میر میرے سنگِ مزار پر فرہاد - غزلِ میر تقی میر

محمد وارث

لائبریرین
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد

ہم سے بن مرگ کیا جدا ہو ملال
جان کے ساتھ ہے دلِ ناشاد

آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد

فکرِ تعمیر میں نہ رہ منعم
زندگانی کی کچھ بھی ہے بنیاد؟

خاک بھی سر پہ ڈالنے کو نہیں
کس خرابہ میں ہم ہوئے آباد

سنتے ہو، ٹک سنو کہ پھر مجھ بعد
نہ سنو گے یہ نالہ و فریاد

لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم
خاک کس دل جلے کی کی برباد

بھُولا جا ہے غمِ بُتاں میں جی
غرض آتا ہے پھر خدا ہی یاد

تیرے قیدِ قفس کا کیا شکوہ
نالہ اپنے سے، اپنے سے فریاد

ہرطرف ہیں اسیر ہم آواز
باغ ہے گھر ترا تو اے صیّاد

ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں گے
اپنی قیدِ حیات سے آزاد

ایسا ہرزہ ہے وہ کہ اٹھتے صبح
سو جگہ جانا اس کی ہے معتاد

نقش صورت پذیر نہیں اس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد

خوب ہے خاک سے بزرگاں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد

پر مروّت کہاں اسے اے میر
تو ہی مجھ دل جلے کو کر ناشاد

نامرادی ہو جس پہ پروانہ
وہ جلاتا پھرے چراغِ مراد

میر تقی میر
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا ۔۔۔ عالمِ ایجاد
 

فاتح

لائبریرین
میرے سنگِ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا اُستاد
ہائے ہائے ہائے
جان نکال لینے والا شعر ہے
 

فاتح

لائبریرین
کیسری داس سیٹھ سپرنٹنڈنٹ کی 1921 میں مطبوعہ کلیات میر، جس کا مقدمہ و فرہنگ عبد الباری آسی کا لکھا ہوا ہے، کے مطابق چند اشعار آپ کے ارسال کردہ اشعار سے مختلف ہیں:
آنکھیں موند اور سفر عدم کا کر
بس بہت دیکھا عالمِ ایجاد
موند آنکھیں سفر عدم کا کر
بس ہے دیکھا نہ عالمِ ایجاد
ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں گے
اپنی قیدِ حیات سے آزاد
ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہوں کہیں
اپنی قید حیات سے آزاد
ایسا ہرزہ ہے وہ کہ اٹھتے صبح
سو جگہ جانا اس کی ہے معتاد
ایسا وہ شوخ ہے کہ اٹھتے صبح
جانا سو جائے اس کی ہے معتاد
نقش صورت پذیر نہیں اس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد
نہیں صورت پذیر نقش اس کا
یوں ہی تصدیع کھینچے ہے بہزاد
خوب ہے خاک سے بزرگاں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد
خوب ہے خاک سے بزرگوں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد
پر مروّت کہاں اسے اے میر
تو ہی مجھ دل جلے کو کر ناشاد
پر مروت کہاں کی ہے اے میر
تو ہی مجھ دل جلے کو کر ارشاد

جب کہ کلیات میرؔ مطبع نول کشور 1874 میں جو اشعار 1921 میں طبع ہونےو الی کلیات سے مختلف ہیں، وہ یوں ہیں:
لگتی ہے کچھ سموم سی تو نسیم
خاک کس دل جلے کی دی برباد

ترے قید قفس کا کیا شکوہ
نالے اپنے سے اپنی سی فریاد

ہم کو مرنا یہ ہے کہ کب ہو کہیں
اپنی قید حیات سے آزاد
قطعہ
خوب ہے خاک سے بزرگوں کی
چاہنا تو مرے تئیں امداد

نامرادی ہو جس پہ پروانہ
وہ جلاتا پھرے چراغ مراد

مجھے حیرت تھی کہ میر نے جس شعر مین تخلص برتا اسے مقطع کیوں نہ بنایا اور اس کے بعد مزید ایک شعر ڈال کر مقطع کیوں کیا۔۔۔ اب کھلا کہ مقطع تخلص والا ہی شعر ہے جب کہ جو شعر 1921 کی طبع میں آخری شعر کے طور پر درج ہے دراصل وہ مقطع سے پہلے قطعہ بند ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب، میں نے یہ غزل نسخہ لاہور نقوش میر نمبر سے نقل کی تھی اور انہوں نے فٹ نوٹس میں جو مصرعے آپ نے مختلف درج کیے ہیں وہ بھی نسخہ کلکتہ کے حوالے سے دیے ہوئے تھے۔ اچھا ہوا آپ نے درج کر دیے، ممنون ہوں :)
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب، میں نے یہ غزل نسخہ لاہور نقوش میر نمبر سے نقل کی تھی اور انہوں نے فٹ نوٹس میں جو مصرعے آپ نے مختلف درج کیے ہیں وہ بھی نسخہ کلکتہ کے حوالے سے دیے ہوئے تھے۔ اچھا ہوا آپ نے درج کر دیے، ممنون ہوں :)
کیا نقوش میں یہ مصرع بھی یوں ہی درج ہے:
نقش صورت پذیر نہیں اس کا
 
Top