حسان خان
لائبریرین
میرے دادا کا پورا نام حاجی نظام الدین خان غوری قادری ہے۔ اتنے بڑے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ نظام الدین تو اُن کا ذاتی نام ہے، خان نسلی-خاندانی نام ہے، غوری اُن کے افغان والد کی عطا کردہ قبائلی شناخت ہے، اور قادری سلسلے سے بیعت ہونے کی وجہ سے قادری کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ پہلے اپنی حرفت کی وجہ سے ماسٹر صاحب پکارے جاتے تھے، لیکن جب حج سے شرف یاب ہوئے تو اہلِ محلہ نے احتراماً حاجی صاحب پکارنا شروع کر دیا جو بالآخر نام کا جز بن گیا۔
میرے دادا ۱۹۲۴ء میں ریاست گوالیار کے چھوٹے سے گاؤں نلکھیڑہ میں پیدا ہوئے، لیکن اُنہوں نے تشکیلِ پاکستان سے قبل کا بڑا حصہ بڑودا میں گزارا ہے۔ عرصہ دراز سے خاندانی پیشہ خیاطی تھا، لہذا دادا نے بھی اسی پیشے میں قسمت آزمائی شروع کی۔ تشکیلِ پاکستان سے قبل اُن کی اپنے ماموں کی بیٹی سے شادی ہوئی تھی، لیکن وہ والی دادی کوئی اولاد ہونے سے قبل ہی چل بسیں۔ انیس سو اڑتالیس میں میرے دادا کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا (جس کے لیے میں اُن کا شکرگزار ہوں)، اور محمودآباد میں سکونت اختیار کی جو چند سال قبل تک جاری رہی۔ ۱۹۹۷ تک میرے دادا اپنی خیاطی کی دکان میں کام کیا کرتے تھے، اور اپنے تمام بیٹوں کو بھی انہوں نے یہ فن سکھایا ہے۔ جب تمام بیٹوں نے تعلیم حاصل کر کے خیاطی کا کام چھوڑ دیا، تو آخرکار میرے دادا نے بھی اس پرانے خاندانی کام سے 'ریٹائرمنٹ' لے لی۔ اس کے علاہ ساٹھ کی دہائی میں کچھ عرصے ٹیکسی بھی چلائی ہے۔ میرے داد محمودآباد میں واقع تاج مسجد کے تاحیات صدر اور منتظم ہیں، حالانکہ اب اُنہیں محمودآباد سے منتقل ہوئے کچھ چھ سات سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ زبانیں سیکھنے کا شوق مجھے دادا سے ہی لاحق ہوا ہے۔ نیز، میرا نام 'حسان' بھی دادا کی ایماء پر رکھا گیا تھا۔ بڑے محنتی اور نفیس انسان ہیں، اور اس عمر میں بھی ویسے ہی زندہ دل اور مشفق۔
یہ تھی وہ مسجد جس کے منتظم اور صدر میرے دادا ہیں، اور یہ جو کھڑکی نظر آ رہی ہے یہ میرے دادا کا دفتر اور ذاتی کتابخانہ ہوا کرتا تھا۔ حالیہ دنوں میں مسجد کی از سرِ نو تعمیر جاری ہے۔
میری دادی کا پورا نام رضیہ سلطانہ خاتون ہے۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئی تھیں، اور وہیں سے تشکیلِ پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہوئیں۔ اپنے زمانے کے لحاظ سے پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ اردو زبان کا بہت اچھا علم رکھتی ہیں، اور بڑے اچھے لب و لہجے میں بات کرتی ہیں۔ زنانِ محلہ میں بطور نعت خواں مشہور تھیں۔ اور مجھ سمیت محلے کے کئی بچوں نے اُن سے ناظرہ قرآن بھی پڑھا ہے۔ محلے میں 'خالہ جان' کے نام سے مشہور تھیں۔ چونکہ میں اُن کا سب سے بڑا پوتا ہوں، اس لیے اُن کا چہیتا رہا ہوں۔ اور میری تربیت میں اُن کا بہت ہاتھ ہے۔ کئی اچھی چیزیں میں نے سب سے پہلے اپنی دادی سے ہی سیکھی ہیں۔ مطالعے کا شوق بھی میری دادی نے ہی پروان چڑھایا ہے، کیونکہ وہ ہر مہینے باقاعدگی سے نونہال خرید کر پڑھوایا کرتی تھیں۔
میں اپنی دادی اور دادا کے ہمراہ:
میرے دادا ۱۹۲۴ء میں ریاست گوالیار کے چھوٹے سے گاؤں نلکھیڑہ میں پیدا ہوئے، لیکن اُنہوں نے تشکیلِ پاکستان سے قبل کا بڑا حصہ بڑودا میں گزارا ہے۔ عرصہ دراز سے خاندانی پیشہ خیاطی تھا، لہذا دادا نے بھی اسی پیشے میں قسمت آزمائی شروع کی۔ تشکیلِ پاکستان سے قبل اُن کی اپنے ماموں کی بیٹی سے شادی ہوئی تھی، لیکن وہ والی دادی کوئی اولاد ہونے سے قبل ہی چل بسیں۔ انیس سو اڑتالیس میں میرے دادا کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا (جس کے لیے میں اُن کا شکرگزار ہوں)، اور محمودآباد میں سکونت اختیار کی جو چند سال قبل تک جاری رہی۔ ۱۹۹۷ تک میرے دادا اپنی خیاطی کی دکان میں کام کیا کرتے تھے، اور اپنے تمام بیٹوں کو بھی انہوں نے یہ فن سکھایا ہے۔ جب تمام بیٹوں نے تعلیم حاصل کر کے خیاطی کا کام چھوڑ دیا، تو آخرکار میرے دادا نے بھی اس پرانے خاندانی کام سے 'ریٹائرمنٹ' لے لی۔ اس کے علاہ ساٹھ کی دہائی میں کچھ عرصے ٹیکسی بھی چلائی ہے۔ میرے داد محمودآباد میں واقع تاج مسجد کے تاحیات صدر اور منتظم ہیں، حالانکہ اب اُنہیں محمودآباد سے منتقل ہوئے کچھ چھ سات سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ زبانیں سیکھنے کا شوق مجھے دادا سے ہی لاحق ہوا ہے۔ نیز، میرا نام 'حسان' بھی دادا کی ایماء پر رکھا گیا تھا۔ بڑے محنتی اور نفیس انسان ہیں، اور اس عمر میں بھی ویسے ہی زندہ دل اور مشفق۔
یہ تھی وہ مسجد جس کے منتظم اور صدر میرے دادا ہیں، اور یہ جو کھڑکی نظر آ رہی ہے یہ میرے دادا کا دفتر اور ذاتی کتابخانہ ہوا کرتا تھا۔ حالیہ دنوں میں مسجد کی از سرِ نو تعمیر جاری ہے۔
میری دادی کا پورا نام رضیہ سلطانہ خاتون ہے۔ آپ دہلی میں پیدا ہوئی تھیں، اور وہیں سے تشکیلِ پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہوئیں۔ اپنے زمانے کے لحاظ سے پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ اردو زبان کا بہت اچھا علم رکھتی ہیں، اور بڑے اچھے لب و لہجے میں بات کرتی ہیں۔ زنانِ محلہ میں بطور نعت خواں مشہور تھیں۔ اور مجھ سمیت محلے کے کئی بچوں نے اُن سے ناظرہ قرآن بھی پڑھا ہے۔ محلے میں 'خالہ جان' کے نام سے مشہور تھیں۔ چونکہ میں اُن کا سب سے بڑا پوتا ہوں، اس لیے اُن کا چہیتا رہا ہوں۔ اور میری تربیت میں اُن کا بہت ہاتھ ہے۔ کئی اچھی چیزیں میں نے سب سے پہلے اپنی دادی سے ہی سیکھی ہیں۔ مطالعے کا شوق بھی میری دادی نے ہی پروان چڑھایا ہے، کیونکہ وہ ہر مہینے باقاعدگی سے نونہال خرید کر پڑھوایا کرتی تھیں۔
میں اپنی دادی اور دادا کے ہمراہ: