فارقلیط رحمانی
لائبریرین
میزان ِ سُخن
موسوم بہ اسم تاریخی
معرفت العروض
۸۹۷عیسوی سن تالیف
مؤلف
زلہ رباے خوان شعرائے ذوی الاقتداربندہ
بیج ناتھ سہائے فگارؔ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شعر
حمد اور نعت کی یہاں قدرت ہے کس کو فگارؔ
سر جھکا لیتے ہیں یہاں فہم و فراست والے
حمد اُس کی دریائے نا پیدا کنار ہےجس کے عبور کا وہم بھی غیر ممکنات سے ہے۔اور نعتِ آنحضرت بحرِ ذخّار ہے، جس میں شناوری کا خیال بھی محالات سے ہے نہ اس کی قدرت ہے نہ اس کا یارا ہے ۔ لہٰذا دونوں سے کنارا کر کے نفسِ مطلب عرض کرتا ہوں کہ اس زبان میں فارسی کی شاعری نام کی ہے۔اور اگر ہے بھی تو شاذ۔ہاں ! اُردو کی شاعری بزرگانِ کہنہ مشق میں اس وقت بھی ہے۔اور انہیں بزرگوں کی برکت سے انگریزی زمانے کے لوگوں میں بھی شوق ہو جاتا ہے۔ تحصیل عربی تو شاذونادِر ہے اور تحصیلِ فارسی کی یہ کیفیت ہے کہ تقریباً ہر فرقہ میں لڑکے فارسی سے ابتداء کرتے ہیں مگر تعلیم انگریزی کی وجہ سے فارسی فارسی تو نہیں ہونے پاتی مگر اُردو تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔اور یہ لوگ بھی کچھ نہ کچھ کر لے جاتے ہیں۔لیکن زبانِ اُردو قواعد فنِ شعر کے خیال سے زبانِ عربی اور فارسی کی تابع ہے۔اور اس فن کی کتابیں بھی انہیں زبانوں میں ہیں۔مگر جب اِن زبانوں ہی کا سمجھنا دُشوار ہے تو اِس فن کی تحصیل اِن زبانوں کی کتابوں سے دشوارتر ہے۔ بلکہ بعضوں کے واسطے محالات سے ہے۔اِس میں شک نہیں ہے کہ اکثر نسخے فنِ عروض کے اُردو زبان میں لکھے گئے ہیں۔مگر طرزِ بیان بعض میں قریب قریب اور بعض میں بالکل ویسی ہے جیسی عربی اور فارسی کی کتابوں میں ہے۔لہٰذا ان میں اکثر موقعوں پر اغلاق سے گریز نہیں ہو سکا۔بعض اس قدر مختصر ہیں کہ ضروری باتیں بھی فروگزاشت ہو گئی ہیں۔اگر کوئی رِسالہ جامع ہے اور طرزِ بیان بھی خوب ہے تو کم یاب ہے یا گراں ارز ہے۔
لہٰذا اس زلہ ربای خوانِ سخن ورانِ ذوی الاقتداریعنی بندہ بیجناتھ سہائے فگارؔخلف جناب منشی ٹھاکر پرشادصاحب المتخلص بہ طالبؔ شاگرد جناب فیض مآب منشی محمد ولایت علی خاں صاحب المتخلص بہ عزیزؔ رئیس قصبہ پر نور صفی پور تلمیذ رشید جناب نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اَسَدُاللہ خاں غالبؔ دہلوی نوراللہ مرقدہٗ نے اس رسالے کو آسان زبان میں بطورِ مکالمہ لکھا ہے۔اور یہ مکالمہ مابین ایک اُستاد اور ایسے دو شاگردوں کے ہے جو علومِ ضروری سے فارِغ ہیں۔اُستاد کو فخرؔ کے نام سے اور شاگردوں کو منظورؔ اور مسرورؔ کے نام سے بتلایا گیا ہے۔اور یہ کتاب ایک مقدمہ سات باب اور تیس فصلوں پر منقسم کی گئی ہے۔
مقدمہ
واضح ہوکہ خلیل بن احمد بصری نے علم عروض کو اِستخراج کیا ہے۔اور چونکہ وہ اس علم سے مکہ معظمہ میں ملہم ہوئے تھے۔اور عروض بھی ایک نام مکہ معظمہ کا ہے لہٰذا اس کو تیمناًاس نام سے موسوم کیا۔عربی میں بقول بعض حضرت آدم علیہ السلام اور بقول بعض سیرت بن قحطان شاعرِ اوّل ہوئے۔فارسی میں کوئی بہرام گور کو اور کوئی ابوحفص سغدی کواور کوئی رودکی کو شاعرِ اوّل بتلاتا ہے۔اردو میں شاعری کی ابتداء حضرت امیر خسرو دہلوی سے بتلاتے ہیں۔اور بعض اِس سے پیشتر کا بھی پتہ لگاتے ہیں۔منتہی کے واسطے بہت سے نسخہ جات جامع اگلے بزرگوں نے تالیف کیے ہیں۔یہ مختصر رِسالہ محض مبتدیوں کے لیے ہے۔اُستادانِ فنِ شعر سے دست بستہ التماس ہے کہ بخیال : ‘‘الانسان مرکب من الخطاء والنسیان ’’جہاں کہیں غلطی پائیں مؤلف کو اپنا پیرو سمجھ کر اُس کی اِصلاح فرمائیں۔
باب اوّل
فصلِ اوّل
عَروض: بالفتح اُس علم با اُصول اور با قواعدکا نام ہے جس کے ذریعہ سے شعر کی موزونیت اور عدم موزونیت دریافت کریں۔
شعر: بالکسر(زیرکے ساتھ)ایسے سخن موزوں کو کہتے ہیں جو بامعنیٰ اور با قافیہ ہو۔اور صاحب سخن نے اُس کی موزونیت کا قصد بھی کیا ہو۔جس سخن میں یہ جملہ باتیں نہ پائی جائیں ، اس کو شعر نہیں کہتے ہیں۔
موزوں: ہونےکی قید اس وجہ سے ہے کہ اُس سخن کو اوزانِ مقررۂ علم عروض کے موافق ہونا چاہیے۔
با معنیٰ : اس وجہ سے کہا گیا کہ اگر وہ سخن بے معنیٰ ہے تو مہمل ہونے کی وجہ سے شعر نہیں ہو سکتا۔مثلاً: شعر:
تجرید پاکبازیٔ قفس سے کیا ہوا
آخر وہی حصار علم مشغلہ ہوا
اس شعر میں علاوہ با معنیٰ ہونے کے جملہ باتیں عَروض کےموافق ہیں۔مگر مہمل ہے۔ لہٰذا اس کو شعر نہ کہیں گے۔
قصدموزونی : قصدموزونی کی قید اس وجہ سےہے کہ اگر یہ قید نہ ہو تو بعض آیات کلام مجید میں ایسی آئی ہیں جو موزوں ہیں۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو شعر نہیں بتلایا ہے۔لہٰذا اُن پر موزوں ہونے کا اِطلاق نہیں ہو سکتا۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر جہلاء کی زبان سے اَیسے فقرات بھی اَثنائے گفتگو میں نکل جاتےہیں جو موزوں ہوتے ہیں۔اور چونکہ ہر صاحب علم کا فنِ عَروض میں ماہر ہونا ضروری نہیں ہے۔لہٰذا اُن کا کلام قصداً موزوں بھی نہیں ہو سکتا ہے۔پس اَیسے کلام کو شعر نہ کہیں گے۔اکثر شعراء کی زبان سے کلام موزوں بلا قصد سرزد ہوتا ہے۔پس جو کلام بلا قصد سرزد ہو اُسے شعر نہ کہیں گے۔مگر بعضوں کے نزدیک قصد موزونی اور قافیہ ضروری نہیں۔
موسوم بہ اسم تاریخی
معرفت العروض
۸۹۷عیسوی سن تالیف
مؤلف
زلہ رباے خوان شعرائے ذوی الاقتداربندہ
بیج ناتھ سہائے فگارؔ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شعر
حمد اور نعت کی یہاں قدرت ہے کس کو فگارؔ
سر جھکا لیتے ہیں یہاں فہم و فراست والے
حمد اُس کی دریائے نا پیدا کنار ہےجس کے عبور کا وہم بھی غیر ممکنات سے ہے۔اور نعتِ آنحضرت بحرِ ذخّار ہے، جس میں شناوری کا خیال بھی محالات سے ہے نہ اس کی قدرت ہے نہ اس کا یارا ہے ۔ لہٰذا دونوں سے کنارا کر کے نفسِ مطلب عرض کرتا ہوں کہ اس زبان میں فارسی کی شاعری نام کی ہے۔اور اگر ہے بھی تو شاذ۔ہاں ! اُردو کی شاعری بزرگانِ کہنہ مشق میں اس وقت بھی ہے۔اور انہیں بزرگوں کی برکت سے انگریزی زمانے کے لوگوں میں بھی شوق ہو جاتا ہے۔ تحصیل عربی تو شاذونادِر ہے اور تحصیلِ فارسی کی یہ کیفیت ہے کہ تقریباً ہر فرقہ میں لڑکے فارسی سے ابتداء کرتے ہیں مگر تعلیم انگریزی کی وجہ سے فارسی فارسی تو نہیں ہونے پاتی مگر اُردو تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔اور یہ لوگ بھی کچھ نہ کچھ کر لے جاتے ہیں۔لیکن زبانِ اُردو قواعد فنِ شعر کے خیال سے زبانِ عربی اور فارسی کی تابع ہے۔اور اس فن کی کتابیں بھی انہیں زبانوں میں ہیں۔مگر جب اِن زبانوں ہی کا سمجھنا دُشوار ہے تو اِس فن کی تحصیل اِن زبانوں کی کتابوں سے دشوارتر ہے۔ بلکہ بعضوں کے واسطے محالات سے ہے۔اِس میں شک نہیں ہے کہ اکثر نسخے فنِ عروض کے اُردو زبان میں لکھے گئے ہیں۔مگر طرزِ بیان بعض میں قریب قریب اور بعض میں بالکل ویسی ہے جیسی عربی اور فارسی کی کتابوں میں ہے۔لہٰذا ان میں اکثر موقعوں پر اغلاق سے گریز نہیں ہو سکا۔بعض اس قدر مختصر ہیں کہ ضروری باتیں بھی فروگزاشت ہو گئی ہیں۔اگر کوئی رِسالہ جامع ہے اور طرزِ بیان بھی خوب ہے تو کم یاب ہے یا گراں ارز ہے۔
لہٰذا اس زلہ ربای خوانِ سخن ورانِ ذوی الاقتداریعنی بندہ بیجناتھ سہائے فگارؔخلف جناب منشی ٹھاکر پرشادصاحب المتخلص بہ طالبؔ شاگرد جناب فیض مآب منشی محمد ولایت علی خاں صاحب المتخلص بہ عزیزؔ رئیس قصبہ پر نور صفی پور تلمیذ رشید جناب نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اَسَدُاللہ خاں غالبؔ دہلوی نوراللہ مرقدہٗ نے اس رسالے کو آسان زبان میں بطورِ مکالمہ لکھا ہے۔اور یہ مکالمہ مابین ایک اُستاد اور ایسے دو شاگردوں کے ہے جو علومِ ضروری سے فارِغ ہیں۔اُستاد کو فخرؔ کے نام سے اور شاگردوں کو منظورؔ اور مسرورؔ کے نام سے بتلایا گیا ہے۔اور یہ کتاب ایک مقدمہ سات باب اور تیس فصلوں پر منقسم کی گئی ہے۔
مقدمہ
واضح ہوکہ خلیل بن احمد بصری نے علم عروض کو اِستخراج کیا ہے۔اور چونکہ وہ اس علم سے مکہ معظمہ میں ملہم ہوئے تھے۔اور عروض بھی ایک نام مکہ معظمہ کا ہے لہٰذا اس کو تیمناًاس نام سے موسوم کیا۔عربی میں بقول بعض حضرت آدم علیہ السلام اور بقول بعض سیرت بن قحطان شاعرِ اوّل ہوئے۔فارسی میں کوئی بہرام گور کو اور کوئی ابوحفص سغدی کواور کوئی رودکی کو شاعرِ اوّل بتلاتا ہے۔اردو میں شاعری کی ابتداء حضرت امیر خسرو دہلوی سے بتلاتے ہیں۔اور بعض اِس سے پیشتر کا بھی پتہ لگاتے ہیں۔منتہی کے واسطے بہت سے نسخہ جات جامع اگلے بزرگوں نے تالیف کیے ہیں۔یہ مختصر رِسالہ محض مبتدیوں کے لیے ہے۔اُستادانِ فنِ شعر سے دست بستہ التماس ہے کہ بخیال : ‘‘الانسان مرکب من الخطاء والنسیان ’’جہاں کہیں غلطی پائیں مؤلف کو اپنا پیرو سمجھ کر اُس کی اِصلاح فرمائیں۔
باب اوّل
فصلِ اوّل
عَروض: بالفتح اُس علم با اُصول اور با قواعدکا نام ہے جس کے ذریعہ سے شعر کی موزونیت اور عدم موزونیت دریافت کریں۔
شعر: بالکسر(زیرکے ساتھ)ایسے سخن موزوں کو کہتے ہیں جو بامعنیٰ اور با قافیہ ہو۔اور صاحب سخن نے اُس کی موزونیت کا قصد بھی کیا ہو۔جس سخن میں یہ جملہ باتیں نہ پائی جائیں ، اس کو شعر نہیں کہتے ہیں۔
موزوں: ہونےکی قید اس وجہ سے ہے کہ اُس سخن کو اوزانِ مقررۂ علم عروض کے موافق ہونا چاہیے۔
با معنیٰ : اس وجہ سے کہا گیا کہ اگر وہ سخن بے معنیٰ ہے تو مہمل ہونے کی وجہ سے شعر نہیں ہو سکتا۔مثلاً: شعر:
تجرید پاکبازیٔ قفس سے کیا ہوا
آخر وہی حصار علم مشغلہ ہوا
اس شعر میں علاوہ با معنیٰ ہونے کے جملہ باتیں عَروض کےموافق ہیں۔مگر مہمل ہے۔ لہٰذا اس کو شعر نہ کہیں گے۔
قصدموزونی : قصدموزونی کی قید اس وجہ سےہے کہ اگر یہ قید نہ ہو تو بعض آیات کلام مجید میں ایسی آئی ہیں جو موزوں ہیں۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو شعر نہیں بتلایا ہے۔لہٰذا اُن پر موزوں ہونے کا اِطلاق نہیں ہو سکتا۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر جہلاء کی زبان سے اَیسے فقرات بھی اَثنائے گفتگو میں نکل جاتےہیں جو موزوں ہوتے ہیں۔اور چونکہ ہر صاحب علم کا فنِ عَروض میں ماہر ہونا ضروری نہیں ہے۔لہٰذا اُن کا کلام قصداً موزوں بھی نہیں ہو سکتا ہے۔پس اَیسے کلام کو شعر نہ کہیں گے۔اکثر شعراء کی زبان سے کلام موزوں بلا قصد سرزد ہوتا ہے۔پس جو کلام بلا قصد سرزد ہو اُسے شعر نہ کہیں گے۔مگر بعضوں کے نزدیک قصد موزونی اور قافیہ ضروری نہیں۔
آخری تدوین: