پروین شاکر میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خدا ! لگ گئی

ایم اے راجا

محفلین
میرے چھوٹے سے گھر کو یہ کس کی نظر، اے خدا ! لگ گئی
کیسی کیسی، دعاؤں کے ہوتے ہوئے بد دعا لگ گئی

ایک بازو بریدہ شکستہ بدن قوم کے باب میں
زندگی کا یقیں کس کو تھا، بس یہ کہیے، دوا لگ گئی

جھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا، سنگ اٹھائے ہوئے
آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلقِ خدا لگ گئی

جنگلوں کے سفر میں تو آسیب سے بچ گئی تھی، مگر
شہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئی

نیم تاریک تنہائی میں سرخ پھولوں کا بن کھل اٹھا
ہجر کی زرد دیوار پر تیری تصویر کیا لگ گئی

وہ جو پہلے گئے تھے ہمیں ان کی فرقت ہی کچھ کم نہ تھی
جان ! کیا تجھ کو بھی شہرِ نا مہرباں کی ہوا لگ گئی

دو قدم چل کے ہی چھاؤں کی آرزو سر اٹھانے لگی
میرے دل کو بھی شاید ترے حوصلوں کی ادا لگ گئی

میز سے جانے والوں کی تصویر کب ہٹ سکی تھی مگر
درد بھی جب تھما، آنکھ بھی جب ذرا لگ گئی !​

( پروین شاکر مرحومہ، کی " خوشبو " سے انتخاب )
 

ایم اے راجا

محفلین
شکریہ وارث بھائی، پروین شاکر میری پسندیدہ ترین شاعرہ ہیں، بس میں ہو تو انکی کتابیں چاندی کے ورقوں پر سونے کے لفظوں سے لکھوا کر بانٹوں۔
 
Top