اب دیکھ رہا ہوں اس کو۔
پہلی بات نظم کے سلسلے میں۔
ٹیپ کے مصرع کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ آزاد نظم نہیں، پابند ہے۔اس میں مختلف بندوں میں الگ الگ تعداد میں فعلن لانے کی وجہ؟ اس کو کسی طرح پابند کر دیں کہ چھ یا سات یا ساڑھے سات یا آٹھ رکنی سارے ہی مصرعوں کو کر دیا جائے۔ ٹیپ کا مصرع موجودہ شکل میں ہی خوب ہے۔
اب غزل
مطلع میں ہی ایطا کا سقم ہے، دونوں قوافی ’کام‘ کے ہیں اور اسی وجہ سے ’کسی کام کے نہیں‘۔
عشق کے قصے ، پیار کی باتیں ساری میں
ہو جاؤں بدنام ، مگر میں لکھتا ہوں
//’ساری میں‘ سے مراد، شاید ‘سب کچھ‘ سے بات واضح ہو سکے
سب کچھ، پیار کی باتیں، عشق کے قصے ہوں
شاید تجویز کیا جا سکے
حاکم اور حکومت کی چالاکی سب
مشکل ہے یہ کام، مگر میں لکھتا ہوں
//یہاں بھی ’کے بارے میں‘ کی کمی ہے۔ حاکم اور حکومت میں ایک لفظ کے انتخاب سے کچھ یہ سقم دور کیا جا سکتا ہے۔
تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں
//سعود میاں کا مشورہ صائب ہے۔
اپنوں اور پرایوں کی تحریروں میں
ہوتی ہے دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
//یہاں بھی سعود کی بات میں دم ہے۔
مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، باز آ جاؤ
ملتے ہیں پیغام، مگر ۔۔۔
//سعود کی بات سنو،
مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، اب باز بھی آ
یا
مار ہی ڈالیں گے، اب باز بھی آ جاؤ
بہتر ہو گا۔
چپ رہتے ہو اظہر سُن کر تُم سب کچھ
ہاتھ میں لے کے جام، مگر میں لکھتا ہوں
//مقطع اب بھی واضح نہیں۔ اظہر سے تخاطب ہے تو لکھ کون رہا ہوں۔ تخلص کے لئے ضروری نہیں کہ تخاطب ہی ہو، یہ محض بھرتی کا لفظ بھی ہو سکتا ہے۔
چپ رہتا ہوں۔۔۔ کرنے میں کیا حرج ہے؟
اُستاد محترم یوں دیکھ لیجئے
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
کیسے ہوں آلام، مگر میں لکھتا ہوں
مشکل ہے یہ کام، مجھے پر لکھنا ہے
کچھ بھی ہو انجام، مجھے پر لکھنا ہے
ہو جاؤں بدنام، مجھے پر لکھنا ہے
مچ جائے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
تیری، میری، لکھتا ہوں میں باتیں سب
ڈرتا ہوں کہ دیکھ رہا ہے میرا رب
جھوٹ کے گھور پلندے میں سچ جائے نہ دب
ملتی ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
گھر کے بھیدی کایا پلٹیں ، لوٹ نہیں
گھر کا سُکھ پامال کریں وہ بوٹ نہیں
لکھتا ہوں جو سچ ہوتا ہے، جھوٹ نہیں
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
مچتا ہے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں
عشق کے قصے ، پیار کی باتیں سب کچھ ہی
ہو جاؤں بدنام ، مگر میں لکھتا ہوں
حاکم سے منسوب کتھائیں اور شکوے
مشکل ہے یہ کام، مگر میں لکھتا ہوں
ہوتی ہے راحت کی ضرورت بھی مجھ کو
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں
اپنے اور پرائے روکیں جب جب بھی
دیتے ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
مار ہی ڈالیں گے تُم کو، باز آ جاؤ
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں
اظہر دشمن کرتے ہیں مخمور مجھے
لاکھ پلائیں جام، مگر میں لکھتا ہوں