور شعور بیداری کے حوالے سے اس طرح کی تحاریر مفید ثابت ہوتی ہیں، لکھتے رہیے، معاملات بہتری کی طرف ہی جائیں گے۔ ہم اپنے حصے کی شمع ہی جلا سکتے ہیں۔ تاہم، اتنی سی گزارش ضرور ہے کہ ہم عالمی حالات سے بھی جڑے ہوئے ہیں اور اس کے اثرات بھی ہم پر لازماََ پڑتے ہیں؛ مثال کے طور پر اس دنیا میں چند ممالک نے بہت کچھ ہتھیا لیا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اپنی محنت سے حاصل کر لیا ہے اور ترقی پذیر ممالک کا عالم یہ ہے کہ ان کو اٹھنے کا موقع تک نہیں دیا جا رہا؛ کوئی رہنما آ بھی جائے تو اس کے خلاف محلاتی سازشیں شروع ہو جاتی ہیں یا اس کے خلاف ملک کے اندر سے تحریک اٹھا دی جاتی ہے اس لیے جو رہنما میسر ہیں، وہ ان بڑے ممالک کے ساتھ بنا کر رکھتے ہیں اور یہ بڑے ممالک اپنی پالیسیاں مختلف اداروں کے ذریعے چلاتے ہیں اور یہ پالیسیاں معاملات کو جوں کا توں رکھنے کے لیے ہی ہوتی ہیں، بہت ہوتا تو چند سکے قرض یا امداد کے نام پر اِدھر کو کھسکا دیے؛ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چھیاسی افراد کے پاس چودہ روپے ہیں اور چودہ افراد کے پاس چھیاسی روپے ہیں تو جن چھیاسی افراد کے پاس چودہ روپے ہیں، وہ تو آپس میں ہی لڑیں گے، مریں گے اور دنگا فساد کریں گے۔ یہی اِس دنیا کا المیہ ہے۔ تاہم، ممکنہ وسائل اور میسر سہولتوں کے بہتر استعمال سے ہم اندھوں میں کانے راجے ضرور بن سکتے ہیں؛ ایسا کر لیں تو بھی غنیمت ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ جی ہاں، تاہم بہت وقت لگے گا۔ آپ کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں، سلامت رہیں :)
 
بصد احترام عرض ہے کہ یہ بھاشن تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں اور شوشل میڈیا کے فاروڈئے بھی روز آدھ درجن اس طرح کے پیغام بھیجتے رہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اب تک اگر اس کا اثر نہیں ہوا تو اب کیونکر ہو گا۔
 
Top