تبصرہ کتب میرے چند تبصرے

دائم جی

محفلین
چند ادبی کتب پر میرے تبصرے، یہ تبصرے جزوی فکریات پر بھی ہیں اور بعض مکمل کتاب پر، ہر دو طرح کے تبصرے چونکہ علمی نوعیت کے ہیں، اس واسطے یہاں ان کو پیش کر رہا ہوں۔

یہ تبصرے طالب علمانہ ضرور ہیں لیکن بہت محنت سے لکھے گئے ہیں۔ احباب خصوصی توجہ سے نوازیے۔ جزاک اللہ
 

دائم جی

محفلین
ناول ”The Idiot“ میں انسانی فطرت، اعتقادی مخمصے، سماجی حرکیات اور معصومیت کے امتزاجی تناظرات
تبصرہ: غلام مصطفیٰ دائمؔ
فیودور دوستوئیفسکی (Fyodor Dostoyevsky) کے ناول ”The Idiot“ کا مطالعہ [Translated by: EVA MARTIN] ساحلِ اختتام سے ہم کنار ہوا۔ یہ ناول سمجھنے میں جتنا ژولیدہ اور پیچ دار ہے، Moods of Perception کے واسطے اُتنا ہی حیرت انگیز اور صَولت آمیز ہے۔ اس نے عقل و منطق کے کئی مسلّمہ اصولوں کو اکھاڑ پھینکا ہے اور دل میں ایک ایسی ہیبت ناکی پیدا کر دی ہے جس نے فیودور دستوئیفسکی کی بڑائی اور جلال کے سبھی Known اور Unknown گوشے مکمل طور پر مجھ پر کھول دیے ہیں۔ بلاشبہ ایسے ناول صدیوں کے تجربے کے غماز ہوتے ہیں۔ یہ انیسویں صدی کی ادبی بساط کا ایک شاہکار ارمغان ہے۔
مصنف فیودور دستوئیفسکی (Fyodor Dostoyevsky) نے ناول میں متعلقہ عہد کے رُوسی اشرافیہ معاشرے پر تنقید کرتے ہوئے اعلیٰ طبقے کے اخلاقی طور پر دیوالیہ پن، منافقت، مادی ثروت کی ارتکاز پسندیت اور سماجی حیثیت کی بے ہنگم زندگی کی نقاب کشائی کی ہے اور اپنے کرداروں کے ذریعے لالچ اور مزعومہ خواہش سے لے کر بدعنوانی اور اخلاقی تہی دامنی تک اخلاقی زوال کی مختلف شکلیں سامنے لائی ہیں۔
مرکزی کردار پرنس میشکن (Prince Lev Nikolayevich Myshkin) ایک معصوم اور ہمدرد شخص ہے جس کے پاس بچوں جیسی سادگی اور دنیا میں نیکی اور اخلاقی اعتدال کے شعور اور تبلیغ کی حقیقی خواہش ہے۔ تاہم، اس کی معصومیت اور سماجی بیداری کی جدید غیر فعّالی اسے دوسروں کے ہاتھوں ہیرا پھیری، نفرت اور استحصال کا شکار بناتی ہے۔
ناول ”The Idiot“ میں ”Idiot“ یہی پرنس میشکن ہے جسے احمق کہنا معروف اصطلاحی معنی میں نہیں ہے بلکہ ناول میں حماقت کا تصور اس لفظ کے لغوی معنی سے آگے بڑھ کر انسانی فطرت کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے اور اس خیال کی جانچ پڑتال کرتا ہے کہ حقیقی حکمت اور اچھائی کو اکثر غلط فہمی یا بے وقوفی کے طور پر سمجھا جاتا ہے ایک ایسے معاشرے میں جو خود غرضی، مادیت پرستی اور سطحی معاشرتی اصولوں پر کاربندی کا داعی ہوتا ہے۔ پرنس میشکن کا کردار ایک قسم کی روحانی پاکیزگی اور حقیقی ہمدردی کا مجسمہ ہے جو ناول میں دکھائے گئے معاشرے کے اخلاقی زوال اور منافقت سے بالکل متصادم ہے۔ یہ اس وقت کے روسی معاشرے کے اخلاقی زوال، منفرد متضاد اقدار اور معاشرتی توقعات کے درمیان پھیلے وسیع تنازعات کو نمایاں کرتا ہے۔
میں نے ایک گہرا مشاہدہ دورانِ مطالعہ یہ کیا ہے کہ پورے ناول میں فیودور دستوئیفسکی اپنے کرداروں کو اخلاقی مخمصوں کے ساتھ پیش کرتا ہے اور ان کے اعمال کے نتائج کی کھوج کرتا ہے۔ تمام کردار عزت، سالمیت، اپنی خواہشات اور اخلاقی ذمہ داریوں کے درمیان تصادم کے سوالات کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں۔ مصنف نے اپنے کرداروں کی نفسیات کی گہرائی تک رسائی حاصل کی۔ ان کے اندرونی خیالات، محرکات اور جدوجہد کی کرید کی اور انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کا مفصل جائزہ لیا، جس میں احساس اور جذبات، جرم اور سزا، اور انسانی شناخت کی نزاکت کے درمیان تعامل شامل ہے۔
یہاں ناول سے ایک اقتباس درج ہے جو حماقت کے گہرے لیکن مختصر اشارے کے طور پر معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
A fool with a heart and no brains is just as unhappy as a fool with brains and no heart. I am one and you are the other, and therefore both of us suffer, both of us are unhappy. [p# 84]
چونکہ دستوئیفسکی کے دور میں روسی معاشرے کے سماجی اور ثقافتی اصولوں میں جو کھوکھلا اور لادینی پَن پیدا ہو چکا تھا، اس لیے ناول کو اسی تناظُر میں پیش کیا گیا ہے اور مذہبی آنچ دے کر فطرت کے مسلمہ اصولوں کے ساتھ بھی ہم آہنگی پیدا کر دی ہے۔ مرکزی کردار پرنس میشکن (Prince Lev Nikolayevich Myshkin) کو سچے مسیحی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ پرنس میشکن اپنے اخلاقی تضاد کے شکار معاشرے کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے ایک امید قائم کرتا ہے کہ:
Beauty Will Save the World [p# 393]
یہ ملحوظ رکھنا اہم ہے کہ یہ جملہ ہمیں مثبت تبدیلی کی ترغیب دینے اور زیادہ ہم آہنگی اور ہمدرد معاشرے کی تشکیل کے لیے خوب صورتی کی صلاحیت کو پہچاننے اور منانے کی ترغیب دیتا ہے۔ نیز خوبصورتی کی محض سادہ یا سطحی تفہیم کی تجویز نہیں کرتا، بلکہ وہ خوب صورتی کو ایک مسیحا/مسیحا صفَت کی آمد سے تعبیر کرتا ہے جو اخلاقی دیوالیہ پن کی بیخ کنی کرکے معاشرے میں حُسب و خوبی/اعتدال کا اصول جاری کرے گا۔ خوب صورتی (Beauty) کا معنی لاس اینجلس (Los Angeles) سے Laura Kristan Wilhelm نے ان الفاظ میں کیا ہے:
Most scholars think that Myshkin (representing Dostoevsky) equates beauty with Christ and Christian ideals
اس تبصرے کی چند سطروں کے بعد Laura Kristan Wilhelm نے مزید لکھا کہ:
Dostoevsky here is directly referring beauty as “Jesus”. Since he was very passionate towards Christianity & its teachings. He was always in search to induce the teachings of Christianity in his literary novels. He is saying that in the end it will be jesus who will save the world but how & to which manner that is unknown
مصنف نے اپنے مرکزی کردار کی معصومیت اور دلی سادگی کو اس غرض سے کلیدی حیثیت سے پیش کیا ہے، کیوں کہ وہ اس کردار سے بقول Ellery Hanley بطورِ تمثیل یہ بتانا چاہتا ہے کہ:
If Jesus returned to earth how would he be treated. Would he be listened to and his pure sense of love and innocence be appreciated, or be mocked as an idiot
[مندرجہ بالا Ellery Hanley اور Laura Kristan Wilhelm کے تبصرے Quora سے اخذ کیے گئے ہیں]
مجموعی طور پر ناول ”The Idiot“ ایک پیچیدہ اور فکر انگیز ناول ہے جو انسانی حماقت کی طبقاتی تشریح کی مختلف نوعیتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ معاشرتی اخلاقی اقدار کی کھوج کرتا ہے، اور پڑھنے والے کو حکمت اور نیکی کے روایتی تصورات پر سوال اٹھانے اور غور کرنے کا چیلنج دیتا ہے۔

اس ناول میں معاشرتی کرپشن، معصومیت، تنہائی، انسانی فطرت (اچھی اور بری)، زندگی اور موت، امن اور تکلیف، اعتقاد اور الحاد وغیرہ جیسے وسیع موضوعات کی آمیزش عمومی و خصوصی ہر دو طرح کے تناسُبات کے ساتھ موجود ہے۔
 
آخری تدوین:

دائم جی

محفلین
فیودور دستوئیفسکی کے معرکۃ الآراء ناول ”کرامازوف برادران“ کا یہ جملہ مجھے بہت پسند ہے۔ میں اکثر دوستوں کو سناتا ہوں۔
The awful thing is that beauty is mysterious as well as terrible. God and the devil are fighting there, and the battlefield is the heart of man
فیودور دستوئیفسکی کے مطابق: خدا اور شیطان کا ذکر انسانی تجربے میں متضاد قوتوں کی علامت ہے۔ خدا پاکیزگی، نیکی اور الہی صفات کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ شیطان تاریکی، برائی اور آزمائش کی نمائندگی کرتا ہے۔ میدانِ جنگ کے انسان کا قلب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مخالف قوتوں کے درمیان یہ معرکہ آرائی انسانی جذبات، خواہشات اور شعور کی گہرائیوں میں ہوتی ہے۔
دائمؔ
 

دائم جی

محفلین
فیودور دستوئیفسکی کو پڑھنا میرے لیے اگرچہ نیا تجربہ نہیں، لیکن زندگی کی کشاکش کے تقابل میں اپنی باطنی ہنگامہ خیزی کا جو ایک مدعا عرصے سے اُٹھ اُٹھ کے جینے کی امنگ چھین کر مایوسی کے دلدل میں اتارنا چاہتا تھا، اسے فرو کرنے کا جذبہ بشری متون میں اگر کہیں سے دستیاب ہوتا ہے تو وہ فیودور کے کرداروں کے مکالموں سے ملتا ہے، اور زندگی کی متضاد نفسیات کے پرزور حملے کی صورت میں اُن (کرداروں) کا نفسی اور فعلی گریز ایک راہ سجھاتا ہے جس میں امکانی طور پر زندگی کو سمجھنے بلکہ اسے جھیلنے کی للک پیدا ہوتی ہے۔
فیودور دستوئیفسکی کا مشہور و معروف ناول ”Crime and Punishment“ ہے جس کا انگریزی زبان میں ترجمہ CONSTANCE GARNETT نے کیا ہے، میرے پیشِ نظر ہے۔ ایک جملہ اتنا امید انگیز اور گہری حقیقت کا نقیب ہے جس کا احساس ہی جینے اور آگے بڑھنے کا پروانہ بن جاتا ہے۔
Pain and suffering are always inevitable for a large intelligence and a deep heart. The really great men must, I think, have great sadness on earth
حُزن کی ناگزیریت کا گہرا احساس دل میں اتار کر جینے کا ارمان پیدا کرنے کا حق فیودور نے انھی دو جملوں میں ادا کر دیا ہے۔ بڑے دماغ یونہی بڑے احساس کے خالق اور گہرے جذبے کے پروردگار ہوتے ہیں۔
 

دائم جی

محفلین
فیودور دستوئیفسکی کا ناول ”Crime and Punishment“ زیرِ مطالعہ ہے۔ یہ ناول روس کے سینٹ پیٹرزبرگ میں ایک غریب سابق طالب علم روڈین راسکولنکوف کی کہانی ہے۔ راسکولنکوف نے دو عورتوں کے وحشیانہ قتل کا ارتکاب کیا، یہ مانتے ہوئے کہ نیکی کے حصول کی خاطر اس کے لیے یہ ارتکابِ قتل جائز ہے۔ تاہم، وہ جرم اور پاگل پن کا شکار ہے، اور ناول اس کے نفسیاتی حل کو دریافت کرتا ہے جب وہ اپنے اعمال کے نتائج سے دوچار ہوتا ہے۔ راسکولنکوف کا اندرونی انتشار، دوسرے کرداروں کے ساتھ تعاملات، اور اس کا آخرکار ذہنی چھٹکارا ناول کا بنیادی حصہ ہے جو اخلاقیات، انصاف اور سزا کی نوعیت کے موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے۔
اس تناظر میں راسکولنکوف کا ایک جملہ جو اسے اپنے ارتکابِ جرم (قتل) پر سنجیدگی سے شرمندہ کرتا ہے اور وہ اس کے بار سے خود کو سبک دوش کرنا چاہتا ہے، ملاحظہ ہو:
What do you think, would not one tiny crime be wiped out by thousands of good deeds
ناول نگار کے لکھے اس جملے کے Substance کی کھوج سے پتہ چلتا ہے کہ جرم کرنے کے نتائج اس کے فوری عمل کی پاداش سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بے شمار ثواب کے کام بھی کر لے، تب بھی گناہ اور اخلاقی سرکشی کا ناگوار بوجھ اس کی روح پر مسلط رہے گا۔
ناول میں ناول نویس کا استدلال یہ سمجھ میں آتا ہے کہ موروثی انسانی اخلاقیات کو معقولیت یا افادیت پسندانہ غور و فکر کے ذریعے آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ ناول کا کردار راسکولنکوف اس خیال کے ساتھ کُڑھ رہا ہے کہ پتا نہیں اگر وہ احسان اور خود قربانی کے متعدد کام انجام دے بھی دے تو نجانے وہ کسی نہ کسی طرح اپنے جرم کا کفارہ ادا کر سکتا ہے یا نہیں۔ صاف واضح ہے کہ راسکولنکوف جیسا مغرور ضمیر کی ملامت کے بعد اندرونی انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ اعتقاد رکھنے پر مجبور ہے کہ وہ معاشرے کو چلانے والے اخلاقی اور نفسیاتی قوانین سے بالاتر نہیں ہے۔ مندرجہ بالا جملہ اس کی اسی اندرونی جدوجہد اور چھٹکارے کے لیے اس کی تلاش کی عکاسی کرتا ہے۔

تاہم، یہ بات قابلِ غور ہے کہ دستوئیفسکی راسکولنکوف کے اس تذبذب آمیز سوال کا قطعی جواب پیش نہیں کرتا، بلکہ اس کے نفسی اثرات کو قاری کے ذہنی تناظر میں رکھ کر خود تشریحی قسم کے جوابات کی توقع رکھتا ہے۔
 

دائم جی

محفلین
ناول ”Crime and Punishment“ میں خدا سے متعلق ناول نویس کی اعتقادی نفسیات اور رسکولنکوف کا الحادی اور اخلاقی مخمصہ
تبصرہ: غلام مصطفیٰ دائمؔ اعوان
فیودور دستوئیفسکی کے ناول ”جرم اور سزا“ میں، خدا کا تصور اخلاقیات، جرم، اور نجات کے ماخذ کی کھوج میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مرکزی کردار ”رسکولنکوف“ خدا سے متعلق اپنی بے یقینی اور تشکیک کی جنگ کو اپنے انفسی اور آفاقی حوالوں سے جوڑے رکھتا ہے، اور بالآخر ایک فعال قوت کے تحت روحانی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ اس ناول میں کرداروں اور خدا کے بارے میں ان کی تفہیم کے درمیان پیچیدہ تعلق کی غمازی کی گئی ہے۔ یہ ناول خدا، اخلاقی تناظرات، اور گناہ کی نوعیت اور اس کے اثرات کے ذیل میں مختلف نتائج پیش کرتا ہے۔
ناول کے آغاز میں، رسکولنکوف ایک سرپھرا ملحد ہے جو کہ روایتی مذہبی عقائد کو مسترد کرتا ہے بلکہ کئی مسلمہ اصولوں کو بھی اپنے ذہنی معتقدے کی میزان پر رکھ کر ان کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے نزدیک روایتی مذہبی ذہن معمولی اور سطحی ذہن ہوتا ہے۔ وہ ”غیر معمولی آدمی“ کے تصور پر یقین رکھتا ہے جو روایتی اخلاقیات اور اس کی اعتقادی اساسیات سے بالاتر ہے۔ تاہم، اس کا ارتکابِ قتل اسے اندرونی انتشار اور مزید جرائم اور غیر انسانی مایوسی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ انتشار جب باطنی خلاؤں میں پھیلتا ہے تو رسکولنکوف کو اپنے ضمیر کے ساتھ جدوجہد اور اپنے ملحدانہ شدید نظریہ پر سوال اٹھانے پر اکساتا ہے۔
اسی دوران سونیا مارمیلادوف، جو ایک نوجوان طوائف ہے، رسکولنکوف کے الحاد کے برعکس کام کرتی ہے۔ یہ ایک شرمیلی، انیس سالہ لڑکی ہے جو خدا کی مطلوبہ اخلاقی حدود کے اندر رہنے میں اپنی عافیت کا تصور رکھتی ہے۔ سونیا کا غیر متزلزل ایمان اور الہٰی قوانین کی پابندی رسکولنکوف کے لیے اخلاقی کمپاس کا کام کرتی ہے۔ سونیا ناول کے پلاٹ کی ترقی اور اس کی استعاراتی اہمیت میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ سونیا کے گہرے مذہبی اعتقادات اور رسکولنکوف سے اس کے تعلقات رسکولنکوف کے ذہنی بدلاؤ ہی نہیں بلکہ قلبی تغیرات میں بھی نمایاں حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ فیودور دستوئیفسکی نے رسکولنکوف کے ذہنی اور قلبی اعتراف کا یہ عمل اور اس کے بعد کی توبہ کو اس کی اعلیٰ اخلاقی ترتیب کے وجود کو تسلیم کرنے اور روحانی تجدید کی خواہش کی علامت کے طور پر تخلیق کیا ہے۔ رسکولنکوف کا حتمی اعتراف اور سزا کی قبولیت اس کے خدائی انصاف کی ضرورت پر یقین کی عکاسی کرتی ہے، جو معاشرتی اصولوں اور قانونی نتائج سے بالاتر ہے۔ اسی طرح دلی توبہ اور اخلاقی تجدید کی طرف اس کا سفر اس کے خدائی قانون کی معرفت اور اس کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت سے جڑا ہوا ہے۔
کہانی واضح طور پر راسکولنکوف کو خدا پر یقین کرنے کے بعد کوئی مخصوص جملہ یا بیان کہتے ہوئے نہیں دکھاتی ہے۔ بیانیہ اس کی داخلی جدوجہد، نفسیاتی نشوونما اور اس کی اندرونی تبدیلی پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ رسکولنکوف سے جب لیزاویٹا اور الیونا ایوانوونا کے قتل کو حل کرنے کا انچارج اور محکمہ تفتیش کا سربراہ پورفائری سوال کرتا ہے آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو رسکولنکوف کا فوری جواب ”ہاں“ میں آتا ہے۔
And...and do you believe in God? Excuse my curiosity.” “I do,” repeated Raskolnikov, raising his eyes to Porfiry
ناول میں اس نظریے کی ترجمانی ہے کہ ہر عمل کے اخلاقی نتائج ہوتے ہیں، اور افراد ایک اعلیٰ طاقت کے سامنے جواب دِہ ہوتے ہیں۔ رسکولنکوف کا قتل کے ارتکاب کے بعد کا نفسیاتی عذاب اس کے ضمیر پر الہی قانون کے وزن اور غلبے کی عکاسی کرتا ہے۔ کہانی کے ارتقا کے ساتھ ساتھ رسکولنکوف کا مختلف کرداروں اور حالات سے سامنا اسے اپنی ہی استثنائیت پر یقین اور اپنے نظریہ کی صداقت پر سوال اٹھانے پر اکساتا ہے۔ جیسے ہی رسکولنکوف کا ذہنی اور جذباتی بدلاؤ عروج پر پہنچتا ہے، وہ ایک گہری اندرونی کشمکش کا تجربہ کرتا ہے، جو اس کی اپنی برتری میں اس کے یقین اور اس کے گھناؤنے جرم کی حقیقت کے درمیان تصادم کی علامت کے طور پر ابھرتا ہے۔
فیودور دستوئیفسکی کے اس ناول کی طرح اس کے دیگر ناولوں میں بھی ہمیں خدا کے بارے میں نفسیاتی طنز کی جھلک ملتی ہے۔ مثلاً ”Karamazov Brothers“ میں آئیون کرامازوف نے الوشا کو مخاطب کرکے کہا کہ:
It's not God that I don't accept, Alyosha, only I most respectfully return him the ticket
”ٹکٹ کی واپسی“ کا مطلب استعاراتی مفہوم میں ہی کھلے گا۔ یہاں یہ فقرہ آئیون کے لیے خدا پر یقین کو مسترد کرنے یا ترک کرنے کا ایک استعاراتی طریقہ ہے۔ ٹکٹ واپس کرکے آئیون تجویز کرتا ہے کہ وہ خدائی حکم یا اس تصور کو قبول نہیں کر سکتا کہ خدا انسانی مصائب اور دنیا کی ناانصافیوں پر قابو رکھتا ہے۔ ”ٹکٹ کی واپسی“ کا یہ استعارہ برائی کے وجود اور انسانی مصائب کے مسئلے کے ساتھ آئیون کی فکری اور اخلاقی جدوجہد کا عکاس ہے۔ ناول نگار اس کردار کے بیان سے دنیا میں خدا کے کردار کے بارے میں اس کے گہرے سوال اور ایک خدائی حکم کو قبول کرنے کے اخلاقی مضمرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ ایمان کی فلسفیانہ اور اخلاقی پیچیدگیوں کے ساتھ کشتی لڑ رہا ہے اور ایک خیر خواہ، ہمہ گیر خدا کے وجود کو مصائب اور برائی کے وجود سے ہم آہنگ کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر ”ٹکٹ کی واپسی“ سے آئیون کا مطلب ہے کہ وہ خدا کی طرف سے دنیا کی تشکیل کے طریقے اور اس کے ساتھ آنے والے اخلاقی اثرات کو قبول یا متفق نہیں کر سکتا۔
فیودور دستوئیفسکی کے عمومی ذہن میں الہیات کا موضوع مستقل حرکیات کا کردار نبھاتا ہے۔ وہ Godless انسانی اعتقاد کے تمام تار و پود ہمیں دکھاتا ہے تاکہ ہمیں تشکیک اور ذمہ دار انکار کا سامنا کرنے کی قلبی اور ذہنی جذباتیت کی بجائے سنجیدہ اور فکری وحدت نصیب ہو سکے جو انسان کو اس کے انسان ہونے پر راضی اور مستقل رکھے۔ ملحد کے نفسیاتی تعقل اور جذباتی بہاؤ میں خدا کے انکار کا اساسی نتیجہ کیا ہوتا ہے یا کیا ہونا چاہیے؟ اس سے فیودور کے اس ناول میں مستقل ذہنی تربیت کا سامان ملتا ہے۔ اور یہ کوئی مضحکہ خیز بات نہیں ہے کہ فیودور جیسا عقیدت مند آرتھوڈوکس عیسائی (Orthodox Christian) اپنے ناولوں میں خدا کے بارے میں تشکیک اور ردّ کا نظریہ پیش کرے؛ کیوں کہ وہ اپنے کرداروں کے اعتقاد کی تشریح میں انسانی ذہن اور اعتقاد کے پیچ و تاب کی عکاسی پیش کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم اس کے ناولوں کے ذریعے اس کے اعتقاد کے تحکم یا تزلزل کی نشاندہی کریں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس کے ناولوں کے کرداروں میں ہمیں خالص مذہبی، تشکیک آلود، ملحد، منکر اور متذبذب کرداروں کا ایک جہان نظر آتا ہے یوں الہیات فیودور کا ایک پسندیدہ موضوع قرار پاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(آج ناول ”Crime and Punishment“ ختم کر کیا ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ طبع زاد تخلیق کی غمازی کرتا ہے۔ جو انگریزی ترجمہ پڑھنا چاہے وہ CONSTANCE GARNETT کا ترجمہ پڑھے۔ دائمؔ)
 
Top