یہ بیماری کہاں سے آئی ، اسکا جاننا بیکارہے۔ بجلی، ٹی وی، موٹر، اور اب انٹرنیٹ و مبائل فون جیسی بے شمار “بیماریاں“ بھی بلاشبہ اسی جگہ سے آئی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بیماریاں ہر دل عزیز ہیں کیونکہ انکے بغیر تو ہم مندرجہ بالا تحریر لکھ ہی نہیں سکتے!
یاد رہے کہ مندرجہ بالا تحریر جمیل نوری نستعلیق نامی “بیماری“ میں لکھی گئی ہے جو کہ مائکروسافٹ وولٹ نامی “بیماری“ جو کہ مغرب میں ڈویلپ ہوا تھا، کی مدد سے تخلیق کیا گیا اور انٹرنیٹ اور کمپیوٹر جیسی وباؤں کی مدد سے ریلیز کیا گیا تا کہ پاکستان میں موجود کالم نگار اسکی مدد سے اپنی روزی روٹی یعنی ردی کاغذ جسے ہم نوٹ سمجھتے ہیں کا بندوبست کر سکیں