کاشفی
محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
میرے پہلو سے وہ اُٹھے غیر کی تعظیم کو
بندگی کو بندگی، تسلیم ہے تسلیم کو
ہے بڑی دولت، جو ہاتھ آجائے کوئی خوبرو
اے مہوس ڈھونڈھتا ہے کہ کیا طلاؤ سیم کو
آسماں دیتا ہے مجھ کو رنج ، غیروں کو خوشی
واہ کیا کہنا ہے، کیا کہتے ہیں اس تقسیم کو
اپنے دل کا حال ہے، دم بھر میں کچھ دم بھر میں کچھ
آگ لگ جائے الٰہی اس اُمید و بیم کو
جب یہیں، اے داغ وحشت ہے تو آسائش کہاں؟
جائیے ہندوستاں سے کون سی اقلیم کو
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
میرے پہلو سے وہ اُٹھے غیر کی تعظیم کو
بندگی کو بندگی، تسلیم ہے تسلیم کو
ہے بڑی دولت، جو ہاتھ آجائے کوئی خوبرو
اے مہوس ڈھونڈھتا ہے کہ کیا طلاؤ سیم کو
آسماں دیتا ہے مجھ کو رنج ، غیروں کو خوشی
واہ کیا کہنا ہے، کیا کہتے ہیں اس تقسیم کو
اپنے دل کا حال ہے، دم بھر میں کچھ دم بھر میں کچھ
آگ لگ جائے الٰہی اس اُمید و بیم کو
جب یہیں، اے داغ وحشت ہے تو آسائش کہاں؟
جائیے ہندوستاں سے کون سی اقلیم کو