فاخر رضا
محفلین
سلام
میرے والد صاحب ۲۷ جنوری کو انتقال کرگئے
کئی دفعہ سوچا کہ لکھ دوں مگر وقت نہیں مل سکا۔
وہ بیاسی سال کے تھے اور کچھ دن سے زیادہ بیمار تھے۔ آخر میں ہم انہیں گھر لے آئے تھے کیونکہ علاج ممکن نہیں تھا۔ گھر پر ہی انتقال ہوا۔
وہ پیشے کے لحاظ سے سول انجینیئر تھے۔ سعودی عرب اور عمان میں بھی کام کیا تھا۔ وہ ۱۹۵۸ کے پنجاب کے گریجیویٹ تھے۔ چاروں صوبوں اور گلگت میں بہت سارے بڑے پروجیکٹ پر انچارج رہے تھے۔ خضدار روڈ، سن سہون روڈ، نیٹی جیٹی کا نیا پل، ایوب میڈیکل وغیرہ ان کے چند پروجیکٹ تھے۔
۱۹۹۸ میں ریٹائر ہوگئے اس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی مکمل طور پر ائمہ اہل بیت کی تعلیمات کو ترویج دینے میں وقف کردی۔ اس حوالے سے انہوں نے شاعری کو میڈیم بنایا۔
انہوں نے ستائیس کتابیں لکھیں ان میں شروع میں انہوں نے مختلف دعاؤں اور زیارات کا منظوم ترجمہ کیا۔ ان میں زیارت ناحیہ، دعائے ندبہ، مکمل صحیفۂ کاملہ، ائمہ معصومین علیہ السلام کی دعاؤں کا ترجمہ، زیارت جامعہ، حمدہی حمداور دیگر شامل ہیں۔
نثر کی کتابوں میں دعوتِ اتحاد، حضرت علی اور اسلامی اتحاد، حج اور معصومین علیہ السلام، قرآن اور شیطان، آج اور کل، قرآن اور اخلاق، انفاق اور قرآن، احسن الاحادیث، احادیث معصومین، معاشی مشکلات کا حل، امام مہدی کی علامتیں آسمانی کتابوں میں، ہدایت متقین، حقوق والدین، قرآن اور معصومین، ارشادات معصومین، اور دیگر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ وہ قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑہنے کے بہت بڑے داعی تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے بہت سے قرآن سینٹر بنائےاور بہت سارے قرآن ترجمے کے ساتھ تقسیم کئے۔ وہ ہر ماہ ایک قرآن ضرور مکمل پڑہتے تھے۔
وہ ایک ٹرسٹ بھی چلا رہے تھے۔ اس کا نام ہے افتا ویلفیئر ٹرسٹ۔ اسے وہ اپنے خاندان اور دوستوں کی مدد سے چلا رہے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی ذمے داری مجھ پر ہے۔ وہ ہر ماہ ۴۱ بیواؤں کو راشن پہنچانے کا بندوبست کرتے ان کے گھروں پر۔ اسی طرح پانی کا انتظام اور ۶۰ بچوں کی ماہانہ اسکول فیس دیتے تھے۔ اس طرح تقریباََ چھ بکرے ہر ماہ صدقے کے تقسیم کراتے اور وہ گوشت غریب علاقوں میں تقسیم ہوتا جہاں سچ مچ لوگ پورے پورے مہینے گوشت نہیں کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک کلینک بھی چلارہے تھے۔
وہ میرے آئیڈیل تھے اور اب بھی ہیں۔ ان کے انتقال کے وقت میں ان کے سرہانے ہی بیٹھا تھا اور دعائیں پڑھ رہا تھا۔ وہ بہت سکون سے اپنی منزل کی طرف گئے۔ مجھے آج یہ الفاظ ٹائپ کرتے وقت بھی یقین نہیں آرہا کہ وہ اب نہیں ہیں۔ امی کے علاوہ ہماری ایک بہن ہے اور ہم سات بھائی ہیں۔ سب ہی شادی شدہ ہیں اور میری بہن اور بھائی تو دادی اور دادا بھی بن چکے ہیں۔
خدا آپ سب کے بزرگوں کا سایہ قائم رکھے اور ان کی خدمت کا موقع فراہم کرے۔ آمین
اتنے دن غیر حاضری کی معذرت
فاخر
میرے والد صاحب ۲۷ جنوری کو انتقال کرگئے
کئی دفعہ سوچا کہ لکھ دوں مگر وقت نہیں مل سکا۔
وہ بیاسی سال کے تھے اور کچھ دن سے زیادہ بیمار تھے۔ آخر میں ہم انہیں گھر لے آئے تھے کیونکہ علاج ممکن نہیں تھا۔ گھر پر ہی انتقال ہوا۔
وہ پیشے کے لحاظ سے سول انجینیئر تھے۔ سعودی عرب اور عمان میں بھی کام کیا تھا۔ وہ ۱۹۵۸ کے پنجاب کے گریجیویٹ تھے۔ چاروں صوبوں اور گلگت میں بہت سارے بڑے پروجیکٹ پر انچارج رہے تھے۔ خضدار روڈ، سن سہون روڈ، نیٹی جیٹی کا نیا پل، ایوب میڈیکل وغیرہ ان کے چند پروجیکٹ تھے۔
۱۹۹۸ میں ریٹائر ہوگئے اس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی مکمل طور پر ائمہ اہل بیت کی تعلیمات کو ترویج دینے میں وقف کردی۔ اس حوالے سے انہوں نے شاعری کو میڈیم بنایا۔
انہوں نے ستائیس کتابیں لکھیں ان میں شروع میں انہوں نے مختلف دعاؤں اور زیارات کا منظوم ترجمہ کیا۔ ان میں زیارت ناحیہ، دعائے ندبہ، مکمل صحیفۂ کاملہ، ائمہ معصومین علیہ السلام کی دعاؤں کا ترجمہ، زیارت جامعہ، حمدہی حمداور دیگر شامل ہیں۔
نثر کی کتابوں میں دعوتِ اتحاد، حضرت علی اور اسلامی اتحاد، حج اور معصومین علیہ السلام، قرآن اور شیطان، آج اور کل، قرآن اور اخلاق، انفاق اور قرآن، احسن الاحادیث، احادیث معصومین، معاشی مشکلات کا حل، امام مہدی کی علامتیں آسمانی کتابوں میں، ہدایت متقین، حقوق والدین، قرآن اور معصومین، ارشادات معصومین، اور دیگر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ وہ قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑہنے کے بہت بڑے داعی تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے بہت سے قرآن سینٹر بنائےاور بہت سارے قرآن ترجمے کے ساتھ تقسیم کئے۔ وہ ہر ماہ ایک قرآن ضرور مکمل پڑہتے تھے۔
وہ ایک ٹرسٹ بھی چلا رہے تھے۔ اس کا نام ہے افتا ویلفیئر ٹرسٹ۔ اسے وہ اپنے خاندان اور دوستوں کی مدد سے چلا رہے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی ذمے داری مجھ پر ہے۔ وہ ہر ماہ ۴۱ بیواؤں کو راشن پہنچانے کا بندوبست کرتے ان کے گھروں پر۔ اسی طرح پانی کا انتظام اور ۶۰ بچوں کی ماہانہ اسکول فیس دیتے تھے۔ اس طرح تقریباََ چھ بکرے ہر ماہ صدقے کے تقسیم کراتے اور وہ گوشت غریب علاقوں میں تقسیم ہوتا جہاں سچ مچ لوگ پورے پورے مہینے گوشت نہیں کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک کلینک بھی چلارہے تھے۔
وہ میرے آئیڈیل تھے اور اب بھی ہیں۔ ان کے انتقال کے وقت میں ان کے سرہانے ہی بیٹھا تھا اور دعائیں پڑھ رہا تھا۔ وہ بہت سکون سے اپنی منزل کی طرف گئے۔ مجھے آج یہ الفاظ ٹائپ کرتے وقت بھی یقین نہیں آرہا کہ وہ اب نہیں ہیں۔ امی کے علاوہ ہماری ایک بہن ہے اور ہم سات بھائی ہیں۔ سب ہی شادی شدہ ہیں اور میری بہن اور بھائی تو دادی اور دادا بھی بن چکے ہیں۔
خدا آپ سب کے بزرگوں کا سایہ قائم رکھے اور ان کی خدمت کا موقع فراہم کرے۔ آمین
اتنے دن غیر حاضری کی معذرت
فاخر