چوہدری لیاقت علی
محفلین
کچھ دن قبل کراچی کے ایک معروف پبلشر کے ایما ء پر ان اشعار کا انتخاب کیا ہے۔ امید ہے سب کو پسند آئے گا
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
سودا
سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں
سودا
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
سیماب اکبر آبادی
جوملا اس نے بے وفائی کی
کچھ عجب رنگ ہے زمانے کا
مصحفی
یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کہ بدستور کیئے جاتے ہیں
صبا اکبر آبادی
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کر دیکھ لیا
فیض
سپنے دیکھتے دیکھتے ہم تو ہو گئے سپنا آپ
چلتے چلتے تھکے کچھ ایسے باقی رہی نہ چاپ
عارف عبدالمتین
کب سے تیرے ہونٹوں کی طرف دیکھ رہا ہوں
کشکول سماعت میں کوئی پھول گرا دے
انور مسعود
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
انور مسعود
آج تنہائی میں جو عہد کیے ہیں خود سے
دل بہت سادہ ہے، جا اس کو بتائے نہ کہیں
ظفر اقبال
وفا سرشت ہوں، دوری میں بھی محبت ہے
اکیلے رہنے میں لیکن بڑی اذیت ہے
فاطمہ حسن
دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے
کھیلو، توڑو، جی بہلاؤ
اسرار ناروی
کہیں کچھ اور بھی ہو جاؤں نہ ریزہ ریزہ
ایسا ٹوٹا ہوں کہ جڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے
سعود عثمانی
مہلت عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت
اک ڈھلکے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے
سعود عثمانی
تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
احمد مشتاق
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
احمد مشتاق
کہیں پتا کہیں کانٹا کہیں شاخیں کہیں پھول
وہ مرے سامنے آتا ہے گلستاں بن کر
احمد مشتاق
تو بھی تو کوئی غیر نہیں غم گسار ہے
تھوڑی سی خاک تو بھی میرے سر میں ڈال دے
اسلم کولسری
عکس جمال یار بھی کیا تھا دیر تک
ٓ آ ئینے قمریوں کی طرح بولتے رہے
سراج الدین ظفر
چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دل مشتاق ٹہر جا وہی منظر آیا
احمد مشتاق
ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
خالد احمد
رابطہ کس سے تھا کسے، کس کا شناسا کون تھا
شہر بھر تنہا تھا، لیکن مجھ سا تنہا کون تھا
خالد احمد
نہ اجنبی ہے کوئی اور نہ آشنا کوئی
اکیلے پن کی بھی ہوتی ہے انتہا کوئی
جمال احسانی
تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی
ٹہھرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارہ سا
اسلم کولسری
بہت مشکل ہے کچھ کہنا یقیں سے
چمکتے ہیں کہ تارے کانپتے ہیں
اسلم کولسری
اب کہاں تک کہو تمہی کوئی
ٹوٹ کے بنتا ٹوٹتا بن کر
اسلم کولسری
روشن یادوں کے جھرمٹ میں دل زندہ ہے لیکن
لالٹین کی چمنی میں ہو بند پتنگا جیسے
اسلم کولسری
چراغ بن کے جلا جس کو واسطے اک عمر
چلا گیا وہ ہوا کے سپرد کر کے مجھے
جمال احسانی
آنکھوں میں جو بھر لو گے توکانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لئے ہیں
جاں نثار اختر
میں کتنے لمحے نہ جانے کہاں گنواآیا
تری نگاہ تو سارا حساب مانگے ہے
جاں نثار اختر
کاش میں تجھ پہ ریاضی کے سوالوں کی طرح
خود کو تقسیم کروں کچھ بھی نہ حاصل آئے
جمال احسانی
یا توآج ہمیں اپنا لے، یا تو آج ہمارا بن
دیکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جیتا ہے
ابن انشاء
اُس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اُس روز جو اُن سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا؟
ابن انشاء
تو نے احساس ہی نہ ہونے دیا
جو بھی کچھ تھا تری بدولت تھا
جمال احسانی
ایک یاد ہے جودامن دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
شکیب جلالی
ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی معیاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
نصیر ترابی
اس کے جانے کی دیر تھی شاید
اپنی آنکھوں سے خواب کھو بیٹھے
نصیر ترابی
میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
انور مسعود
اس کا کیا میں بھید بتاؤں، اس کا کیا انداز کہوں
بات بھی میری سننا چاہے، ہاتھ بھی رکھے کانوں پر
جاں نثار اختر
مرگ مجنوں پہ عقل گم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے
میر تقی میر
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
عدیم ہاشمی
اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم
اسی نگاہ کے تیور سنبھال سے بھی گئے
عزیز حامد مدنی
وقت کی بات ہے یاد آجانا لیکن اس کی بات نہ پوچھ
یوں تو لاکھوں باتیں نکلیں تیرا ہی مذکور رہا
عزیز حامد مدنی
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
فیض احمد فیض
نہ جانے کس لئے امیدواربیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
فیض احمد فیض
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
گلزار
جیسے کوئی سکھ کا سپنا، جیسے آس ملن کی
ہم سمجھے تھے دکھ کی مدت بھی دو چار گھڑی ہے
اسلم کولسری
جو داستاں اسے کہنا تھی پھر نا گفتہ رہی
کہ میں بھی تھک سا گیا تھا اسے بھی سونا تھا
محسن نقوی
میری دکھتی ہوئی آنکھوں میں مگر آج کی شام
جتنی شمعیں بھی فروزاں ہیں، تیرے نام کی ہیں
محسن نقوی
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی نہ وصال رت کے کرم جتا!
جو تری تلاش میں گم ہوئے کبھی ان دنوں کا حساب کر
محسن نقوی
تمام عمر کی نا معتبر رفاقت سے
کہیں بھلا ہو کہ پل بھر ملیں یقیں سے ملیں
پروین شاکر
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
پروین شاکر
تو ہم نفس ہے نہ ہم سفر ہے کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے
محسن نقوی
لہروں کی خامشی پہ نہ جا اے مزاج دل
گہرے سمندروں میں بڑا ارتعاش ہے
محسن نقوی
حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
امجد اسلام امجد
سمے کے سمند ر کہا تو نے جو بھی سنا پر نہ سمجھے
جوانی کی ندی میں تھا تیز پانی ذرا پھر سے کہنا
امجد اسلام امجد
مری عمر سے نہ سمٹ سکے مرے دل میں اتنے سوال تھے
ترے پاس جتنے جواب تھے تری اک نگاہ میں آ گئے
امجد اسلام امجد
جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا
پروین شاکر
ہا ئے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے
حسرت موہانی
یہ کس آشفتگی میں عمر ہم نے رائیگاں کردی
اسی کو یاد ہے رکھا جسے دل سے بھلانا تھا
نوشی گیلانی
کتنی آساں ہے صبر کی تلقین
کتنا مشکل ہے دل پہ سل رکھنا
سعود عثمانی
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
غالب
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
ناصر کاظمی
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
چراغ حسن حسرت
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر، یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
غالب
موت کی راہ نہ دیکھوں، کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں؟ کہ نہ آ ؤ تو بُلائے نہ بنے
غالب
لکڑی جل کوئلہ بھئی اور کوئلہ جل بھیو راکھ
میں پاپن ایسی جلی نہ کوئلہ بھئی نہ راکھ
امیر خسرو
غم اگرچہ جاں گسل ہے،پہ بچیں کہاں کہ دل ہے
غم عشق اگر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا
غالب
رخ و زلف پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا
خواجہ حیدر علی آتش
جذبہء شوق کد ھر کو لئے جاتا ہے مجھے
پردۂ راز سے کیا تم نے پکارا ہے مجھے
حسرت موہانی
دل و جاں فدائے راہ ہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم
سر کوئے دل فگاراں، شب آرزو کا عالم
فیض احمد فیض
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیزہے لذت آشنائی
محمد اقبال
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
محمد اقبال
اس نے شگفت گل کی طرح مجھ سے کچھ سے کہا
پریوں کہ خامشی سے زیادہ سخن سے کم
احمد فراز
توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دل داری کی
اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی
عرفان صدیقی
شبنم تجھے اجازت اظہار غم تو ہے
تو خوش نصیب ہے کہ تری آنکھ نم تو ہے
ذکی کیفی
میں ڈھونڈتا آیا ہوں زندگی اپنی
میں تم سے شوق ملاقات میں نہیں آیا
سعود عثمانی
ڈھونڈیں ہم اب نقوش سبک رفتگاں کہاں
اب گرد کارواں بھی نہیں ، کارواں کہاں
تقی عثمانی
آثار سارے صبح قیامت کے ہوگئے
محفل میں آج کون سر شام آگیا
مفتی محمد شفیع
معذرت چاہتا ہوں دل میں بہت شور تھا آج
تیری آواز بڑی دیر میں پہچانی ہے
نوید رضا
وہ ترا پل بھر کو ملنا ، پھر بچھڑنے کے لیے
دل کی مٹھی میں ہے اس لمحے کا جگنو آج بھی
خورشید رضوی
جانے کس موڑ پہ لے آئی ہے ہمیں تری طلب
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں
امید فاضلی
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک
تاجدار عادل
اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے
اک شخص تھا کہ مل نہ سکا عمر بھر مجھے
سید ضمیر جعفری
اک تری یاد کا تسلسل ہے
اور کار نفس میں کچھ بھی نہیں
غلام حسین ساجد
طلوع مہر، شگفت سحر، سیاہئی شب
تری طلب، تجھے پانی کی آرزو، ترا غم
مجید امجد
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
مصطفٰی زیدی
کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے
گلزار
دل دیکھنے چلا تھا طلسم حیات کو
بس یہ کسر رہی ہے کہ پتھر نہیں بنا
سلیم احمد
اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہو سکا
مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا
احمد فراز
اب تری یاد میں روئیں گے نہ حیراں ہوں گے
ان سے پیماں ہے کوئی، دل سے پیماں ہے کوئی
ابن انشاء
وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
سودا
سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر
اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں
سودا
دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
سیماب اکبر آبادی
جوملا اس نے بے وفائی کی
کچھ عجب رنگ ہے زمانے کا
مصحفی
یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
کام دنیا کہ بدستور کیئے جاتے ہیں
صبا اکبر آبادی
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کر دیکھ لیا
فیض
سپنے دیکھتے دیکھتے ہم تو ہو گئے سپنا آپ
چلتے چلتے تھکے کچھ ایسے باقی رہی نہ چاپ
عارف عبدالمتین
کب سے تیرے ہونٹوں کی طرف دیکھ رہا ہوں
کشکول سماعت میں کوئی پھول گرا دے
انور مسعود
اب کہاں اور کسی چیز کی جا رکھی ہے
دل میں اک تیری تمنا جو بسا رکھی ہے
انور مسعود
آج تنہائی میں جو عہد کیے ہیں خود سے
دل بہت سادہ ہے، جا اس کو بتائے نہ کہیں
ظفر اقبال
وفا سرشت ہوں، دوری میں بھی محبت ہے
اکیلے رہنے میں لیکن بڑی اذیت ہے
فاطمہ حسن
دل سا کھلونا ہاتھ آیا ہے
کھیلو، توڑو، جی بہلاؤ
اسرار ناروی
کہیں کچھ اور بھی ہو جاؤں نہ ریزہ ریزہ
ایسا ٹوٹا ہوں کہ جڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے
سعود عثمانی
مہلت عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت
اک ڈھلکے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے
سعود عثمانی
تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
احمد مشتاق
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
احمد مشتاق
کہیں پتا کہیں کانٹا کہیں شاخیں کہیں پھول
وہ مرے سامنے آتا ہے گلستاں بن کر
احمد مشتاق
تو بھی تو کوئی غیر نہیں غم گسار ہے
تھوڑی سی خاک تو بھی میرے سر میں ڈال دے
اسلم کولسری
عکس جمال یار بھی کیا تھا دیر تک
ٓ آ ئینے قمریوں کی طرح بولتے رہے
سراج الدین ظفر
چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دل مشتاق ٹہر جا وہی منظر آیا
احمد مشتاق
ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
خالد احمد
رابطہ کس سے تھا کسے، کس کا شناسا کون تھا
شہر بھر تنہا تھا، لیکن مجھ سا تنہا کون تھا
خالد احمد
نہ اجنبی ہے کوئی اور نہ آشنا کوئی
اکیلے پن کی بھی ہوتی ہے انتہا کوئی
جمال احسانی
تارا سا بکھرتا ہے آکاش سے یا کوئی
ٹہھرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارہ سا
اسلم کولسری
بہت مشکل ہے کچھ کہنا یقیں سے
چمکتے ہیں کہ تارے کانپتے ہیں
اسلم کولسری
اب کہاں تک کہو تمہی کوئی
ٹوٹ کے بنتا ٹوٹتا بن کر
اسلم کولسری
روشن یادوں کے جھرمٹ میں دل زندہ ہے لیکن
لالٹین کی چمنی میں ہو بند پتنگا جیسے
اسلم کولسری
چراغ بن کے جلا جس کو واسطے اک عمر
چلا گیا وہ ہوا کے سپرد کر کے مجھے
جمال احسانی
آنکھوں میں جو بھر لو گے توکانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لئے ہیں
جاں نثار اختر
میں کتنے لمحے نہ جانے کہاں گنواآیا
تری نگاہ تو سارا حساب مانگے ہے
جاں نثار اختر
کاش میں تجھ پہ ریاضی کے سوالوں کی طرح
خود کو تقسیم کروں کچھ بھی نہ حاصل آئے
جمال احسانی
یا توآج ہمیں اپنا لے، یا تو آج ہمارا بن
دیکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جیتا ہے
ابن انشاء
اُس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اُس روز جو اُن سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا؟
ابن انشاء
تو نے احساس ہی نہ ہونے دیا
جو بھی کچھ تھا تری بدولت تھا
جمال احسانی
ایک یاد ہے جودامن دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
شکیب جلالی
ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی معیاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
نصیر ترابی
اس کے جانے کی دیر تھی شاید
اپنی آنکھوں سے خواب کھو بیٹھے
نصیر ترابی
میں تو قائم ہوں ترے غم کی بدولت ورنہ
یوں بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے
انور مسعود
اس کا کیا میں بھید بتاؤں، اس کا کیا انداز کہوں
بات بھی میری سننا چاہے، ہاتھ بھی رکھے کانوں پر
جاں نثار اختر
مرگ مجنوں پہ عقل گم ہے میر
کیا دوانے نے موت پائی ہے
میر تقی میر
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
عدیم ہاشمی
اسی نگاہ کی نرمی سے ڈگمگائے قدم
اسی نگاہ کے تیور سنبھال سے بھی گئے
عزیز حامد مدنی
وقت کی بات ہے یاد آجانا لیکن اس کی بات نہ پوچھ
یوں تو لاکھوں باتیں نکلیں تیرا ہی مذکور رہا
عزیز حامد مدنی
اک تری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
فیض احمد فیض
نہ جانے کس لئے امیدواربیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
فیض احمد فیض
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
گلزار
جیسے کوئی سکھ کا سپنا، جیسے آس ملن کی
ہم سمجھے تھے دکھ کی مدت بھی دو چار گھڑی ہے
اسلم کولسری
جو داستاں اسے کہنا تھی پھر نا گفتہ رہی
کہ میں بھی تھک سا گیا تھا اسے بھی سونا تھا
محسن نقوی
میری دکھتی ہوئی آنکھوں میں مگر آج کی شام
جتنی شمعیں بھی فروزاں ہیں، تیرے نام کی ہیں
محسن نقوی
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی نہ وصال رت کے کرم جتا!
جو تری تلاش میں گم ہوئے کبھی ان دنوں کا حساب کر
محسن نقوی
تمام عمر کی نا معتبر رفاقت سے
کہیں بھلا ہو کہ پل بھر ملیں یقیں سے ملیں
پروین شاکر
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
پروین شاکر
تو ہم نفس ہے نہ ہم سفر ہے کسے خبر ہے کہ تو کدھر ہے
میں دستکیں دے کے پوچھ بیٹھا مکیں مکیں سے مکاں مکاں سے
محسن نقوی
لہروں کی خامشی پہ نہ جا اے مزاج دل
گہرے سمندروں میں بڑا ارتعاش ہے
محسن نقوی
حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
امجد اسلام امجد
سمے کے سمند ر کہا تو نے جو بھی سنا پر نہ سمجھے
جوانی کی ندی میں تھا تیز پانی ذرا پھر سے کہنا
امجد اسلام امجد
مری عمر سے نہ سمٹ سکے مرے دل میں اتنے سوال تھے
ترے پاس جتنے جواب تھے تری اک نگاہ میں آ گئے
امجد اسلام امجد
جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا
پروین شاکر
ہا ئے ری بے اختیاری یہ تو سب کچھ ہو مگر
اس سراپا ناز سے کیونکر خفا ہو جائیے
حسرت موہانی
یہ کس آشفتگی میں عمر ہم نے رائیگاں کردی
اسی کو یاد ہے رکھا جسے دل سے بھلانا تھا
نوشی گیلانی
کتنی آساں ہے صبر کی تلقین
کتنا مشکل ہے دل پہ سل رکھنا
سعود عثمانی
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
غالب
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
ناصر کاظمی
امید تو بندھ جاتی، تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
چراغ حسن حسرت
حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر، یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا
غالب
موت کی راہ نہ دیکھوں، کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں؟ کہ نہ آ ؤ تو بُلائے نہ بنے
غالب
لکڑی جل کوئلہ بھئی اور کوئلہ جل بھیو راکھ
میں پاپن ایسی جلی نہ کوئلہ بھئی نہ راکھ
امیر خسرو
غم اگرچہ جاں گسل ہے،پہ بچیں کہاں کہ دل ہے
غم عشق اگر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا
غالب
رخ و زلف پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا
خواجہ حیدر علی آتش
جذبہء شوق کد ھر کو لئے جاتا ہے مجھے
پردۂ راز سے کیا تم نے پکارا ہے مجھے
حسرت موہانی
دل و جاں فدائے راہ ہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم
سر کوئے دل فگاراں، شب آرزو کا عالم
فیض احمد فیض
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیزہے لذت آشنائی
محمد اقبال
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
محمد اقبال
اس نے شگفت گل کی طرح مجھ سے کچھ سے کہا
پریوں کہ خامشی سے زیادہ سخن سے کم
احمد فراز
توڑ دی اس نے وہ زنجیر ہی دل داری کی
اور تشہیر کرو اپنی گرفتاری کی
عرفان صدیقی
شبنم تجھے اجازت اظہار غم تو ہے
تو خوش نصیب ہے کہ تری آنکھ نم تو ہے
ذکی کیفی
میں ڈھونڈتا آیا ہوں زندگی اپنی
میں تم سے شوق ملاقات میں نہیں آیا
سعود عثمانی
ڈھونڈیں ہم اب نقوش سبک رفتگاں کہاں
اب گرد کارواں بھی نہیں ، کارواں کہاں
تقی عثمانی
آثار سارے صبح قیامت کے ہوگئے
محفل میں آج کون سر شام آگیا
مفتی محمد شفیع
معذرت چاہتا ہوں دل میں بہت شور تھا آج
تیری آواز بڑی دیر میں پہچانی ہے
نوید رضا
وہ ترا پل بھر کو ملنا ، پھر بچھڑنے کے لیے
دل کی مٹھی میں ہے اس لمحے کا جگنو آج بھی
خورشید رضوی
جانے کس موڑ پہ لے آئی ہے ہمیں تری طلب
سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں
امید فاضلی
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک
تاجدار عادل
اپنی خبر نہیں ہے بجز اس قدر مجھے
اک شخص تھا کہ مل نہ سکا عمر بھر مجھے
سید ضمیر جعفری
اک تری یاد کا تسلسل ہے
اور کار نفس میں کچھ بھی نہیں
غلام حسین ساجد
طلوع مہر، شگفت سحر، سیاہئی شب
تری طلب، تجھے پانی کی آرزو، ترا غم
مجید امجد
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
مصطفٰی زیدی
کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے
گلزار
دل دیکھنے چلا تھا طلسم حیات کو
بس یہ کسر رہی ہے کہ پتھر نہیں بنا
سلیم احمد
اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہو سکا
مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا
احمد فراز
اب تری یاد میں روئیں گے نہ حیراں ہوں گے
ان سے پیماں ہے کوئی، دل سے پیماں ہے کوئی
ابن انشاء