میر کی ہندی بحر، اک نظم، اک غزل، اصلاح، تبصرہ اور تنقید کی درخواست کے ساتھ

شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
کیسے ہوں آلام، مگر میں لکھتا ہوں​
مشکل ہے یہ کام، مجھے پر لکھنا ہے​
کچھ بھی ہو انجام، مجھے پر لکھنا ہے​
ہو جاؤں بدنام، مجھے پر لکھنا ہے​
مچ جائے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
تیری، میری، اسکی، اُسکی سب کی باتیں​
چھوٹے چھوٹے لوگوں کی اور رب کی باتیں​
آیا ہے اب آئے گا جو تب کی باتیں​
ملتی ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
میری نظموں میری غزلوں میں شہزادہ کوئی نہیں​
پریاں حوریں شامل کر لوں، ایسا ارادہ کوئی نہیں​
سیدھے سادے تُم ہو، میں ہوں اور آمادہ کوئی نہیں​
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
بس کا نہیں ہے کام، مگر میں لکھتا ہوں​
عشق کے قصے ، پیار کی باتیں ساری میں​
ہو جاؤں بدنام ، مگر میں لکھتا ہوں​
حاکم اور حکومت کی چالاکی سب​
مشکل ہے یہ کام، مگر میں لکھتا ہوں​
تھوڑی مجھ کو راحت کی تمنا بھی ہو​
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں​
اپنوں اور پرائیوں کی تحریروں میں​
ہوتی ہے دشنام، مگر میں لکھتا ہوں​
مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، باز آ جاؤ​
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں​
چپ رہتے ہو اظہر سُن کر بھی سب کچھ​
ہاتھ میں لے کے جام، مگر میں لکھتا ہوں​
 

شوکت پرویز

محفلین
بہت زبردست نظم ہے محمد اظہر نذیر بھائی!​
ڈھیروں داد قبول کیجئے۔۔​
کچھ ایک دو جگہ بحر سے ذرا نکل گئی ہے (لیکن کلام بہت زبردست ہے۔۔۔)​
تیری، میری، اسکی، اُسکی سب کی باتیں
میری نظموں میری غزلوں میں شہزادہ کوئی نہیں
پریاں حوریں شامل کر لوں، ایسا ارادہ کوئی نہیں
سیدھے سادے تُم ہو، میں ہوں اور آمادہ کوئی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اور اسے​
تھوڑی مجھ کو راحت کی تمنا بھی ہو​
یوں کرلیں:​
تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اور یہاں شاید ٹائپو ہے:​
اپنوں اور پرائیوں کی تحریروں میں
پرایوں​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
اور یہاں تخلص کے استعمال سے مخاطب اور مخاطب بِہِ مل گئے ہیں :(
چپ رہتے ہو اظہر سُن کر بھی سب کچھ
ہاتھ میں لے کے جام، مگر میں لکھتا ہوں
:)
 
بہت زبردست نظم ہے محمد اظہر نذیر بھائی!​
ڈھیروں داد قبول کیجئے۔۔​
کچھ ایک دو جگہ بحر سے ذرا نکل گئی ہے (لیکن کلام بہت زبردست ہے۔۔۔ )​
تیری، میری، اسکی، اُسکی سب کی باتیں
میری نظموں میری غزلوں میں شہزادہ کوئی نہیں
پریاں حوریں شامل کر لوں، ایسا ارادہ کوئی نہیں
سیدھے سادے تُم ہو، میں ہوں اور آمادہ کوئی نہیں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔​
اور اسے​
تھوڑی مجھ کو راحت کی تمنا بھی ہو​
یوں کرلیں:​
تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔​
اور یہاں شاید ٹائپو ہے:​
اپنوں اور پرائیوں کی تحریروں میں
پرایوں​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔​
اور یہاں تخلص کے استعمال سے مخاطب اور مخاطب بِہِ مل گئے ہیں :(
چپ رہتے ہو اظہر سُن کر بھی سب کچھ​
ہاتھ میں لے کے جام، مگر میں لکھتا ہوں​
:)

جناب شوکت صاحب

اصل میں نظم میں میں نے ساٹھے پانچ، چھ اور آٹھ فعلن استعمال کرنے کی کوشش کی ہے

مشکل ہے یہ کام، مجھے پر لکھنا ہے​
مش کل ہے یہ کا م م جے پر لک نا ہے = ساڑھے پانچ​
تیری، میری، اسکی، اُسکی سب کی باتیں​
تے ری مے ری اس کی اُس کی سب کی با تے - چھ​
میری نظموں میری غزلوں میں شہزادہ کوئی نہیں​
مے ری نظ مو مے ری غز لو مے شہ زا دہ کو ئ ن ہی -- آٹھ​
کیا ایسا نہیں کیا جا سکتا؟​
باقی جہاں تک غزل کا سوال ہے​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
بس کا نہیں ہے کام، مگر میں لکھتا ہوں​
عشق کے قصے ، پیار کی باتیں ساری میں​
ہو جاؤں بدنام ، مگر میں لکھتا ہوں​
حاکم اور حکومت کی چالاکی سب​
مشکل ہے یہ کام، مگر میں لکھتا ہوں​
تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں
اپنوں اور پرایوں کی تحریروں میں
ہوتی ہے دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، باز آ جاؤ​
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں​
چپ رہتے ہو اظہر سُن کر تُم سب کچھ
ہاتھ میں لے کے جام، مگر میں لکھتا ہوں
 
بہت زبردست نظم ہے محمد اظہر نذیر بھائی!​
ڈھیروں داد قبول کیجئے۔۔​
کچھ ایک دو جگہ بحر سے ذرا نکل گئی ہے (لیکن کلام بہت زبردست ہے۔۔۔ )​
تیری، میری، اسکی، اُسکی سب کی باتیں
میری نظموں میری غزلوں میں شہزادہ کوئی نہیں
پریاں حوریں شامل کر لوں، ایسا ارادہ کوئی نہیں
سیدھے سادے تُم ہو، میں ہوں اور آمادہ کوئی نہیں
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔​
اور اسے​
تھوڑی مجھ کو راحت کی تمنا بھی ہو​
یوں کرلیں:​
تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔​
اور یہاں شاید ٹائپو ہے:​
اپنوں اور پرائیوں کی تحریروں میں
پرایوں​
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔​
اور یہاں تخلص کے استعمال سے مخاطب اور مخاطب بِہِ مل گئے ہیں :(
چپ رہتے ہو اظہر سُن کر بھی سب کچھ​
ہاتھ میں لے کے جام، مگر میں لکھتا ہوں​
:)

بلکہ یوں دیکھ لیجئے تو بحر کی پابندی ہو جاتی ہے

شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
کیسے ہوں آلام، مگر میں لکھتا ہوں​
مشکل ہے یہ کام، مجھے پر لکھنا ہے​
کچھ بھی ہو انجام، مجھے پر لکھنا ہے​
ہو جاؤں بدنام، مجھے پر لکھنا ہے​
مچ جائے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
تیری، میری، لکھتا ہوں میں باتیں سب
ڈرتا ہوں کہ دیکھ رہا ہے میرا رب
جھوٹ کے گھور پلندے میں سچ جائے نہ دب
ملتی ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
جتنا سچ ہو لکھ دیتا ہوں، کم یا زیادہ ہوتا نہیں
حوریں پریاں بھی شامل ہوں ایسا ارادہ ہوتا نہیں
میری نظموں، غزلوں میں کوئی شہزادہ ہوتا نہیں
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
بس کا نہیں ہے کام، مگر میں لکھتا ہوں​
عشق کے قصے ، پیار کی باتیں ساری میں​
ہو جاؤں بدنام ، مگر میں لکھتا ہوں​
حاکم اور حکومت کی چالاکی سب​
مشکل ہے یہ کام، مگر میں لکھتا ہوں​
تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں
اپنوں اور پرایوں کی تحریروں میں
ہوتی ہے دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، باز آ جاؤ​
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں​
چپ رہتے ہو اظہر سُنتے ہو سب کچھ
ہاتھ میں تیرے جام، مگر میں لکھتا ہوں
 
ہم کوئی تنقید یا اصلاح تو نہیں کر رہے کہ اس کی اہلیت نہیں ہماری۔ ہاں کچھ سوالات اور رائے ضرور دینا چاہیں گے۔ :) :) :)
تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں
یہاں "تمنا ہو" ہونا چاہیے یا "تمنا ہے"؟ اس کے علاوہ پہلے مصرعے میں "بھی" کی نشست کو بھی چھیڑا جا سکتا ہے اور ضروری ہو تو "تمنا" کو "ضرورت" میں بدلا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
اپنوں اور پرایوں کی تحریروں میں
ہوتی ہے دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
یہاں کچھ ابہام سا ہے کہ اگر اپنوں اور پرایوں کی تحریروں میں دشنام ہے تو اس لحاظ سے"مگر میں پڑھتا ہوں" ہونا چاہیے۔ اور اگر آپ ان کو جواب لکھتے ہیں تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ :) :) :)
مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، باز آ جاؤ
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں
"تجھ کو" کے ساتھ تو "باز آ جا" ہونا چاہیے۔ اگر "آ جاؤ" ہی لکھنا ہے تو "تم کو" کیا جا سکتا ہے۔ :) :) :)
چپ رہتے ہو اظہر سُنتے ہو سب کچھ
ہاتھ میں تیرے جام، مگر میں لکھتا ہوں
اوپر غالباً برادرم شوکت پرویز صاحب نے بھی اشارہ کیا ہے کہ دونوں مصرعوں میں کون سن رہا ہے اور کون سنا رہا ہے دونوں میں عجیب سا تصادم ہو گیا ہے کہ کسی طور اس کو مفہوم دینا ممکن نظر نہیں آتا۔ ایک اور سوال ہے کہ "چپ رہنا" اور "لکھنا" دونوں متضاد اعمال ہیں۔ گو کہ چپ رہنا بولنے کی ضد ہے لیکن صاحب قلم کی تحریر ہی اس کی آواز ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ سب کچھ سنتے ہوئے بھی چپ رہتا ہوں پھر اس عمل کی نفی کی جاتی ہے کہ ہاتھ میں جام لیے لکھتا ہوں۔ :) :) :)

خیر اس حوالے سے آپ کے ذہن میں کوئی موزوں مفہوم موجود ہو جس کی بنیاد پر آپ بولنے اور لکھنے کو یکسر مختلف گردانتے ہوں تو مخاطب و مخاطب بہ کا سقم مٹانے کے لیے یہ شعر کچھ ایسا کیا جا سکتا ہے: :) :) :)

سب کچھ سنتا ہوں پھر بھی چپ رہتا ہوں
ہاتھ میں لے کر جام، مگر میں لکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اب دیکھ رہا ہوں اس کو۔
پہلی بات نظم کے سلسلے میں۔
ٹیپ کے مصرع کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ آزاد نظم نہیں، پابند ہے۔اس میں مختلف بندوں میں الگ الگ تعداد میں فعلن لانے کی وجہ؟ اس کو کسی طرح پابند کر دیں کہ چھ یا سات یا ساڑھے سات یا آٹھ رکنی سارے ہی مصرعوں کو کر دیا جائے۔ ٹیپ کا مصرع موجودہ شکل میں ہی خوب ہے۔

اب غزل
مطلع میں ہی ایطا کا سقم ہے، دونوں قوافی ’کام‘ کے ہیں اور اسی وجہ سے ’کسی کام کے نہیں‘۔
عشق کے قصے ، پیار کی باتیں ساری میں
ہو جاؤں بدنام ، مگر میں لکھتا ہوں
//’ساری میں‘ سے مراد، شاید ‘سب کچھ‘ سے بات واضح ہو سکے
سب کچھ، پیار کی باتیں، عشق کے قصے ہوں
شاید تجویز کیا جا سکے

حاکم اور حکومت کی چالاکی سب
مشکل ہے یہ کام، مگر میں لکھتا ہوں
//یہاں بھی ’کے بارے میں‘ کی کمی ہے۔ حاکم اور حکومت میں ایک لفظ کے انتخاب سے کچھ یہ سقم دور کیا جا سکتا ہے۔

تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں
//سعود میاں کا مشورہ صائب ہے۔

اپنوں اور پرایوں کی تحریروں میں
ہوتی ہے دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
//یہاں بھی سعود کی بات میں دم ہے۔

مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، باز آ جاؤ
ملتے ہیں پیغام، مگر ۔۔۔
//سعود کی بات سنو،
مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، اب باز بھی آ
یا
مار ہی ڈالیں گے، اب باز بھی آ جاؤ
بہتر ہو گا۔

چپ رہتے ہو اظہر سُن کر تُم سب کچھ
ہاتھ میں لے کے جام، مگر میں لکھتا ہوں
//مقطع اب بھی واضح نہیں۔ اظہر سے تخاطب ہے تو لکھ کون رہا ہوں۔ تخلص کے لئے ضروری نہیں کہ تخاطب ہی ہو، یہ محض بھرتی کا لفظ بھی ہو سکتا ہے۔

چپ رہتا ہوں۔۔۔ کرنے میں کیا حرج ہے؟
 
اب دیکھ رہا ہوں اس کو۔
پہلی بات نظم کے سلسلے میں۔
ٹیپ کے مصرع کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ آزاد نظم نہیں، پابند ہے۔اس میں مختلف بندوں میں الگ الگ تعداد میں فعلن لانے کی وجہ؟ اس کو کسی طرح پابند کر دیں کہ چھ یا سات یا ساڑھے سات یا آٹھ رکنی سارے ہی مصرعوں کو کر دیا جائے۔ ٹیپ کا مصرع موجودہ شکل میں ہی خوب ہے۔

اب غزل
مطلع میں ہی ایطا کا سقم ہے، دونوں قوافی ’کام‘ کے ہیں اور اسی وجہ سے ’کسی کام کے نہیں‘۔
عشق کے قصے ، پیار کی باتیں ساری میں
ہو جاؤں بدنام ، مگر میں لکھتا ہوں
//’ساری میں‘ سے مراد، شاید ‘سب کچھ‘ سے بات واضح ہو سکے
سب کچھ، پیار کی باتیں، عشق کے قصے ہوں
شاید تجویز کیا جا سکے

حاکم اور حکومت کی چالاکی سب
مشکل ہے یہ کام، مگر میں لکھتا ہوں
//یہاں بھی ’کے بارے میں‘ کی کمی ہے۔ حاکم اور حکومت میں ایک لفظ کے انتخاب سے کچھ یہ سقم دور کیا جا سکتا ہے۔

تھوڑی مجھ کو راحت کی بھی تمنا ہو
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں
//سعود میاں کا مشورہ صائب ہے۔

اپنوں اور پرایوں کی تحریروں میں
ہوتی ہے دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
//یہاں بھی سعود کی بات میں دم ہے۔

مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، باز آ جاؤ
ملتے ہیں پیغام، مگر ۔۔۔
//سعود کی بات سنو،
مار ہی ڈالیں گے تُجھ کو، اب باز بھی آ
یا
مار ہی ڈالیں گے، اب باز بھی آ جاؤ
بہتر ہو گا۔

چپ رہتے ہو اظہر سُن کر تُم سب کچھ
ہاتھ میں لے کے جام، مگر میں لکھتا ہوں
//مقطع اب بھی واضح نہیں۔ اظہر سے تخاطب ہے تو لکھ کون رہا ہوں۔ تخلص کے لئے ضروری نہیں کہ تخاطب ہی ہو، یہ محض بھرتی کا لفظ بھی ہو سکتا ہے۔

چپ رہتا ہوں۔۔۔ کرنے میں کیا حرج ہے؟

اُستاد محترم یوں دیکھ لیجئے

شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
کیسے ہوں آلام، مگر میں لکھتا ہوں​
مشکل ہے یہ کام، مجھے پر لکھنا ہے​
کچھ بھی ہو انجام، مجھے پر لکھنا ہے​
ہو جاؤں بدنام، مجھے پر لکھنا ہے​
مچ جائے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
تیری، میری، لکھتا ہوں میں باتیں سب​
ڈرتا ہوں کہ دیکھ رہا ہے میرا رب​
جھوٹ کے گھور پلندے میں سچ جائے نہ دب​
ملتی ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
گھر کے بھیدی کایا پلٹیں ، لوٹ نہیں
گھر کا سُکھ پامال کریں وہ بوٹ نہیں
لکھتا ہوں جو سچ ہوتا ہے، جھوٹ نہیں
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
مچتا ہے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں
عشق کے قصے ، پیار کی باتیں سب کچھ ہی
ہو جاؤں بدنام ، مگر میں لکھتا ہوں
حاکم سے منسوب کتھائیں اور شکوے
مشکل ہے یہ کام، مگر میں لکھتا ہوں
ہوتی ہے راحت کی ضرورت بھی مجھ کو
چھوڑ کے سب آرام، مگر میں لکھتا ہوں
اپنے اور پرائے روکیں جب جب بھی
دیتے ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
مار ہی ڈالیں گے تُم کو، باز آ جاؤ
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں
اظہر دشمن کرتے ہیں مخمور مجھے
لاکھ پلائیں جام، مگر میں لکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو مکمل درست ہو گئی ہے، البتہ نظم میں ’ڈرتا ہوں کہ‘ میں کہ‘ کا استعمال اور آخری بند پسند نہیں آیا۔
ڈرتا بھی ہوں، دیکھ رہا ہے میرا رب کر دو اس مصرع کو
اور آخری بندمیں پہلے دونوں مصرعے سمجھ میں نہیں آ سکے۔ اور چوتھے کا ان سے ربط نہیں لگتا۔
 
غزل تو مکمل درست ہو گئی ہے، البتہ نظم میں ’ڈرتا ہوں کہ‘ میں کہ‘ کا استعمال اور آخری بند پسند نہیں آیا۔
ڈرتا بھی ہوں، دیکھ رہا ہے میرا رب کر دو اس مصرع کو
اور آخری بندمیں پہلے دونوں مصرعے سمجھ میں نہیں آ سکے۔ اور چوتھے کا ان سے ربط نہیں لگتا۔

یوں دیک لیجئے جناب اُستاد محترم

شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
کیسے ہوں آلام، مگر میں لکھتا ہوں​
مشکل ہے یہ کام، مجھے پر لکھنا ہے​
کچھ بھی ہو انجام، مجھے پر لکھنا ہے​
ہو جاؤں بدنام، مجھے پر لکھنا ہے​
مچ جائے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
تیری، میری، لکھتا ہوں میں باتیں سب​
ڈرتا بھی ہوں دیکھ رہا ہے میرا رب
جھوٹ کے گھور پلندے میں سچ جائے نہ دب​
ملتی ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں​
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں​
بیڑی کی جھنکار سناؤ کیا ہو گا
بوٹوں کی بھرمار بھی لاؤ کیا ہو گا
مجھ کو تُم اب لاکھ ستاؤ کیا ہو گا
رُک جاؤں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بیٹا، اب بھی بات نہیں بنی۔ میرے خیال میں اسی پر دو مصعے اور اضافہ کر دئے جائین
لکھتا ہوں جو سچ ہوتا ہے، جھوٹ نہیں
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
 
نہیں بیٹا، اب بھی بات نہیں بنی۔ میرے خیال میں اسی پر دو مصعے اور اضافہ کر دئے جائین
لکھتا ہوں جو سچ ہوتا ہے، جھوٹ نہیں
ملتے ہیں پیغام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں

اگر یوں کہوں تو بات مکمل نہیں ہو جاتی کیا اُستاد محترم
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
کیسے ہوں آلام، مگر میں لکھتا ہوں
مشکل ہے یہ کام، مجھے پر لکھنا ہے
کچھ بھی ہو انجام، مجھے پر لکھنا ہے
ہو جاؤں بدنام، مجھے پر لکھنا ہے
مچ جائے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
تیری، میری، لکھتا ہوں میں باتیں سب
ڈرتا بھی ہوں دیکھ رہا ہے میرا رب
جھوٹ کے گھور پلندے میں سچ جائے نہ دب
ملتی ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
بیڑی کی جھنکار سناؤ کیا ہو گا
بوٹوں کی بھرمار بھی لاؤ کیا ہو گا
مجھ کو تُم اب لاکھ ستاؤ کیا ہو گا
مارو صبحُ شام ، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اس بند میں ’کیا ہوگا‘ کا اظہار اچھا نہیں لگ رہا ہے،
یوں کر دیں تو
بیڑی کی جھنکار بھی میرے حصے میں
یا
بیڑی کی جھنکار بھی میری قسمت میں
بوٹوں کی بھرمار بھی۔۔۔۔۔
ڈنڈوں کی بوچھار۔۔۔ (مثلاً)
مارو صبح و شام۔۔۔۔۔
 
اس بند میں ’کیا ہوگا‘ کا اظہار اچھا نہیں لگ رہا ہے،
یوں کر دیں تو
بیڑی کی جھنکار بھی میرے حصے میں
یا
بیڑی کی جھنکار بھی میری قسمت میں
بوٹوں کی بھرمار بھی۔۔۔ ۔۔
ڈنڈوں کی بوچھار۔۔۔ (مثلاً)
مارو صبح و شام۔۔۔ ۔۔

یوں اگر کہ لوں اُستاد محترم تو کیسا رہے گا

بیڑی کی جھنکار کا تحفہ دیتے ہو
بوٹوں کی بھرمار کا تحفہ دیتے ہو
ڈنڈے کی سرکار کا تحفہ دیتے ہو
لاٹھی ہو انعام ، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
ڈنڈوں کی بوچھار ہی بہتر ہے میرے ناقص خیال میں۔ اور ’لاٹھی دو انعام‘ کر دیا جائے تو بہتر ہو۔ احباب کی کیا رائے ہے؟
 
ڈنڈوں کی بوچھار ہی بہتر ہے میرے ناقص خیال میں۔ اور ’لاٹھی دو انعام‘ کر دیا جائے تو بہتر ہو۔ احباب کی کیا رائے ہے؟

جی بہت بہتر جناب

شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
کیسے ہوں آلام، مگر میں لکھتا ہوں
مشکل ہے یہ کام، مجھے پر لکھنا ہے
کچھ بھی ہو انجام، مجھے پر لکھنا ہے
ہو جاؤں بدنام، مجھے پر لکھنا ہے
مچ جائے کہرام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
تیری، میری، لکھتا ہوں میں باتیں سب
ڈرتا بھی ہوں دیکھ رہا ہے میرا رب
جھوٹ کے گھور پلندے میں سچ جائے نہ دب
ملتی ہیں دشنام، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
بیڑی کی جھنکار کا تحفہ دیتے ہو
بوٹوں کی بھرمار کا تحفہ دیتے ہو
ڈنڈوں کی بوچھار کا تحفہ دیتے ہو
لاٹھی دو انعام ، مگر میں لکھتا ہوں
شاعر ہوں ناکام، مگر میں لکھتا ہوں
 
Top