میسنی

سب پوچھتے ہیں میسنی کون ہے۔۔۔۔؟
تو صاحبو سنو۔۔۔
میسنی وہ پگلی ہے جس نے شاید میرے لیے جنم لیا اور وہ جو میرے خیالوں میں تو بستی ہے مگر ابھی افق کے پرے سے میری حقیقتوں پر نہیں اتری۔ ہاں خیالوں میں آتی ہے کہ تڑپانا اسے بے حد عزیز ہے۔
میں کیا بتاؤں کون ہے؟ کیسی ہے؟ کاش میں شاعر ہوتا تو اس کے بدنی نشیب و فراز بیان کرتا۔ مگر نہیں کوئی عام شاعر اسے حرفوں میں تصویر کرنے سے تو رہا۔ ہاں میں امراءالقیس ہوتا تو شاید۔۔۔
شاید اسے قرطاس پہ اتار سکتا۔ وہ عام سی لڑکی جانے مجھے اتنی خاص کیوں لگتی ہے۔ مگر نہیں وہ اتنی بھی عام نہیں۔ اگر میں امراءالقیس کے الفاظ نقل کروں تو کہوں، وہ پچکے ہوئے پیٹ والی سیمیں بدن کے مثل ہے، اس کا سینہ شیشے کی طرح اجلا اور براق تھا۔
مگر کہاں امراءالقیس کی معجزہ بیانیاں اور کہاں ہم ایسوں کی حرف واظہار کی بے سروسامانیاں۔۔۔ لیکن ہم حسن عیاں کو بیان کرنے کو قیس کا دامن تھامے لیتے ہیں کہ شاید میرے حرفوں میں جان پڑجائے، میرا گونگا پن ٹوٹ جائے، تو آؤ پھر اس محبوبہ کا سراپا بیان کرنے کی ایک کوشش کرتے ہیں، اگر چہ ایک سعی لاحاصل ہے مگر کوشش تو کر ہی سکتے ہیں۔۔۔۔
مجھے بالکل یہ یقین ہے کہ لاکھ چاہوں بھی تو اسکا حسن بیان نا کر سکوں گا اور یہ یقین بے جا نہیں بلکہ میں اس سے پہلے کئی کوششیں کر بیٹھا ہوں مگر۔۔۔۔
میرے حرف بار بار دغا دے جاتے ہیں۔۔۔ الفاظ بے وفائی کر جاتے ہیں اور کبھی تو نین پران تک ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ مگر بدن کے سنہرے پن میں ڈوبا زرد پیراہن قلبوت میری تحریر کے قابو نہیں آتا۔۔۔
میں اس کی ایک ادا لکھتا ہوں تو دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔ ابھی آج ہی دیکھ لیجیے کہ میں اس کو قرطاس پہ تصویر کرنے بیٹھا ہوں مگر ابھی اپنی بے مائیگی اور کے احساس سے آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ وہ ظالم ہے ہی ایسی کہ اس کی ہر ہر ادا پہ جان لٹانےکو جی چاہتا ہے۔ کہ وہ جب اپنی صراحی ایسی گردن میں خفیف سا بل دے کر بال جھٹکتی ہے تو دل کا جھٹکا ہو ہو جاتا ہے۔
اسکی آنکھیں جھیل جیسی گہری جس کے پانی گدلے گدلے زرد نا تھے بلکہ صاف شفاف تھے۔ کبھی جب ان آنکھوں میں شرارت اور خوشی کے دیے روشن ہوتے تو یوں لگتا جیسے جھیل سیف الملوک پہ پریاں قطار اندر قطار اتر رہی ہیں۔ لب اس قدر آتشیں کہ یوں لگتا ابھی ان سے خون ٹپکنے لگے گا۔
اگرچہ اس سنگ مرمر کے بت کا ہر زاویہ، ہر گولائیاں اور ہر قوس میری آنکھوں میں نقش ہے مگر لاکھ چاہوں بھی تو یہ صورت دلپذیر کو کاغذ پہ نہیں اترتی۔ اور حرف تو یوں راہ فرار اختیار کرتے ہیں کہ بس پوچھیے نا۔
ہاں مگر اپ میری آنکھوں میں جھانک لیں تو شاید۔۔۔۔ شاید اس کا ایک پرتو پا سکیں۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہ
کیا خوب لکھا ہے " اس " دلبر دلدار بارے
جس کی صورت سدا آنکھ میں بسی رہتی ہے ۔۔۔۔
بہت سی دعاؤں بھری داد
بہت دعائیں
 
Top