سید عاطف علی
لائبریرین
میرے والد صاحب مرحوم (سید خورشید علی ضیا عزیزی جے پوری) کی ایک اور غزل۔
صراحی سر نگوں ، مینا تہی اور جام خالی ہے
مگر ہم تائبوں نے نیّتوں میں مے چھپالی ہے
کبھی اشکوں کی صورت میں کبھی آہوں کی صورت میں
نکلنے کی تمنّا نے یہی صورت نکالی ہے
یہی ڈر ہے کہیں گلچیں نہ کہہ دیں یہ جہاں والے
کبھی صحنِ چمن سے پھول کی پتّی اٹھا لی ہے
ابھر آئی وہاں محراب تیرے آستانے کی
جہاں فرطِ محبّت سے جبیں ہم نے جھکا لی ہے
کہیں ایسا نہ ہو بھولے سے جنّت میں چلا جاؤں
گلی فردوس کی تیری گلی کے ساتھ والی ہے
ضیاؔ اس خواب کی تعبیر بھی اک خواب ہے اپنا
پسینہ آ گیا جب اس کے دامن کی ہوا لی ہے
مگر ہم تائبوں نے نیّتوں میں مے چھپالی ہے
کبھی اشکوں کی صورت میں کبھی آہوں کی صورت میں
نکلنے کی تمنّا نے یہی صورت نکالی ہے
یہی ڈر ہے کہیں گلچیں نہ کہہ دیں یہ جہاں والے
کبھی صحنِ چمن سے پھول کی پتّی اٹھا لی ہے
ابھر آئی وہاں محراب تیرے آستانے کی
جہاں فرطِ محبّت سے جبیں ہم نے جھکا لی ہے
کہیں ایسا نہ ہو بھولے سے جنّت میں چلا جاؤں
گلی فردوس کی تیری گلی کے ساتھ والی ہے
ضیاؔ اس خواب کی تعبیر بھی اک خواب ہے اپنا
پسینہ آ گیا جب اس کے دامن کی ہوا لی ہے
آخری تدوین: