میزان سخن المعروف بہ اسم تاریخی معرفت العروض از بیج ناتھ سہائے فگار|

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
میزان ِ سُخن

موسوم بہ اسم تاریخی

معرفت العروض

۸۹۷عیسوی سن تالیف

مؤلف

زلہ رباے خوان شعرائے ذوی الاقتداربندہ

بیج ناتھ سہائے فگارؔ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شعر

حمد اور نعت کی یہاں قدرت ہے کس کو فگارؔ

سر جھکا لیتے ہیں یہاں فہم و فراست والے

حمد اُس کی دریائے نا پیدا کنار ہےجس کے عبور کا وہم بھی غیر ممکنات سے ہے۔اور نعتِ آنحضرت بحرِ ذخّار ہے، جس میں شناوری کا خیال بھی محالات سے ہے نہ اس کی قدرت ہے نہ اس کا یارا ہے ۔ لہٰذا دونوں سے کنارا کر کے نفسِ مطلب عرض کرتا ہوں کہ اس زبان میں فارسی کی شاعری نام کی ہے۔اور اگر ہے بھی تو شاذ۔ہاں ! اُردو کی شاعری بزرگانِ کہنہ مشق میں اس وقت بھی ہے۔اور انہیں بزرگوں کی برکت سے انگریزی زمانے کے لوگوں میں بھی شوق ہو جاتا ہے۔ تحصیل عربی تو شاذونادِر ہے اور تحصیلِ فارسی کی یہ کیفیت ہے کہ تقریباً ہر فرقہ میں لڑکے فارسی سے ابتداء کرتے ہیں مگر تعلیم انگریزی کی وجہ سے فارسی فارسی تو نہیں ہونے پاتی مگر اُردو تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔اور یہ لوگ بھی کچھ نہ کچھ کر لے جاتے ہیں۔لیکن زبانِ اُردو قواعد فنِ شعر کے خیال سے زبانِ عربی اور فارسی کی تابع ہے۔اور اس فن کی کتابیں بھی انہیں زبانوں میں ہیں۔مگر جب اِن زبانوں ہی کا سمجھنا دُشوار ہے تو اِس فن کی تحصیل اِن زبانوں کی کتابوں سے دشوارتر ہے۔ بلکہ بعضوں کے واسطے محالات سے ہے۔اِس میں شک نہیں ہے کہ اکثر نسخے فنِ عروض کے اُردو زبان میں لکھے گئے ہیں۔مگر طرزِ بیان بعض میں قریب قریب اور بعض میں بالکل ویسی ہے جیسی عربی اور فارسی کی کتابوں میں ہے۔لہٰذا ان میں اکثر موقعوں پر اغلاق سے گریز نہیں ہو سکا۔بعض اس قدر مختصر ہیں کہ ضروری باتیں بھی فروگزاشت ہو گئی ہیں۔اگر کوئی رِسالہ جامع ہے اور طرزِ بیان بھی خوب ہے تو کم یاب ہے یا گراں ارز ہے۔

لہٰذا اس زلہ ربای خوانِ سخن ورانِ ذوی الاقتداریعنی بندہ بیجناتھ سہائے فگارؔخلف جناب منشی ٹھاکر پرشادصاحب المتخلص بہ طالبؔ شاگرد جناب فیض مآب منشی محمد ولایت علی خاں صاحب المتخلص بہ عزیزؔ رئیس قصبہ پر نور صفی پور تلمیذ رشید جناب نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اَسَدُاللہ خاں غالبؔ دہلوی نوراللہ مرقدہٗ نے اس رسالے کو آسان زبان میں بطورِ مکالمہ لکھا ہے۔اور یہ مکالمہ مابین ایک اُستاد اور ایسے دو شاگردوں کے ہے جو علومِ ضروری سے فارِغ ہیں۔اُستاد کو فخرؔ کے نام سے اور شاگردوں کو منظورؔ اور مسرورؔ کے نام سے بتلایا گیا ہے۔اور یہ کتاب ایک مقدمہ سات باب اور تیس فصلوں پر منقسم کی گئی ہے۔


مقدمہ

واضح ہوکہ خلیل بن احمد بصری نے علم عروض کو اِستخراج کیا ہے۔اور چونکہ وہ اس علم سے مکہ معظمہ میں ملہم ہوئے تھے۔اور عروض بھی ایک نام مکہ معظمہ کا ہے لہٰذا اس کو تیمناًاس نام سے موسوم کیا۔عربی میں بقول بعض حضرت آدم علیہ السلام اور بقول بعض سیرت بن قحطان شاعرِ اوّل ہوئے۔فارسی میں کوئی بہرام گور کو اور کوئی ابوحفص سغدی کواور کوئی رودکی کو شاعرِ اوّل بتلاتا ہے۔اردو میں شاعری کی ابتداء حضرت امیر خسرو دہلوی سے بتلاتے ہیں۔اور بعض اِس سے پیشتر کا بھی پتہ لگاتے ہیں۔منتہی کے واسطے بہت سے نسخہ جات جامع اگلے بزرگوں نے تالیف کیے ہیں۔یہ مختصر رِسالہ محض مبتدیوں کے لیے ہے۔اُستادانِ فنِ شعر سے دست بستہ التماس ہے کہ بخیال : ‘‘الانسان مرکب من الخطاء والنسیان ’’جہاں کہیں غلطی پائیں مؤلف کو اپنا پیرو سمجھ کر اُس کی اِصلاح فرمائیں۔

باب اوّل

فصلِ اوّل

عَروض: بالفتح اُس علم با اُصول اور با قواعدکا نام ہے جس کے ذریعہ سے شعر کی موزونیت اور عدم موزونیت دریافت کریں۔

شعر: بالکسر(زیرکے ساتھ)ایسے سخن موزوں کو کہتے ہیں جو بامعنیٰ اور با قافیہ ہو۔اور صاحب سخن نے اُس کی موزونیت کا قصد بھی کیا ہو۔جس سخن میں یہ جملہ باتیں نہ پائی جائیں ، اس کو شعر نہیں کہتے ہیں۔

موزوں: ہونےکی قید اس وجہ سے ہے کہ اُس سخن کو اوزانِ مقررۂ علم عروض کے موافق ہونا چاہیے۔

با معنیٰ : اس وجہ سے کہا گیا کہ اگر وہ سخن بے معنیٰ ہے تو مہمل ہونے کی وجہ سے شعر نہیں ہو سکتا۔مثلاً: شعر:

تجرید پاکبازیٔ قفس سے کیا ہوا

آخر وہی حصار علم مشغلہ ہوا

اس شعر میں علاوہ با معنیٰ ہونے کے جملہ باتیں عَروض کےموافق ہیں۔مگر مہمل ہے۔ لہٰذا اس کو شعر نہ کہیں گے۔

قصدموزونی : قصدموزونی کی قید اس وجہ سےہے کہ اگر یہ قید نہ ہو تو بعض آیات کلام مجید میں ایسی آئی ہیں جو موزوں ہیں۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو شعر نہیں بتلایا ہے۔لہٰذا اُن پر موزوں ہونے کا اِطلاق نہیں ہو سکتا۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر جہلاء کی زبان سے اَیسے فقرات بھی اَثنائے گفتگو میں نکل جاتےہیں جو موزوں ہوتے ہیں۔اور چونکہ ہر صاحب علم کا فنِ عَروض میں ماہر ہونا ضروری نہیں ہے۔لہٰذا اُن کا کلام قصداً موزوں بھی نہیں ہو سکتا ہے۔پس اَیسے کلام کو شعر نہ کہیں گے۔اکثر شعراء کی زبان سے کلام موزوں بلا قصد سرزد ہوتا ہے۔پس جو کلام بلا قصد سرزد ہو اُسے شعر نہ کہیں گے۔مگر بعضوں کے نزدیک قصد موزونی اور قافیہ ضروری نہیں۔
 
آخری تدوین:
میزان ِ سُخن

موسوم بہ اسم تاریخی

معرفت العروض

۸۹۷عیسوی سن تالیف

مؤلف

زلہ رباے خوان شعرائے ذوی الاقتداربندہ

بیج ناتھ سہائے فگارؔ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شعر

حمد اور نعت کی یہاں قدرت ہے کس کو فگارؔ

سر جھکا لیتے ہیں یہاں فہم و فراست والے

حمد اُس کی دریائے نا پیدا کنار ہےجس کے عبور کا وہم بھی غیر ممکنات سے ہے۔اور نعتِ آنحضرت بحرِ ذخّار ہے، جس میں شناوری کا خیال بھی محالات سے ہے نہ اس کی قدرت ہے نہ اس کا یارا ہے ۔ لہٰذا دونوں سے کنارا کر کے نفسِ مطلب عرض کرتا ہوں کہ اس زبان میں فارسی کی شاعری نام کی ہے۔اور اگر ہے بھی تو شاذ۔ہاں ! اُردو کی شاعری بزرگانِ کہنہ مشق میں اس وقت بھی ہے۔اور انہیں بزرگوں کی برکت سے انگریزی زمانے کے لوگوں میں بھی شوق ہو جاتا ہے۔ تحصیل عربی تو شاذونادِر ہے اور تحصیلِ فارسی کی یہ کیفیت ہے کہ تقریباً ہر فرقہ میں لڑکے فارسی سے ابتداء کرتے ہیں مگر تعلیم انگریزی کی وجہ سے فارسی فارسی تو نہیں ہونے پاتی مگر اُردو تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔اور یہ لوگ بھی کچھ نہ کچھ کر لے جاتے ہیں۔لیکن زبانِ اُردو قواعد فنِ شعر کے خیال سے زبانِ عربی اور فارسی کی تابع ہے۔اور اس فن کی کتابیں بھی انہیں زبانوں میں ہیں۔مگر جب اِن زبانوں ہی کا سمجھنا دُشوار ہے تو اِس فن کی تحصیل اِن زبانوں کی کتابوں سے دشوارتر ہے۔ بلکہ بعضوں کے واسطے محالات سے ہے۔اِس میں شک نہیں ہے کہ اکثر نسخے فنِ عروض کے اُردو زبان میں لکھے گئے ہیں۔مگر طرزِ بیان بعض میں قریب قریب اور بعض میں بالکل ویسی ہے جیسی عربی اور فارسی کی کتابوں میں ہے۔لہٰذا ان میں اکثر موقعوں پر اغلاق سے گریز نہیں ہو سکا۔بعض اس قدر مختصر ہیں کہ ضروری باتیں بھی فروگزاشت ہو گئی ہیں۔اگر کوئی رِسالہ جامع ہے اور طرزِ بیان بھی خوب ہے تو کم یاب ہے یا گراں ارز ہے۔

لہٰذا اس زلہ ربای خوانِ سخن ورانِ ذوی الاقتداریعنی بندہ بیجناتھ سہائے فگارؔخلف جناب منشی ٹھاکر پرشادصاحب المتخلص بہ طالبؔ شاگرد جناب فیض مآب منشی محمد ولایت علی خاں صاحب المتخلص بہ عزیزؔ رئیس قصبہ پر نور صفی پور تلمیذ رشید جناب نجم الدولہ دبیر الملک مرزا اَسَدُاللّٰہ خاں غالبؔ دہلوی نوراللّٰہ مرقدہٗ نے اس رسالے کو آسان زبان میں بطورِ مکالمہ لکھا ہے۔اور یہ مکالمہ مابین ایک اُستاد اور ایسے دو شاگردوں کے ہے جو علومِ ضروری سے فارِغ ہیں۔اُستاد کو فخرؔ کے نام سے اور شاگردوں کو منظورؔ اور مسرورؔ کے نام سے بتلایا گیا ہے۔اور یہ کتاب ایک مقدمہ سات باب اور تیس فصلوں پر منقسم کی گئی ہے۔


مقدمہ

واضح ہوکہ خلیل بن احمد بصری نے علم عروض کو اِستخراج کیا ہے۔اور چونکہ وہ اس علم سے مکہ معظمہ میں ملہم ہوئے تھے۔اور عروض بھی ایک نام مکہ معظمہ کا ہے لہٰذا اس کو تیمناًاس نام سے موسوم کیا۔عربی میں بقول بعض حضرت آدم علیہ السلام اور بقول بعض سیرت بن قحطان شاعرِ اوّل ہوئے۔فارسی میں کوئی بہرام گور کو اور کوئی ابوحفص سغدی کواور کوئی رودکی کو شاعرِ اوّل بتلاتا ہے۔اردو میں شاعری کی ابتداء حضرت امیر خسرو دہلوی سے بتلاتے ہیں۔اور بعض اِس سے پیشتر کا بھی پتہ لگاتے ہیں۔منتہی کے واسطے بہت سے نسخہ جات جامع اگلے بزرگوں نے تالیف کیے ہیں۔یہ مختصر رِسالہ محض مبتدیوں کے لیے ہے۔اُستادانِ فنِ شعر سے دست بستہ التماس ہے کہ بخیال : ‘‘الانسان مرکب من الخطاء والنسیان ’’جہاں کہیں غلطی پائیں مؤلف کو اپنا پیرو سمجھ کر اُس کی اِصلاح فرمائیں۔

باب اوّل

فصلِ اوّل

عَروض: بالفتح اُس علم با اُصول اور با قواعدکا نام ہے جس کے ذریعہ سے شعر کی موزونیت اور عدم موزونیت دریافت کریں۔

شعر: بالکسر(زیرکے ساتھ)ایسے سخن موزوں کو کہتے ہیں جو بامعنیٰ اور با قافیہ ہو۔اور صاحب سخن نے اُس کی موزونیت کا قصد بھی کیا ہو۔جس سخن میں یہ جملہ باتیں نہ پائی جائیں ، اس کو شعر نہیں کہتے ہیں۔

موزوں: ہونےکی قید اس وجہ سے ہے کہ اُس سخن کو اوزانِ مقررۂ علم عروض کے موافق ہونا چاہیے۔

با معنیٰ : اس وجہ سے کہا گیا کہ اگر وہ سخن بے معنیٰ ہے تو مہمل ہونے کی وجہ سے شعر نہیں ہو سکتا۔مثلاً: شعر:

تجرید پاکبازیٔ قفس سے کیا ہوا

آخر وہی حصار علم مشغلہ ہوا

اس شعر میں علاوہ با معنیٰ ہونے کے جملہ باتیں عَروض کےموافق ہیں۔مگر مہمل ہے۔ لہٰذا اس کو شعر نہ کہیں گے۔

قصد : موزونی کی قید اس وجہ سےہے کہ اگر یہ قید نہ ہو تو بعض آیات کلام مجید میں ایسی آئی ہیں جو موزوں ہیں۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو شعر نہی بتلایا ہے۔لہٰذا اُن پر موزوں ہونے کا اِطلاق نہیں ہو سکتا۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر جہلاء کی زبان سے ایسے فقرات بھی اثنائے گفتگو میں نکل جاتےہیں جو موزوں ہوتے ہیں۔اور چونکہ ہر صاحب علم کا فن عروض میں ماہر ہونا ضروری نہیں ہے۔لہٰذا اُن کا کلام قصداً موزوں بھی نہیں ہو سکتا ہے۔پس ایسے کلام کو شعر نہ کہیں گے۔اکثر شعراء کی زبان سے کلام موزوں بلا قصد سرزد ہوتا ہے۔پس جو کلام بلا قصد سرزد ہو اُسے شعر نہ کہیں گے۔مگر بعضوں کے نزدیک قصد موزونی اور قافیہ ضروری نہیں۔
بہت معلوماتی اور دلچسپ شراکت
اگر سکین کر کے شریک کریں تو وقت اور محنت کی کافی بچت ہو جائے گی
جزاک اللہ
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
بہت معلوماتی اور دلچسپ شراکت
اگر سکین کر کے شریک کریں تو وقت اور محنت کی کافی بچت ہو جائے گی
جزاک اللہ
السلام علیکم !
سیدعالی مقام!
حضرت یہ کتاب اردو ڈیجیٹل لائبریری میں موجود ہے۔
اسے ہم نے 4شیرڈ سے ابھی ابھی ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔
اور پڑھتے ہی خیال آیا کہ کیوں نہ ایک کنکر سے دو پنکھیوں کا شکار کیا جائے۔
تاکہ ہمارا مطالعہ بھی ہو جائے اور یونیکوڈ میں اس کتاب کی کمپوزنگ بھی۔
کتاب کا املا قدیم ہے۔ اوسکی بجائے اس کی۔ لکھا ہےجسے ہم نے یہاں تبدیل کر لیا ہے۔
کچھ لفظ سمجھ میں نہیں آرہے ہیں۔ اگر محفلین نے ہل من مزید کا نعرہ لگایا تو شاید شروع تا آخر کمپوزنگ ہو سکے۔
 
السلام علیکم !
سیدعالی مقام!
حضرت یہ کتاب اردو ڈیجیٹل لائبریری میں موجود ہے۔
اسے ہم نے 4شیرڈ سے ابھی ابھی ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔
اور پڑھتے ہی خیال آیا کہ کیوں نہ ایک کنکر سے دو پنکھیوں کا شکار کیا جائے۔
تاکہ ہمارا مطالعہ بھی ہو جائے اور یونیکوڈ میں اس کتاب کی کمپوزنگ بھی۔
کتاب کا املا قدیم ہے۔ اوسکی بجائے اس کی۔ لکھا ہےجسے ہم نے یہاں تبدیل کر لیا ہے۔
کچھ لفظ سمجھ میں نہیں آرہے ہیں۔ اگر محفلین نے ہل من مزید کا نعرہ لگایا تو شاید شروع تا آخر کمپوزنگ ہو سکے۔
زبردست جناب
جزاک اللہ :)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
فصل دوم:

مسرور: مجھے یہاں کچھ عرض کرنا ہے۔اور وہ یہ کہ شعر اور بیت اور فردیہ سب جدا جدا ہیں یا ایک ہیں۔کیونکہ آپ نے صرف شعر کا ذکر کیا ہے۔بیت یا فرد کا ذکر نہیں فرمایا۔

فخر: بیت مثنوی کے ہر شعر کو کہتے ہیں۔جو فرداً فرداً مقفیٰ ہوتے ہیں۔یعنی ہر دومصرعے باقافیہ ہوتے ہیں۔اور فرد غزل یا قصیدہ یا قطعہ کے ایسے ایک شعر کو کہتے ہیں جس کے مصرعہ اولیٰ میں قافیہ نہ ہو یہ سب اقسام شعر سے ہیں۔اور شعر ہر قسم کی نظم کو کہتے ہیں۔

منظور: کیا شعر کے بہت اقسام ہیں؟

فخر:ہاں! شعر کی دس قسمیں ہیں:

۱۔فرد۲۔ رُباعی۳۔ غزل۴۔قصیدہ۵۔ قطعہ۶۔ مثنوی۷۔ترجیع بند۸۔ ترکیب بند ۹۔مستزاد اور۱۰۔مسمط۔

مسرور:ان میں کیا فرق ہے؟

فخر:فرد کا ذکر آچکا ہے۔ رُباعی (بالضم) اَیسے دو اشعار کو کہتے ہیں جو باہم معنااً مربوط ہوں۔ وزن مقررہ رُباعی کے موافق موزوں ہوں۔ اور ہر مصرعہ اُن کا سوائے مصرعۂ ثالث کے مقفیٰ ہو۔ سوائے مصرعۂ ثالث ہم نے اس وجہ سے کہا کہ مصرعۂ ثالث کے مقفیٰ ہونے کی قید نہیں ہے۔ ہو یا نہو۔
 
آخری تدوین:

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
منظور: وزن مقررہ رُباعی سے کیا مطلب ہے؟

فخر: رُباعی کے واسطے چند اوزان مقرر ہیں۔ اُنہیں اوزان میں رُباعی کہنی دُرُست ہے۔ یہ تم کو بحروں کے بیان میں معلوم ہوگا۔
پ: مثال : رُباعی: انیسؔ : دُنیا دریا ہے اور ہوس طوفان ہے
پ: مثال : رُباعی: انیسؔ : مانند حباب ہستی انسان ہے
پ: مثال : رُباعی: انیسؔ : لنگر ہے جو دِل تو ہر نفس باد مراد
پ: مثال : رُباعی: انیسؔ : سینہ کشتی ہے نا خدا ایمان ہے
اس رُباعی میں مصرعۂ ثالث باقی اور مصرعوں کی طرح پر با قافیہ نہیں ہے۔ اور یہ رُباعیات عمر خیام کی جن کے ہر چہار مصاریع مقفیٰ ہیں۔ وہو ہذا:
در پردۂ اسرار کسے را رہ نیست
زین بقیہ چون جان کسے آگہ نیست
جز در دِل خاک ہیچ منزل گہ نیست
افسوس کہ این فسانہ ہم کوتاہ نیست
رُباعی دیگر:

گر صلح نہ یابم ز فلک جنگ اینک
در نام نکو نباشدم ننگ اینک
جام مئے و لعل ارغواں رنگ اینک
آنکس کہ نمی خورد سروسنگ اینک

غزل: بفتحتین، لغت میں عورتوں سے حسن و عشق کی باتیں کرنے کو کہتے ہیں۔ اور اصطلاح میں اُن اشعار کو کہتے ہیں کہ منجملہ ان کے شعر اول کے ہر دو مصاریع اور ما بقی اشعار کے مصاریع ثانی مقفیٰ ہوں۔ ان اشعار کی تعداد بعضوں کے نزدیک پانچ سے کم اور پچیس سے زائد نہیں ہے۔ مگر اب متاخرین اس سے زیادہ بھی کہتے ہیں۔فائدہ: بعض کا یہ قول ہے کہ ایک شخص عربی تھا جس نے اپنی تمام عمر رند مشربی اور عشق بازی میں بسر کی تھی اور سخن عشقیہ کہتا اور حسن و عشق کی تعریف کیا کرتا تھا اُس کا نام غزل تھا لہذا اس مضمون کے اشعار کو بھی غزل کہتے ہیں۔ غزل میں سوائے مضامین عاشقانہ کے اور مضامین نہ ہونے چاہئیں۔ مگر متاخرین نے اور بعض متقدمین نے یہ بھی اختیار کیا ہے کہ مضامین موعظتؔ و دُعاء و کلیہ و فخریہ کہتے ہیں۔ لیکن ایسے دو ایک اشعار ہوں تو مضائقہ نہیں ہے ورنہ کثرت معیوب ہے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
مثال : غزل: خواجہ حجو شرف

الٰہی خیر جو شر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

تامل اس میں اگر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

وہ جان لیتے ہیں ہم اُن پہ جان دیتے ہیں

نصیحتوں کا اثر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

مر ہی مٹیں گے ہم اے دِل یہی جو چشمک ہے

صفائی مد نظر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

کرے گا ناز تڑپنے میں ہم سے کیا بسمل

کمیٔ درد جگر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

وہ تیغ زن ہیں تو ہم بھی جگر پہ روکیں گے

جو احتیاجِ سپر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

وہ بے خبر ہیں جہاں سے تو ہم ہیں خودرفتہ

زمانے کی جو خبر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

خجل ہیں گالوں سے ان کے ہمارےداغوں سے

فروغ ِ شمس و قمر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

تم آئینہ میں یہ کس نازنین سے کہتے تھے

بغور دیکھ کمر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

شبِ مزار سے کچھ کم نہیں ہے شامِ فراق

اگر اُمید سحر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

وہ گالی دیں گے تو بوسہ شرفؔ میں لے لوں گا

لحاظ و پاس اگر وہاں نہیں تو یہاں بھی نہیں

یہ ساری غزل عاشقانہ ہے اور یہ اشعار کلیہ کی مثال ہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
شرفؔ
نوخیز ہی مرتا ہے تعشق کا رِیاضی
کامل نہیں ہوتا ہے یہ مشکل ہےفن ایسا
منزل میں محبت کی کہیں کا نہیں رہتا
اِس راہ میں لٹتا ہے غریب الوطن ایسا
یہ شعر مؤلف کا دُعائیہ کی مثال ہے :
یا خدا بند کہیں چشمِ مروت ہوجائے
ساری دُنیا کے بکھیڑوں سے فراغت ہوجائے
مثالِ موعظت:
خواجہ وزیر۔۔۔۔وزیر:
دیکھ طفلی میں بھی گہوارہ تو کر تابوت یاد
چاہیے آغاز میں رکھنا خیال انجام کا
مثال مضمون فخریہ:
آتشؔ:
مرا دیوان ہے اَے آتشؔ خزانہ
ہر اِک بیت اس میں ہے گنجِ معانی
قصیدہ:

پ پ پ لغوی معنیٰ سطیر اور غلیظ کے ہیں۔ اِصطلاح میں اُن اَشعار کو کہتے ہیں جن میں سے شعرِ اول کے ہر دو مصاریع اور ما بقی اشعار کے مصاریع ثانی مقفیٰ ہوں اور سارے ایک ہی قسم کے مضمون کے مظہر ہوں۔مثلاً: مضمون مدح، ہجو،موعظت وغیرہ ہوں۔یا ذکرِ بہار، سرما، گرما یا اور کسی قسم کے مضامین ہوں قصیدہ کی حد کم از کم پندرہ یا انیس اشعار ہے۔ اور زِیادہ کی حد مقرر نہیں ہے۔ قصائد بعض اوقات مضمون کی رِعایت سے اور بعض اوقات حروف کی رِعایت سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ مثلاً: بہاریہ، نعتیہ، لامیہ وغیرہم۔مثالیں قصائد کی سوداؔ کے یہاں بکثرت ہیں۔ اور دیگر شعراء کے یہاں بھی ہیں، بخیال طوالت قلم انداز ہوئیں۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
مسرورؔ : قصیدہ اور غزل میں کیا فرق ہے؟
فخرؔ : قصیدہ اور غزل میں علاوہ تعدادِ اَشعار کے یہ فرق ہے کہ قصیدہ کے جملہ اشعار ایک ہی مضمون کے مظہر ہوتے ہیں۔ غزل کے ہر شعر کا مضمون تمام ہوتا ہے۔غزل کے ایک شعر میں وصل کا بیان ہو تو دوسرے شعر میں ہجر کا ذِکر کر سکتے ہیں۔ مگر قصیدہ میں یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شعر میں مدح ہو اور دوسرے شعر میں ہجوبیان کریں۔
قطع(قِ+طٖ+ع=قطع) بالکسر ،بالفتح خطا ہے مگر فصحائے متاخرین نے اس کو جائز کیا ہے۔لغت میں ٹکڑا کرنے کو کہتے ہیں۔اِصطلاح میں اُن اَشعار کو کہتے ہیں جو ایک مضمون کے مظہر ہوں۔ اور محتاجِ یک دِیگر ہوں۔ ان اشعار کی تعداد کم از کم دو اشعار ہے۔زائد کی حد مقرر نہیں ہے۔ اور شعر اول کے ہر دو مصاریع کا مقفیٰ ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ قطع کو قصیدہ کا جزو کہنا چاہیے۔
مسرورؔ : توقصیدہ اور قطع میں بہت ہی کم فرق ہے۔
فخرؔ : قصیدہ اور قطع میں بہت فرق ہے۔ اول تو یہ کہ اشعار قصیدہ کے ایک دوسرے کے محتاج نہیں ہوتے۔قطع کے اشعار محتاج یک دیگر ہوتے ہیں۔دوسرے یہ کہ قصیدہ کے اَول شعرکے دونوں مصرعے مقفیٰ ہونے چاہئیں۔ قطع میں یہ ضروری نہیں۔ تیسرے قطع کے اشعار کم از دو بھی ہو سکتے ہیں۔ قصیدہ کے شعروں کی حد کم از کم پندرہ یا اُنیس اَشعار ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
السلام علیکم !
سیدعالی مقام!
حضرت یہ کتاب اردو ڈیجیٹل لائبریری میں موجود ہے۔
اسے ہم نے 4شیرڈ سے ابھی ابھی ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔
اور پڑھتے ہی خیال آیا کہ کیوں نہ ایک کنکر سے دو پنکھیوں کا شکار کیا جائے۔
تاکہ ہمارا مطالعہ بھی ہو جائے اور یونیکوڈ میں اس کتاب کی کمپوزنگ بھی۔
کتاب کا املا قدیم ہے۔ اوسکی بجائے اس کی۔ لکھا ہےجسے ہم نے یہاں تبدیل کر لیا ہے۔
کچھ لفظ سمجھ میں نہیں آرہے ہیں۔ اگر محفلین نے ہل من مزید کا نعرہ لگایا تو شاید شروع تا آخر کمپوزنگ ہو سکے۔
4shared کا لنک عنایت کریں۔ شکریہ
 
Top